نظام کو بدلنا ہوگا

اتوار 28 ستمبر 2014

Shabbir Rakhshani

شبیر رخشانی

ٓٹیبل پر پڑے فائلوں کا ڈھیر اور فون سے وہ اکتا چکا تھا۔ اور آفس میں لوگوں کی موجودگی اسکی بیزاری میں مزید اضافہ کر رہا تھا۔ کچھ نئے اور بہت سے پرانے چہرے جنکے چہرے دیکھ دیکھ کر ان سے بیزاری کا مظاہرہ اسکے چہرے کے تاثرات سے واضح ہو رہا تھا لیکن چونکہ وہ اسکے حامی تھے تو اسلئے انکے سامنے زبان سے بیزاری کا اظہار وہ نہیں کر رہے تھے۔

اسی اثنا شرکاء میں سے ایک شخص نے اپنے فائل اور کام کا یاد دلایا تو گہری سوچ میں چلے جانے پر انہیں معلوم ہی نہیں ہوا کہ مذکورہ شخص نے کیا کہہ دیا خیر سوالی نے دوبارہ اپنا سوال دہرایا تب بندہ خدمت گزار اپنے خیالات کی دنیا سے باہر آگئے تھے۔ تو فائل ڈھونڈتے ڈھونڈتے اسے کافی ٹائم لگا اپنا قیمتی وقت ایک فائل کے ڈھونڈنے میں لگانے پر اول تو انہیں اپنے آپ پر غصہ آگیا اور پھر غصے کا آدھا حصہ سوالی پر نکال دیا بھری محفل میں سوالی بھی شرمندہ ہوئے نہ رہ گیا خیر مجلس میں بیٹھے ہر شرکاء اپنے کام کے متعلق گزارش کرنے کے لئے بیتاب تھے لیکن انہیں فائل نہ ملنے کی وجہ سے انکا پورا توجہ فائل ہی کی طرف تھا۔

(جاری ہے)

خیر آدھا گھنٹہ گزرنے کے بعد فائل مل گیا۔ اس دوران ٹیلیفون کی گھنٹی بار بار ماحول کو ڈسٹرب کرنے کا ذریعہ بن رہا تھا۔ کوئی اپنے پوسٹنگ ٹرانسفر، تو کوئی روڑ پرمٹ، تو کوئی ٹھیکداری، تو کوئی دفتری مسئلہ، تو کوئی غیرحاضری پر معطل کئے جانے کے حوالے سے تو کسی کا کوئی اور مسئلہ۔ الغرض ہر کوئی اپنا انفرادی مسئلہ لیکر دفتر ہٰذا میں حاضر تھا تو دوسری طرف فون کی گھنٹی خاموشی کا نام نہیں لے رہا تھا۔

فائلوں کی بھر مار، ٹیلیفون اٹینڈ کرنا، مجلس میں بیٹھے حاضرین کے مسائل سننا اور انکا حل ڈھونڈنا وغیرہ وغیرہ روز روز کے معمول بن چکے تھے۔ کسی کو ٹرانسفر کرانا ہے تو اسکے دفتر ہٰذا فون کیا اسکے مسئلے پر متعلقہ دفتر کے سربراہ کو مسئلے کے حل کے لئے اقدامات اٹھانے کو کہا۔ یہاں تک کہ حاضرین میں سے ایک نے یہ تک کہہ دیا کہ انکا بنک میں اکاوٴنٹ نہیں بن رہا ہے بنک عملے پر زور دیا جائے کہ انکا اکاوٴنٹ بنائے تو عجیب سی حیرانگی ہوئی کہ یہ چھوٹا کام بھی سفارش کے بنا نہیں ہوتا۔

صبح سے دوپہر، دوپہر سے سہ پہر اور سہ پہر سے شام ہو چکی تھی لیکن حاضرین مجلس ابھی تک مجلس کو برخاست نہیں کرنا چاہ رہے تھے تو صاحب کرسی نے اپنے کرسی سے اٹھنا مناسب سمجھا۔ اٹھتے اٹھتے مجھے اتنا کہہ گیا کہ آپکو کیا کام تھا۔ میں نے تو سارا دن خاموشی میں گزارا تھا اور مجلس برخاست ہونے تک اپنا کام بھول چکا تھا بس اتنا کہہ گیا کہ بس آپکا دیدار کرنے آیا تھا دیدار ہو گیا اب جناب والا سے اجازت چاہتا ہوں۔


موجودہ دور میں ہمارے ادارے بالکل مفلوج ہو چکے ہیں۔ جہاں لوگوں کے مسائل حل نہیں ہوتے۔ اجتماعی خدمت کے بجائے انفرادیت کا رجحان بڑھ گیا ہے۔ لوگ دفاتروں کے چکر کاٹتے کاٹتے تھک جاتے ہیں لیکن انکے مسائل حل نہیں کئے جاتے اور چھوٹے سے چھوٹا کام چاہے وہ کیوں نہ قانونی ہو سفارش یا رشوت کے بغیر نہیں چلتا۔ اور ان چیزوں نے اداروں کو کھوکھلا کر کے رکھ دیا ہے۔

چاہے آپ کتنا ہی ایماندار اور باعزت نہ ہوں لیکن یہی ادارے آپکے عزت نفس کو مجروح کرنے اور وٴپکو بے ایمان بنانے اور رشوت دینے پر مجبورکر دیتے ہیں آخر کیوں، کیونکہ اداروں میں عرصہ دراز سے یہی ہوتا چلا آرہا ہے جسکی وجہ سے اکثر و بیشتر نوجوان یا تو مایوسی کا شکار ہو جاتے ہیں یا بیرون ملک جا کر کوئی جاب ڈھوندتے ہیں۔ لاقانونیت کی جڑیں مضبوط ہو چکی ہیں۔

انصاف فراہم کرنے والے ادارے ہی ناانصافی کے اصل ذرائع ہیں جہاں سے ان اداروں اور اداروں سے وابسطہ افراد کو مکمل تحفظ فراہم ہو جاتی ہے۔ عدالتوں سے لیکر نیب تک، احتساب سے لیکر میرٹ کے ادااروں میں ناانصافی، رشوت، کرپشن، کی واضح مثالیں دی جا سکتی ہیں۔ سابقہ دور حکومت میں بلوچستان پبلک سروس کمیشن میں بڑے پیمانے پر بے ضابطگیاں سامنے آگئیں۔

میرٹ کی دھجیاں اڑائی گئیں۔ نالائق لوگوں کو بڑے بڑے پوسٹوں پر تعینات کیا گیا۔ بلوچستان کے نوجوان آج بھی چیرمین بلوچستان پبلک سروس کمیشن کے خلاف آواز بلند کرتے نظر آتے ہیں لیکن تاحال نہ مذکورہ بالا آفیسر کے خلاف کوئی کاروائی عمل میں لائی گئی اور نہ سابقہ ریکارڈ کو ہاتھ لگایا گیا جہاں بڑے پیمانے پر بے ضابطگیاں عمل میں لائی گئیں اور آج بھی ان انتظامی اور بڑے پوشنوں پر نالائق آفیسران تعینات ہیں۔

جس سے آج بھی نوجوانوں کے اعتماد میں اضافہ نہیں کیا گیا ہے کیونکہ جب تک سابقہ ادوار میں ہونے والی ناانصافیوں سے پردہ نہیں اٹھایا جاتا اور انکے خلاف قانونی چارہ جائی عمل میں نہیں لائی جاتی بے اعتمادی کی یہ فضا اسی طرح برقرار رہے گی۔ اور اسکے ساتھ ساتھ نظام میں کرپشن، سفارش کلچر کو ختم کرنے کے لئے اقدامات اٹھائے نہیں جاتے یہ سلسلہ اسی طرح جاری و ساری رہے گا۔

اسکے لئے موجودہ دفاتری کلچر کو ختم کرنا ہو گا۔ جو ک سفارش کے اعلیٰ ذریعہ ہیں۔ ہونا تو یہ چاہئے کہ اداروں کو پابند کیا جائے کہ لوگ اپنے قانونی اور اصولی کاموں کے لئے سفارش کا دروازہ نہ کھٹکھٹائیں بلکہ انکے مسائل انہی وابسطہ اداروں سے حل کئے جائیں اگر قانونی کام حل نہیں کئے گئے تو ان اداروں کے سربراہاں کے خلاف کاروائی عمل میں لائیں تاکہ یہ سفارش کلچر اپنے جڑ سے ختم ہو جائے اور غیرقانونی کاموں کی روک تھام اور رشوت سے اداروں کو پاک کرنے کے لئے میرٹ کے بنیاد پر سربراہاں کی تقرری عمل میں لائیں اور ان کی کارکردگی پر نظر رکھ کر جانچ پڑتال کا بہتر نظام ڈالیں۔

جب نظام ہی اچھا ہوگا تو کسی کو کیا ضرورت ہے سفارش کرنے کی اور رشوت کلچر کو پراوان چڑھانے کی ۔ بس ضرورت ہے اس نظام کو بدلنے کی۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :