عجب رشتے

جمعہ 26 ستمبر 2014

Hussain Jan

حُسین جان

آنکھیں کھولتے ہی غربت و امارت کا احساس نہیں ہوتا پینے کو دودھ ملے یا پانی محسوس نہیں ہوتا ،سوکھی چمڑی والی زرد آنکھوں میں اُمید کے خواب لیے ماں اپنی چھاتی منہ میں ڈال ہی دیتی ہے کہ خون نکلے یا دودھ اولاد کا پیٹ تو بھرئے گا۔پھر ایک اور جان پیٹ میں ڈال دی جاتی ہے کہ ایک اور ایک گیارہ ہوتا ہے،لیکن پھر کچھ اور لو کے لالچ میں آنگن میں کیٹرئے مکڑوں کی طرح بھوک ننگ کی تصویر بنے چار پانچ پھرتے نظر آتے ہیں۔

سب کچھ خدا پر ڈالنے والی قوم محنت سے جی چُراتی ہے جب کہ جو محنت کرتا ہے پھل بھی اُسے ہی ملتا ہے۔ اپنے اردگردنظر آنے والے بہن بھائیوں کی شکل میں گدھ ہر وقت ایک دوسرئے کا شکار کرتے نظر آتے ہیں زندگی کے رنگ بھی دو طرح کے ہوتے ہیں امارت و غربت ان کی تقسیم میں ایک پرسراریت چھپی رہتی ہے جو وقت کے ساتھ ساتھ انسان پر آشکار ہوتی ہے۔

(جاری ہے)

پھر ایک وقت آتا ہے ایک دوسرئے پر مرنے والے ایک دوسرئے کو مارنے پر تل جاتے ہیں میت گھر پر ہوتی ہے بٹوارہ شروع ہو جاتا ہے،گھر میں جمع ہونے والے عزیز و اقارب جو کہ خون چوسنے والی جونکوں سے کم نہیں ہوتے اُن کے سامنے عزت بہال رکھنے کے لیے کچھ وقت کے لیے بٹوارئے کو منسوخ کر دیا جاتا ہے، لاشے کو غسل کے دوران دماغ میں ہر چیز گھومتی ہے کہ کیا چیز زیادہ کارآمد ہے اُسی پر ہاتھ صاف کیا جائے۔

بہوبیٹیاں بین کرتے وقت سب سے زیادہ لاڈلی بننے کی کوشش میں نظر آتی ہیں جو زیادہ چھاتی پیٹے گی وہی نیک بخت کہلائے گی کوئی کان سے بالی اُتارنے کی منصوبہ بندی کر رہی ہے تو کوئی باپ کی گھڑی پر نظر جمائے بیٹھا ہے۔ یہ سب وہی ہیں جو مرنے سے پہلے اپنے اپنے گھروں میں خوشی کے شادمیانے بجاتے تھے لیکن ساتھ ساتھ دوسروں کے سامنے اپنی اپنی مصروفیت کو رونا بھی روتے تھے۔

یہ وہی ہیں جو اپنے بچوں کے لیے سارا سارا دن خوار ہونا پسند کرتے ہیں مگر جو ان کے لیے خوار ہوئے اُن کے لیے ان کے پاس وقت نہیں۔ میرئے بچے پڑھ لکھ جایں تاکہ اُن کے مستقبل کے ساتھ ساتھ ہمارا آنے والا کل بھی محفوظ ہو جائے،دفتر ،دُکان،سرکاری ،نجی مزدور ٹھیکدار سب کہ سب بچوں کے لیے وقت نکالتے ہیں مگر افسوس صد افسوس جنہوں نے اُن کے لیے وقت نکالا آج انہی کے لیے وقت نہیں۔

ہوسکتا ہے یہ مکافات عمل ہو مگر کیا یہ روش اسی طرح چلتی رہے گی کوئی ہوگا جو بگاڑ کو سدھار سکے۔ دکھنے میں تو یہ ناممکن نظر آتا ہے مگر ہے نہیں ۔
کہتے ہیں انسان کی تربیت میں اُ س کے والدین کا بڑا حصہ ہوتا ہے لیکن اس کے ساتھ معاشرہ بھی انسان کو سکھانے کے عمل میں برابر کا شریک ہوتا ہے۔ مانا کہ والدین اچھی تربیت نہیں کر پائے تو کیا سکولوں میں موجود اساتذہ بھی اپنا کردار ادا کرنے میں ناکام ہو گئے ،ہوسکتا ہے سکول کے اُستا کی نظر میں بچا چھوٹا تھا اسی لیے تربیت میں کمی راہ گئی تو کیا کالج و یونیورسٹیوں کے اساتذہ میں بھی اتنا دم خم نہیں تھا۔

چلیں ان کو بھی چھوڑئیں ان سب کے ساتھ ساتھ بہت سے دوسرئے رشتے بھی جڑئے ہوتے ہیں جو ہر وقت پیار جتانے میں کوئی کسر نہیں چھوڑتے وہ بھی اس معاشرتی عمل کو تبدیل کرنے میں کامیاب نہ ہوسکے۔ وہ جو اُن کا بوجھ اُٹھا تے اُٹھاتے خود کا بوجھ اُٹھانے کے بھی قابل نہیں رہے تو اُن کو چھوڑ کیوں دیا۔ اچھے مستقبل کے لیے ملک کو چھوڑنے والے اُن کو کیوں نہ ساتھ لیجاسکے، بڑئے پیار سے کہ دیا جاتا ہے وہ اپنے معاشرئے کو چھوڑنے پر تیار نہیں تو پھر تم اُن کے لیے خودکو کیوں نا بدل پائے،غلطی شائد اُن کی بھی ہو جو اپنے ہاتھوں سے اُن کو خود سے دور کر لیتے ہیں اور بعد میں گلے شکوئے کرتے دیکھائی دیتے ہیں ،مٹی بھی تب تک پھل پھول نہیں دیتی جب تک اُسے پانی نہیں ملتا ،تو ہم کیوں خشک زمین سے اناج اُگانے کی کوشش کرتے ہیں۔


یہ رشتے واقعی عجیب ہوتے ہیں چلتے پھرتے انسان کا دم بھرتے ہیں مگر جیسے ہی کوئی بستر سے لگا پھر اُسی کا دم گھوٹنے کی ترکیبیں ڈھونڈتے پھرتے دیکھائی دیتے ہیں۔ ایک بہو ،نند ،ساس ہو جا داماد بیٹا یا بہنوئی زندگی میں اُسی کی قدر کی جاتی ہے جس کی جیب گرم ہو ٹھنڈے کو تو قبر میں ہی اُتارا جاتا ہے۔ رشتوں پر بڑئے بڑئے افسانے لکھنے والوں کو آخری وقت میں ہی کیوں ان کا احساس ہوتا ہے ،معاشرئے کی تربیت جن کی زمہ داری ہوتی ہے اپنے بہتر کل کے لیے حاکم وقت کی طریفیں کیوں لکھنے بیٹھ جاتے ہیں۔

ماں ،بہن،بھائی ،والد کے جنازے میں شرکت کرنے کے لیے ہزاروں میل کا سفر کرنے والے اتنی دوریاں بڑھاتے ہی کیوں ہیں،سلسلہ ِ روزگار اک بہانہ سہی یوں مستقل دور رہنا کہاں کا انصاف ہے، دوران سفر پرانی یادوں کو یاد کرکے آنسوں بہانے کا کیا فائدہ ،بچوں سے باپ کی شفقت بیان کرنا لاحاصل کہ اب تو وہ تصدیق کرنے کو کہاں بچا۔ خود کو فرمابردار کہلوانے کے لیے ختم و درود پر لاکھوں خرچ کردیتا ہے مگر زندہ کے لیے چند لمحے نکالنامشکل کیوں ہوجاتا ہے۔

اپنے بچوں کے لیے اپنے والدین کے بچوں کو کیوں بھول جاتا ہے وہ تو الگ گھر کا منصوبہ کئی عشروں سے بنا رہا ہوتا ہے مگر بے گھر بہن بھائیوں کے گھر کا کرایا کون ادا کرئے گا۔ حکومتی جلسوں میں لیڈر کے لیے نعرئے لگانے والا خود کے باپ کی ہر بات پر تنقید کیوں کرتا رہتا ہے۔
سیلف میڈ ہونے کا طعنہ دہراتے دہراتے وہ اتنا آگے نکل جاتا ہے کہ پھر تہناہی اُس کی ساتھی ہوتی ہے۔

عید ِ قرباں کے لیے بچوں کو خوش کرنے کے لیے بڑئے سے بڑا جانور خریدنے والا اپنوں سے جانور کی طرح کیوں سلوک کرتا ہے۔ دوسروں سے ہروقت خوش مزاجی سے گپیں ہانکنے والے اپنوں کے لیے زہر خند کیوں بن جاتے ہیں۔ دوسروں کی شادیوں میں لٹانے کے لیے پیسہ پانی کی طرح بہانے والے سے جب کوئی اپنا سوال کرتا ہے تو تب وہ جیب خالی ہونے کا رونا کیوں روتا ہے۔

اپنے بچوں کو مہنگے سکول میں داخل کروانے والا اپنے ہی باپ کو سرکاری ہسپتال میں مرنے کے لیے کیوں چھوڑ دیتا ہے،دوسروں کے حق سے اپنی اولاد کو بہتر مستقبل دینے والا دوسروں کے بہتر مستقبل کے لیے کیوں نہیں سوچتا۔
ہیں نہ عجیب رشتے نہ سمجھ میں آنے والے پل میں تولہ پل میں ماشہ بن جانے والے رشتوں کو سمجھنے کے لیے حقیقت میں راکٹ سائنس کی ضرورت پڑتی ہے،اس گتھی کو سلجھانے میں بڑئے بڑئے دانشور ناکام ہوچکے ہیں۔

رشتوں کاپہیہ چلنے پر آتا ہے تو اپنے ساتھ سب کو چکرا کر رکھ دیتا ہے۔ اس کے چکروں سے نکلنے کے لیے ریاض کی ضرورت ہے اور اس کے لیے ہمارئے پاس وقت کی کمی ہے۔ لیکن پھر بھی ہم ان رشتوں کو نبھانے کی قسمیں کھاتے ہیں بڑئے بڑئے دعوئے کرتے ہیں پارسا بننے کی کوشش کرتے ہیں لیکن حقیقت میں ہم کسی بھی رشتے کو نبھانے میں مکمل طور پر ناکام ہیں۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :