میاں برادران کے نو رتن

بدھ 24 ستمبر 2014

Abdul Raheem Anjaan

عبدالرحیم انجان

کھلتا کسی پہ کیوں میرے دل کا معاملہ
شعروں کے انتخاب نے رسوا کیا مجھے
میاں محمد نواز شریف ایک تو خود بھی اچھے خاصے ضدی انسان ہیں، کسی بات پر اڑ جائیں تو مشکل ہی سے مان کے دیتے ہیں، یہ اُن کے خلاف محض پرو پیگنڈہ نہیں، ایک افسوس ناک حقیقت ہے کہ ہمارے ناقص جمہوری نظام نے انہیں ظلِ سبحانی بنا دیا ہوا ہے ،اوپر سے اُن کی کچن کیبنٹ کے نو رتنوں نے بھی انہیں اچھا خاصا رسوا کیا ہے۔

جو بے سرو پا بیان بازی کے حوالے سے اچھے خاصے تماشا بن چکے ہوئے ہیں۔’بڑے میاں تو بڑے میاں چھوٹے میاں سبحان اللہ ‘ کے مصداق چند دن پہلے میاں شہباز شریف کے صاحبزادے سلیمان شہباز حامد میر کے کیپٹل ٹالک میں فرما رتہے تھے ۔” عمران خان کے اپنے بچے تو لندن کے الیٹ کلادس سکولوں میں پڑھتے ہیں۔

(جاری ہے)

“ خیر میاں فیملی نے تو لوٹ کھسوٹ کے سوا کچھ نہیں سیکھا مجھے افسوس حامد میر صاحب پر ہے، جو سلیمان کے اس بے حودہ اعترا ض کے جواب میں یہ جانتے ہوئے بھی کہ مغربی ممالک میں فیملی لاء کیا ہیں؟ خاموش رہے۔

میاں سلیمان شہباز صاحب ! علیحدگی کی صورت میں نا بالغ بچے ہمیشہ ماں کے ساتھ رہتے ہیں،قانون تو ہمارے یہاں بھی یہی ہے لیکن ہمارے یہاں با اثر شہزادے قانون کو خاطر میں کب لاتے ہیں، جہاں تک الیٹ کلاس کے سکولوں میں پڑھنے کی بات ہے۔ آپ کو شا ید معلوم نہیں کہ جمیما خان ایک کھرب پتی باپ گولڈ سمتھ کی بیٹی ہے۔بی۔ بی ۔ سی کی ایک حالیہ رپورٹ کے مطابق جب عمران خان کی طلاق ہو رہی تھی ۔

تو جج نے عمران خان صاحب سے کہا تھا۔یہاں کے قانون کے مطابق تم جمیما کے اثاثوں میں اپنا حصہ لے سکتے ہو۔جس کے جوا ب میں عمران خان نے کہا تھا۔’مجھے جمیما کے اثاثوں میں سے ا یک پیسہ بھی نہیں لینا۔‘ لوٹ کھسوٹ ہم پاکستانیوں کی پہچان بن چکی ہوئی ہے اوردنیا جو ہمارے لیڈروں کی بے رحم لوٹ کھسو ٹ کے قصے کہانیا ں سن سن کر حیران ہوتی رہتی ہے ، وہ عمران خان کے اس جواب سے حیران تو یقیناً ہوئی ہو گی۔

بہر کیف، عمران خان ایسے ہی ہیں،اُن کی آنکھوں میں جنم جنم کے بھوکوں والی بھوک نہیں ہے۔جو کبھی ختم ہی نہیں ہوتی اور نہ ہی ان کی آنکھ میں شرم بیدار ہوتی ہے۔بس سونے کی کان( اقتدار) سے جوکوں کی طرح چمٹے ہوئے ہیں۔اب تو الیکشن کمیشن نے بھی مان لیا ہے کہ الیکشن ۲۰۱۳ ء ء ایک شرمناک دھاندلی کا پلندہ ہے۔ساری دنیا میں پاکستانی شور مچا رہے ہیں کہ ”گو نواز گو“ یہاں تک کہ ایشن گیمز میں پاکستانی تماشائیوں نے بھی ’ گو نوا زگو‘ کے نعرے بلند کئے ہیں۔

لیکن میاں نواز شریف ’ڈنڈا ڈوری‘ کے منتظر ہیں کہ عزت سے وہ کبھی نہیں گئے۔
بہر کیف ، ذکر تھا میاں محمد نواز شریف کے نو رتنوں کا۔ اپنے زمانے کے معروف گلو کار جناب جنید جمشید ، جو گلوکاری چھوڑ کر تبلیغی جماعت میں شامل ہو چکے ہوئے ہیں، نے جناب عمران خان کے موقف کی تائید میں بیان جاری کیا تو اُن کے جواب میں موجودہ حکومت کے وزیر دفاع جناب خواجہ آصف نے فرمایا۔


” کپڑے بیچنے سے یا اپنا حلیہ تبدیل کر لینے سے کوئی عزت مند یا بڑا آدمی نہیں بن جاتا۔“ ذرا غور فرما ئیں ، یہ کسی ماجھے ساجھے کا نہیں، موجودہ حکومت کے وزیر دفاع کا بیان ہے۔جس کے جواب میں جناب جنید جمشید نے فرمایا۔”عزت و ذلت تو اللہ دیتا ہے۔میرے لئے جنہوں نے بھی یہ کہا ہے ، میں نے انہیں معاف کیا۔“ اگر خاندانی شرم و حیا اور اخلاقیات کو پیمانہ بنا کر اس مکالمہ بازی پر غور و فکر کیا جائے تو خواجہ آ صف کے ساتھ اُن کے اپنے شہر کے لوگو ں نے ، موصوف کی طرف سے افواج پاکستان کے خلاف شرمناک الزام تراشی کے جواب میں، انہیں جوتے دکھاکر اور اُن پر جوتے پھینک کر جس شرمناک صورت حال کو جنم دیا تھا۔

جناب جنید جمشید کا جواب تو مجھے اُس شرمناک سانحہ سے بھی بڑا سانحہ لگتا ہے ۔ لیکن ایسے سانحات کو محسوس کرنے کے لئے احساس کی ضرورت ہوتی ہے،جبکہ ہمارے ہاں سیاست کے مید ان میں لوگوں کے پاس صرف زبان ہوتی ہے۔احساس نہیں ہوتا ۔ سیاسی جانبازوں ہی کی طرح کچھ صحافی بھی سر سے پاوٴں تک تماشا گر نظر آتے ہیں۔جنہیں پڑھتے یا سنتے ہوئے گہن سی آتی ہے۔

شاید یہ اُس گہن ہی کا خوف تھا کہ میں پچھلے دنوں اپنے شہر ٹورونٹو میں ایک مشاعر ے سے محروم رہ گیا۔جس مشاعرے میں شرکت کے لئے مجھے ای۔ میل بھی بھیجا گیا تھا اور ایک قریبی دوست نے مجھے مشاعرے میں چلنے کے لئے بھی کہا تھا۔جس کے جواب میں مجھے اپنے دوست کو یہ کہنا پڑا۔’‘’نہ جانے ہمارے اشفاق حسین صاحب کو کیا ہو گیا ہے کہ اتنے معیاری مشاعر ے پیش کرتے کرتے کرتے ا ب وہ میاں برادران کے حاشیہ بردارو ں کو شاعر بنا کر پیش کرنے لگے ہیں۔


قارئین کرام ! تنقید اور تجزئے صحافت کی بنیاد ہی نہیں ، حسن بھی ہو تے ہیں،لیکن شرط سچائی کا ساتھ دینے کی ہوتی ہے ۔ میرے قریب ” غیر جانب داری “ توکوئی چیز نہیں ہے ، کوئی بھی لکھنے والا کسی جذبے یا احساس یا نظریات کے ساتھ جانب داری کے بغیر کیسے لکھ سکتا ہے؟ اور ایک بے لاگ اور کھرا لکھنے والا ہمیشہ سچائی کا جانب دار ہوتا ہے۔


جام جہاں نما ہے میرے شاہ کا ضمیر
سو گند و گواہ کی حاجت نہیں مجھے
جب شاہ کے ساتھ ساتھ شاہ کے حاشیہ برداروں کا ضمیر بھی بیمار ہو تو پھر ایسے ہی تماشے دیکھنے کو ملتے ہیں۔جیسے ہم جیو پر دیکھ رہے ہیں۔ امر یکی کانگرس نے اپنے مطالبوں کی ایک فہرست پاکستان کو بھجوائی ہے جس کی پہلی شرط یہ ہے کہ اگر ہمارے سفیر میاں نواز شریف کو ہٹایا گیا تو ہم پاکستان کی امداد بند کر دیں گے۔

لیکن جیو کے ایک پروگرام میں سابق چیف آف آرمی سٹاف جنرل بیگ اپنے ہی جیسے ایک بیمار ذہنیت کے صحافی کے ساتھ بیٹھ کر عمران خان کی ، اپنے حقوق کے لئے عوام کو جگانے کی، تحر یک پر الزام لگاتے ہیں کہ یہ سب کچھ کسی بیرونی سازش کے نتیجے میں ہو رہا ہے۔میاں صاحب کے کچھ حاشیہ بردار تو عمران خان کی ذہنی کیفیت کی بیماری کے سرٹیفکیٹ جاری کرتے بھی نظر آتے ہیں۔

میں اس سے پہلے بھی اپنے کسی کالم میں لکھ چکا ہوا ہوں کہ صنف ِ نثر نگاری میں سب سے مشکل صنف مزاح نگاری ہے اور بیڑا غرق ہو صحافت میں لفافے شامل کرنے والوں کا کہ جنہوں نے ایک اعلیٰ پائے کے مزاح نگار سے ایک ادیب کی حیثیت سے اس کا بھرم چھین لیا ہے۔
عمران خان سے اپنی سیاسی زندگی میں کافی غلطیاں ہوئی ہیں۔ ان کی سب سے بڑی غلطی تو یہ ہے کہ جب میاں محمد نواز شریف کی درخوا ست پر چیف آف آرمی سٹاف جنرل راحیل شریف نے انہیں اور ڈاکٹر طاہر القادری کو بلا کر یہ کہا تھا کہ میاں محمد نواز شریف مستعفی ہونے کے علاوہ اُن کے باقی سارے مطالبے ماننے کے لئے تیار ہیں اور باقی کے مطالبوں کے لئے میں ضمانت دینے کے لئے تیار ہوں ۔

میں یہ سمجھ رہا تھا کہ عمران خان صاحب کو جنرل راحیل شریف صاحب کی ضمانت پر میاں صاحب کے مستعفی ہونے کی شرط سے دست بردار ہو کر اپنا دھرنا ختم کر دینا چاہیے تھا۔ لیکن اب شہری آبادی میں نام نہاد جمہوری غنڈوں کے خلاف جو تبد یلی دیکھنے میں آ رہی ہے،اُسے دیکھتے ہوئے میں پورے یقین کے ساتھ کہہ سکتا ہوں کہ پاکستان میں ایک عام پاکستانی جس تبدیلی کے خوا ب دیکھتا تھا،جس تبدیلی کے نام پر ہمارے جمہوری غنڈے اُن سے ووٹ ہتھیا لیا کرتے تھے۔

اب وہ تبدیلی اپنے پَر پرزے نکال رہی ہے۔جو بہت ہی خوش آئند بات ہے۔کروڑوں روپئے غریب قوم کے اپنی پرٹوکول کے مزے اڑانے پرخرچ کرنے والے کم ذات لوگو ں کے لئے اپنے ہفتہ وار پروگرام ”میرے مطابق “ میں جناب حسن نثار کہہ رہے تھے۔ ایسے بے حس لوگوں کو الٹا لٹکا کر چھتر مارنے چاہیے۔
مجھے ابھی ابھی نیویارک سے ایک دوست کا فون آیا ہے۔جن کے مطابق نیو یارک میں بھی میاں صاحب کے شاندار استقبال کی تیاریاں بڑے اعلیٰ پیمانے پر ہو رہی ہیں۔

جہاں لوگ امریکہ کو اس کے نام نہاد جمہوری روّیوں کی شرم دلانے کے لئے ’ گو نواز گو ‘ کے نعرے نہیں لگائیں گے۔’ گو بے شرم گو ‘ کے نعرے لگائیں گے۔میں نے جب سے یہ سنا ہے۔بڑے افسوس کے ساتھ سوچ رہا ہوں۔ہمارے یہاں ’وزارت عظمیٰ ‘ کا منصب کس درجہ مظلوم ہو چکا ہے۔اگر ’ گو بے شرم گو ‘ کا نعرہ لگایا گیا تو یہ ’وزارت عظمیٰ ‘ کے وقار کے ساتھ ایک سنگین مذاق ہو گا۔ کاش ! میاں صاحب میں بھی یہ احساس پیدا ہو جائے۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :