میاں نواز شریف کے نام۔۔۔انتہائی معذرت کے ساتھ

بدھ 24 ستمبر 2014

Chaudhry Muhammad Afzal Jutt

چوہدری محمد افضل جٹ

ہمارے قائد وزیر اعظم میاں محمد نواز شریف نے 19کو پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے کہ وطن عزیز میں آئین و قانون کی حکمرانی،پارلیمنٹ کی بالادستی،اداروں کی مضبوطی،جمہوریت اور جمہوری قدروں کے استحکام کی خاطر وہ اپنی جدوجہد جاری رکھیں گے وہ کسی کو یہ اجازت نہیں دیں گے کہ وہ اپنی ذاتی تسکین کے لئے جمہوریت کے پودے پر کلہاڑے سے وار کرے ملکی ترقی و خوشحالی کا راستہ آئین و قانون کی پگڈنڈیوں سے ہی نکلے گا ملک میں جنگل والا راج”جس کی لاٹھی اس کی بھینس“نہیں قائم ہونے دیا جائے گاہم کسی ایسی روائیت کو پنپنے نہیں دیں گے کہ جب اور جس وقت کسی کا دل چاہے چند افراد کو ورغلا کر پھسلا کر حکومت سے مستعفی ہونے کا مطالبہ کر دے اپنی انا کی تسکین کے لئے منتخب نمائندوں کو گھر بھیجنے کی کوششیں شروع کر دے کوئی کھیل تماشہ،فتنہ وفساد،کوئی لانگ مارچ یا کوئی شارٹ مارچ ہمیں اپنے اہداف سے دور نہیں کر سکتا ملکی تعمیرو ترقی کا سفر جاری و ساری رہے گا پارلیمنٹ ہاوس کسی فرد واحد کی جاگیر نہیں یہ اٹھارہ کڑوڑ عوام کی امنگوں،جذبوں،جمہوری سوچ کا مینار ،پاکستان کا وقار،جمہوریت کی بالادستی اور آئین و قانون کی حکمرانی کا سمبل ہے اور اس کی توہین اٹھارہ کڑوڑ عوام کی توہین ہے ووٹ کے تقدس،کمزوریوں سے پاک ،شفاف انتخابی نظام کی تشکیل،جمہوریت اور پاکستان کے وقار کے تحفظ کی خاطر آخری حد تک بھی جانا پڑا تو جائیں گے میں اپنے حلف کی پاسداری کرتے ہوئے عوام کی آرزوؤں کی تکمیل اور ملک کی عزت و ناموس کی خاطر ہر وہ قدم اٹھاؤں گا جس سے ملک و قوم کا وقار سر بلند و ذی وقار ہو ۔

(جاری ہے)


میرے قائد آپ نے بجا فرمایاکہ قوم نہیں چاہتی کہ کوئی ان کے منتخب کردہ وزیراعظم سے اپنی انا ء کی تسکین کے لئے استعفیٰ طلب کرے نہ ہی عوام کسی کو یہ حق دیتی ہے کہ کوئی دھرنوں کے ذریعے حکومت کی تبدیلی کا مطالبہ کرے کیونکہ عوام نے مسلم لیگ ن کو پانچ سال تک حکومت کرنے کا مینڈیٹ دیا ہے عوام نے کسی راہنماء کو یہ حق نہیں دیا کہ وہ چند ہزار لوگوں کی جھتہ بندی کے ساتھ پارلیمنٹ پر دھاوا بول کر عوام کے منتخب نمائندوں کو گھر بھیجنے پر مجبور کرے یہ طریقہ قانونی ہے نہ آئینی ہے اور دستور پاکستان میں بھی ایسی کوئی شق نہیں موجود نہیں کہ اس طرح حکومت کو تبدیل کیا جائے اور اگر ایسا ہوگا تو سیاسی انتشار میں اضافہ ہو گا بلکہ پوارا سیاسی نظام درہم برہم ہو جائے گا جمہوریت کی تو definationہی یہی ہے کہ اکثریت جو فیصلہ کرے وہی acceptہو۔

مگر اس بات کا جواب کون دے گا کہ کسی حقدار کو حق نہ ملے مظلوم کی داد رسی نہ ہو انصاف کا متلاشی عدل کے لئے ہر در سے مایوس ہونہ کوئی اس کی آہ وبکار سنے اور نہ ہی اس کی تشفی کے لئے اس کے آنسو پونچھے عمران خان ایک سال تک دھاندلی کا رونا روتا رہا مگر اس کی آواز نہیں سنی گئی اور نہ ہی ان کے دھاندلی کے الزامات کی تحقیق کی گئی اور اگر عمران خان کے دھاندلی کے الزامات پر کوئی ایکشن لیا جاتا تو آج اتنا بڑا بحران پیدا ہوتا نہ تعمیرو ترقی کے سفر میں کوئی رکاوٹ پیدا ہوتی۔


جہاں تک میاں صاحب 18کڑوڑ عوام کا تعلق ہے وہ تو کل بھی اپنے مسائل سے دو چار تھے آج بھی مشکلات کی دلدل میں پھنسے ہوئے ہیں ان کا کوئی پرسان حال نہیں اور نہ ہی ان کو کوئی امید ہے کہ کوئی ان کے دکھوں کا مداوا کرے گا ان کی پریشانیوں کا حل ڈھونڈے گا مہنگائی ،بے روزگاری اور لوڈ شیڈنگ جیسے عذاب کا انہیں کل بھی سامنا تھا اور آج بھی وہ اسی کرب میں مبتلا ہیں مزدور کو مزدوری نہیں مل رہی کسان کو اپنی فصل کی آبیاری کے لئے پانی نہیں مل رہا غریب مزدور دیہاڑی دار کو اپنے بچوں کا پیٹ بھرنے کے لئے کیا کیا جتن کرنے پڑ رہے ہیں اس کا ادراک حکومت کو ہے نہ عمران خان کو اور نہ ہی اس کا احساس ان لوگوں کو ہے جو ان کے ووٹوں سے منتخب ہوکر پارلیمنٹ میں پہنچے ہیں پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس میں کسی نے حکومت کی حمایت میں دھواں دار تقریر کی تو کسی نے موجودہ حکومت کو ناکام حکومت ثابت کرنے کے لئے ایڑی چوٹی کا زور لگایا مگر کسی نے 18کڑوڑعوام کے ان دکھ درد کا تذکرہ نہیں کیا جن کو جھیلنا اب شائد ان کا مقدر بنتا جا رہا ہے عوام سابقہ حکومت سے بھی مایوس تھے اب مسلم لیگ کی حکومت سے مایوس نظر آ رہے ہیں ایم این ایز اور ایم پی ایز ریاست کے اندر ریاست کے رواج کو پروان چڑھا رہے ہیں حلقہ کی عوام کے ووٹوں سے منتخب ہونے والا اپنے حلقے کو اپنی ریاست قرار دیکر اس پر اپنی حاکمیت کا دعوی کر رہا ہے ان لوگوں کے کارندے چوری ڈکیتی،راہزنی اور بھتہ خوری جیسے سنگین جرائم کا رتکاب کرنے کے باوجود قانون کی گرفت سے اس لئے آزاد ہوتے ہیں کیونکہ ان کو حلقے کے نام نہاد حاکم کی آشیر باد حاصل ہوتی ہے یہی وجہ ہے کہ ہمارے ملک میں کرائم ریٹ سب سے زیادہ ہے۔


وہی سر پہ مسلطّ ہے شبِ غم
اندھیرے ہر طرف چھا ئے ہوئے ہیں
نہیں ملتی خوشی کی اک کرن بھی
مہ و خورشید گہنائے ہوئے ہیں
میاں صاحب ملک کو درپیش مسائل اتنے بھی پیچیدہ نہیں کہ ان کا حل نہ نکل سکے مگر اسکے لئے خلوص نیّت،تدبر ،تفکر اور تنظیم کا ہونا ضروری ہے جو بعض وزیروں اور مشیروں میں نظر نہیں آ رہا بلکہ ان کے بیانات موجودہ بحران کواورزیادہ ہوا دے رہے ہیں مسلم لیگی کارکن تو یہاں تک کہتے ہیں کہ حالیہ سیاسی انتشار کچھ وزیروں اور مشیروں کی منفی سوچ کا نتیجہ ہے لیکن ہمیں امید ہے ہمارا قائد اپنی دور اندیشی اور مدبرانہ سوچ سے ملک و قوم کو اس سیاسی اور معاشی بحران سے ضرور نکال لے گا ۔انشاء اللہ

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :

متعلقہ عنوان :