سینٹر آف گریویٹی

جمعہ 26 ستمبر 2014

Anwaar Ayub Raja

انوار ایوب راجہ

دونوں ہی اپنی منزل پر پہنچ گئے ، انڈیا سپیس میں اور میاں صاحب امریکہ ۔۔۔۔۔ دونوں اپنے اپنے مدار میں گردش کر رہے ہیں ۔دونوں کا سینٹر آف گریویٹی مختلف ہے ۔جو جس کی کوشش کرتا ہے اسے پا لیتا ہے ۔میں نے ایک روز ایک بزرگ سے پوچھا کہ میں امیر کب ہو سکتا ہوں ، انھوں نے ہنس کے جواب دیا جس دن تمہارے ذہن کی غربت ختم ہو جائے گی ۔میں نے وضاحت طلب کی تو بولے " وہ کبھی امیر نہیں ہو سکتا جو ذہنی پستی کا شکار اور خوف کا مرید ہو "۔

میں ابھی بھی کچھ سمجھ نہ پایا تو با با جی بولے " بیٹا تم نے فزیکس پڑھی ہے ؟' میں نے جواب دیا کہ بس اتنی ہی جتنی سکول میں پڑھائی گئی۔بابا جی نے پوچھا ، تمہیں سینٹر آف گریویٹی کا مطلب پتہ ہے ؟ میں نے گزارش کی کہ وہ اس پر خود ہی روشنی ڈال دیں۔

(جاری ہے)

با با جی مسکرائے اور بولے " سائنس کہتی ہے کہ سینٹر آف گریویٹی وہ نقطہ ہے کہ جس کے گرد باقی ماندہ طاقتیں ختم ہو جاتی ہیں ۔

جہاں تک انسانی زندگی کا تعلق ہے تو ہر شخص کے لیے اس کی روح کا ایک سینٹر آف گریویٹی ، اس کے وجود کا ایک سینٹر آف گریویٹی اور اس کی سوچوں کا ایک سینٹر آف گریویٹی ہوتا ہے ۔جو جسے چاہتا ہے اس کا ہو جاتا ہے یا اسے پا لیتا ہے ۔ایک سینٹر آف گریویٹی قوم کا بھی ہوتا ہے جو اگر مثبت ہو تو قومیں ترقی کرتی ہیں اور کامیاب ہو جاتی ہیں اور اگر یہ منفی ہو تو ان قوموں کو خوف کی غلامی کرنی پڑ جاتی ہے ۔

اب اس کا اطلاق ایک شخص پر بھی ویسے ہی ہوتا ہے جیسے ایک قوم اور معاشرے پر ، جو خوف سے آزاد ہوا وہ خود کفیل اور امیر ہو گیا ، یہ سب راز سینٹر آف گریویٹی میں پنہا ں ہیں ، آپ جسے اپنا سینٹر آف گریویٹی بنائیں گے وہ آپ کی کامیابی یا ناکامی کا نقطہ آغاز بھی ہو گا اور انجام بھی " ان باتوں کو میں اگر آج کے تناظر میں دیکھوں تو میرے خیال سے انڈیا امیر ہوتا جا رہا ہے اور پاکستان خوف کا غلام ۔

اسے اس غلامی میں کس نے دھکیلا؟ جواب سب کو معلوم ہے مگر چونکہ ہم ذہنی پستیوں کے ہیڈ کوارٹر کے بہت پاس رہتے ہیں اس لیے ہمیں کچھ فرق نہیں پڑتا ، بس سب اپنے اپنے بینک محفوظ بنا رہے ہیں .
مجھے بچپن سے نقشے بہت پسند ہیں ، میرے پاس پچھلے اٹھارہ سال میں جمع ہونے والے نقشوں کا ایک صندوق تھا جو میرے ساتھ ساتھ سفر کر رہا تھا ۔ان نقشوں کو دیکھتے دیکھتے سال گزر گئے میں نے انہیں سنبھال کر رکھا اور ان کی موجودگی نے میرے اندر ایک کہانی نویس کو جنم دیا ۔

میں جہاں کا سفر کرتا ہوں وہاں کے نقشے کو پہلے دیکھتا ہوں اور سفر پہ جانے سے پہلے اس علاقے پر معلومات حاصل کرتا ہوں تا کہ سفر اچھا گزرے ۔یہ صندوق بحری قزاق کے صندوق کی مانند تھا ۔اس کے تین کونوں میں سوراخ تھا اور ایک کونہ ڈینٹ پڑنے کو وجہ سے کافی حد تک گھر کے دیگر فرنیچر کے ساتھ میچ نہیں کر رہا تھا آپ کہہ سکتے ہیں کہ ریشم پر ٹاٹ کا پیوند تھا۔

اس سے پہلے کہ اس صندوق میں موجود میرا یہ سرمایہ ردی والے کے پاس جاتا خاتون اول کے ساتھ ا یک دن ایک ڈیل طے پائی کہ ان نقشوں کو اور ان کتابوں کو کہ جن کی موجودگی گھر میں ایک تیسرے فرد کی موجودگی تسلیم کی جا رہی تھی گھر سے باہر نکال دیا جائے مگر ردی میں نہ دیا جائے ۔
میں نے اسے اپنے شیڈ میں منتقل کر دیا ، اور بے فکر ہو گیا مگر ایک رات کسی نا معلوم شخص نے میری دولت لوٹ لی ۔

کوئی بے ذوق چور آیا ،اس نے تمام کریٹ کھولے اسے اس کے مطلب کی کوئی چیز نہیں ملی اور اس نے مایوسی میں کتابوں کو باہر پھینکتے ہو? اس بات کی بھی قدر نہیں کی کہ یہ میری زندگی کا اثاثہ تھا ۔اس نے وہ تمام نقشے بھی پھاڑ دیے جن کو میں اکثر دیکھ کر تھوڑی آزادی محسوس کرتا۔ اس نا معلوم شخص کی اس کاروائی کے بعد میں نے شیڈ صاف کیا تو میری نظروں سے ایک پھٹا ہوا نقشہ گزرا۔

یہ نقشہ دنیا کے سب سے دور افتادہ جزیرے Cunha da Tristan ( ٹرسٹن ڈے کونا) کا نقشہ تھا جو بحر اوقیانوس میں سب سے زیادہ دور دراز آباد جزائر میں سے ایک ہے ۔ یہ جزیرہ سینٹ ہلینا ( جہاں نپولین نے جلا وطنی اور زندگی کے آخری ایام گزارے ) سے کوئی 2400 کلومیٹر دور اور ساوٴتھ افریقہ سے 3360 کلو میٹر دور سمندر میں واقع ہے ۔ہزاروں میل دور تک کسی انسانی آبادی کا کوئی نام و نشان نہیں ، یعنی مکمل طور پر تنہا زمین کا ٹکڑا ، ہر طرف پانی ہی پانی ، بے انتہا تنہائی اور بے شمار پانی ۔

اس جزیرے کا کل رقبہ 98 مربع کلومیٹر ہے اور اس پر 297 لوگ مستقل آباد ہیں ۔ان سب کا سینٹر آف گریویٹی یہی جزیرہ ہے ۔ یہاں ایک آتش فشاں بھی ہے جو اگست 1961 میں جوش میں آیا اور 13 اکتوبر 1961 کو یہ آتش فشاں قیامت بن کر اس جزیرے کے لوگوں پر آگ کی صورت برسا ۔ٹرسٹن ڈے کونا برطانیہ کا سمندر پار علاقہ ہے لہٰذا 1961 میں اسے خالی کروایا گیا اور ان تمام باشندوں کو ایک بحری جہاز میں ایک طویل مسافت کے بعد برطانیہ لایا گیا ۔

انہیں رائل ایئر فورس کے ایک کیمپ میں ساوٴتھ ہیمپٹن کے پاس رکھا گیا ۔یہ ان لوگوں کے لیے ایک نیا جہان تھا ، یہ ان کے سینٹر آف گریویٹی سے دور ایک نیا جزیرہ اور نیا ماحول تھا .
ٹرسٹنرز کے لیے برطانیہ میں کچھ نہیں تھا ، وہ ملک جہاں آنے کے لییسب ترستے ہیں یہ لوگ یہاں آتے ہی خود کو محصور تسلیم کرنے لگ گئے ۔چونکہ یہ دنیا کے دور افتادہ ترین جزیرے سے آئے تھے لہذا ان پر تحقیقات کے لیے ڈاکٹروں کی ٹیمیں انہیں ملنے آتیں ، انہیں تحائف ، کھانا اور کپڑے ملتے مگر یہ سب بے سکون تھے ، ان سب کے لیے آسمان کو چھوتیں عمارتیں ، روشنیوں کے یہ شہر ، سڑکوں پر فراٹے بھرتی گاڑیاں اور آسمانوں میں سفر کرتے اڑن کھٹولے کوئی معنی نہیں رکھتے تھے۔

انہیں فکر تھی کہ ان سے ان کا گھر چھن گیا ، انہیں تشویش تھی کہ ان کی ثقافت آلودہ ہو رہی ہے ، انھیں ڈر تھا کہ اس رنگ و بو کی سلطنت میں کہیں یہ لالچ اور جرم جیسے امراض کا شکار نہ ہو جائیں ، ان کا سب سے بڑا مسئلہ یہ تھا کہ کہیں ان سے ان کا سینٹر آف گریویٹی نہ چھن جائے۔ اپریل 1963 میں ان لوگوں نے اپنے سینٹر آف گریویٹی کی طرف لوٹنے کا فیصلہ کیا اور سب کے سب واپس اسی خاموش دنیا میں چلے گئے جہاں ٹی وی ، ریڈیو ، سینما کچھ نہیں تھا بس وہ تھے اور ان کا سینٹر آف گریویٹی تھا ۔


ابھی ناجانے کتنے اور سال لگیں گے جب پاکستان کے عوام اور حکمران سینٹر آف گریویٹی کے تصور کو سمجھ پائیں گے ۔سب امریکہ کی جانب بھاگنے کے بجائے اگر اپنے مرکز کی جانب دھیان دیں تو ممکن ہے کہ غریب کو دو وقت کی روٹی ، دہلیز پر انصاف اور وقت پر دوائی مل جائے ۔خوف کا راج ختم ہو سکتا ہے اور ہم سب امیر ہو سکتے ہیں ، پھر کوئی چاند پر جائے یا یا مریخ پر ہمیں اس سے کوئی فرق نہیں پڑے گا کیونکہ ہم کسی کے سینٹر آف گریویٹی کے گرد نہیں بلکہ اپنی مٹی کا طواف کریں گے ۔

۔۔۔۔۔اسی سوچ کے ساتھ میں نے اپنا شیڈ صاف کیا اور اس پھٹے ہوئے نقشے کو باقی کاغذات کے ساتھ ایک ڈبے میں ڈالا تا کہ خود کو یاد کرواتا رہوں کہ میرا بھی ایک سینٹر آف گریویٹی ہے اور مجھے اس کے اصولوں کی پاسداری کرنی ہے ۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :