84 واں قومی دن اور سعودی عرب

بدھ 24 ستمبر 2014

Badshah Khan

بادشاہ خان

تیئس ستمبر سعودی عرب کی جدید تاریخ میں وہ دن ہے جس طرح چودہ اگست پاکستان کی تاریخ میں سب سے اہم دن سمجھا جاتا ہے ،مگر افسوس چند برسوں سے یہ پاکستان میں جوش وخروش سے نہی منایا جارہا۔ تاہم سعودی حکومت اپنا 84 واں قومی دن منا رہی ہے ۔قوموں کی تاریخ میں چند دن بہت اہمیت کے حامل ہوتے ہیں ،اور زندہ قومیں ان دنوں ،لمحات کو یاد رکھتی ہیں،یہ لمحات یا تو خوشی کے ہوتے ہیں یا پھر قومی سانحات کے ۔

عظیم قومیں ان سانحات اورفتوحات کو ہمشہ یاد رکھتی ہیں اور اپنے آنے والی نسلوں کو منتقل کرتی ہیں،تاکہ وہ ان سے محبت کرے اور سبق حاصل کرئے۔سعودی عرب کا 84 واں قومی دن پورے سعودی عرب سمیت دنیا بھر میں سعودی سفارتخانوں میں منایا جارہا ہے ، پاکستان کا بردار ملک سعودی عرب تاریخی اعتبارسے ہمشہ جزیرہ العرب میں ممتاز رہا ہے۔

(جاری ہے)

دینی حوالے سے اگر دیکھا جائے تو سب سے پہلے انسان اور نبی حضرت آدم علیہ سلام نے اس سرزمین پر بیت اللہ کی تعمیر کی، بعد میں اسی جگہ اسی مقام پر حضرت ابرہیم علیہ سلام دوبارہ اسی جگہ تعمیر کیا۔

آپﷺ کے آنے کے بعد اس کی حیثیت اور بڑھ گئی۔اور مسلمانوں کا مذہبی مرکز بن گیا۔جدید سعودی بادشاہت کی بنیاد 1932 میں شاہ عبدالعزیز نے رکھی اور تقریبا بیس سالوں تک اس کی ترقی کے لئے محنت کی جن کے بعد شاہ سعود ،شاہ فیصل،اور شاہ فہد نے سعودی عرب اور امت مسلمہ کے لئے تاریخ ساز کام کئے ۔حرمین شریفین کی توسیع ہو یا فلسطین،کشمیر کا مسئلہ، پاک بھارت جنگ ہو یا ایٹمی دھما کوں کے بعد پابندیاں،دنیا بھر میں قدرتی آفات ہوں یا جنگوں سے تباہ حال مسلمانوں کی مدد ہو یا خارجہ پالیسی ،روس کے خلاف جہاد ہو یا شام کا مسئلہ آل سعود نے ہمیشہ اچھا کردار ادا کیا۔

ایک سرکاری سعودی رپورٹ کے مطابق مقدس مقامات کی توسیع پر70 ارب ریال(22 ارب ڈالرز) سے زیادہ خرچ کئے جا چکے ہیں۔ تعلیم پر سعودی حکومت کی خصوصی توجہ ہے، اپنے بجٹ کا ۲۵ فیصد تعلیم پر خرچ کررہی ہے صرف پرائمری اور تحقیق کے شعبے میں 13سے71 بلین ڈالرز خرچ کئے جارہے ہیں۔28ملین والے ریگستانی ملک جس میں دنیا کے سب سے بڑے ذخائر یعنی پورے دنیا کے ۲۵ فیصد تیل کا مالک سعودی عرب کا شمار دنیا کے دس مضبوط معیشتوں میں ہوتا ہے ۔

پاکستان کا ہمیشہ قریبی دوست رہا ہے ،پاکستانی عوام کے دل سعودی عرب کی عوام کے ساتھ دھڑکتے ہیں،کئی لاکھ پاکستانی اس وقت ذریعہ معاش کے لئے سعودی عرب میں مقیم ہیں ۔جن کی وجہ سے پاکستان کو کثیر زرمبادلہ موصول ہوتا ہے۔اکتوبر 2005 کے زلزلے میں پاکستان کو سب سے زیادہ عطیات سعودی حکومت اور عوام نے دئیے۔یہ تو وہ روشن پہلو ہیں جو رہتی دنیا تک یاد رکھے جائیں گے۔

لیکن نائن الیون کے بعد اور بالخصوص عراق اور مصر کے معاملے نے ایک نیا رخ اختیار کرلیا ہے ۔اور اپنے مفادات کے تحفظ کے لئے امریکہ کے بھت زیادہ قریب ہوگیا ہے ۔حالیہ دنوں میں جدہ میں ہونے والی اینٹی ٹیرراسٹ کانفرنس جس میں عرب ممالک امریکہ کے ساتھ داعش کے معاملے میں کھڑے ہوئے ،اب داعش کیا ہے ؟اس کے پس منظر میں کون ہے ایک الگ بحث ہے ،مگر مغرب کے مفادات واضح ہیں جس میں مغربی میڈیا کے ساتھ ساتھ چند ایشیائی ممالک کا خفیہ ہاتھ ملوث بھی ہے،جس سے آج عراق تقسیم کے دھانے پر ہے۔


اگر چہ سعودی عرب کے14پنے چینلز بھی موجود ہیں جو کہ آن ایئر ہیں ۔ تاہم اس شعبے میں مزید سرمایہ کاری کی ضرورت ہے۔یہ دور میڈیا کا ہے اور اپنی آواز پہنچانے کا موثر ذریعہ بن چکا ہے 84 قومی دن کے حوالے سے پاکستان میں بھی تقریب منعقد کی جارہی ہے ،سعودی عرب کے پاکستان سے ہمیشہ مثالی تعلقات رہے ہیں ،اور مزید بہتر ہونگے۔،اس موقع مناسبت سے یہ ضرور لکھنا چاہتا ہوں پاکستان سمیت دنیا بھر کے مسلمان سعودی حکومت سے یہ توقعات رکھتے ہیں کہ وہ مسلم امہ کے اتحاد میں بنیادی کردار اداکرسکتے ہیں، سعودی عرب اورپاکستان اسلامی ممالک میں اہم مقام رکھتے ہیں،اوراکثر اسلامی ممالک اور ان کی عوام کی نظریں ان پرہوتی ہیں،مگر بہت افسوس سے لکھنا پڑرہا ہے کہ دونوں ممالک کی رائے اور خارجہ پالیسی مختلف ہے اس وقت شام سے لیکر مصر تک امت مسلمہ بحران کا شکار ہے،اور دونوں الگ موقف رکھتے ہیں ایک شام میں آپریشن کا حامی ہے تو دوسرا جمہوری راستہ اپنانے پر زور دہ رہا ہے،ایک مصر میں فوج کا حامی ہے تو دوسرا جمہوری حکومت کے بحالی کا حامی ہے،ایک کی ایران کے ساتھ دوستی ہے اور دوسرا اس کا سخت مخالف، حالانکہ اس وقت پاکستان میں مسلم لیگ کی حکومت ہے جس کے سربراہ وزیر اعظم میاں نواز شریف سعودی حکمرانوں کے انتہائی قریب سمجے جاتے ہیں ،جن کے لئے بہت آسان ہے کہ وہ دونوں ممالک کے تضادات ختم کرنے میں اہم کردار ادا کرتے ہوئے ایسی مشترکہ خارجہ پالیسی بنائے جو دونوں ممالک اور اسلامی ممالک کی عوامی امنگوں کی ترجمان ہو ان کا موقف فلسطین ،کشمیر،افغانستان،برما ،مصر اور شام پر ایک ہو اس وقت عرب لیگ ہو یا او آئی سی دونوں ادارے عضو معطل بن چکے ہیں،لیکن یہ دونوں جن میں ایک ایٹمی ملک ہے اور دوسرا حرمین شریفین کی وجہ سے ممتاز مقام رکھتا ہے امت مسلمہ کی آواز بن سکتے ہیں،آج مغربی میڈیا میں بھارت کے سلامتی کونسل کے مستقل ممبر بنانے کا شور وغوغا ہے ،مگر60 اسلامی ممالک میں سے کسی ایک کو بھی مستقیل ممبر بنانے کو تیار نہی اور نہ ہی کوشیش کی جارہی ہے،حالانکہ سعودی عرب کا شمار دنیا کی دس بڑی اور مضبوط معیشتوں میں ہوتا ہے ۔

84 واں سعودی قومی دن کے خوشی کے موقع پرپوری دنیا سے سعودی حکومت اور سفارتخانوں کو مبارک باد موصول ہورہی ہیں،تقریبات میں صدور ،وزراہ شرکت کر رہے ہیں،وہیں مسلم دنیا کی عوام سعودی حکمرانوں سے یہ توقع نیک رکھتی ہے کہ جس طرح سعودی حکمران حاجیوں کی خدمت اور خادم الحرمین و شریفین کہلانے والے اسی طرح مسلمانوں کے دوسرے مسائل حل کرنے کے لئے قیادت کرنے میں آگئے آئیں،وقت کا تقاضہ ہے کہ جس طرح قوموں کی تاریخ میں کچھ دن بہت اہمیت کے حامل ہوتے ہیں اسی طرح حکمرانوں کے کچھ فیصلے بھی تاریخ ساز بن جاتے ہیں،دیکھنا یہ ہے کہ اس دن ہم کیا فیصلے کرتے ہیں۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :

متعلقہ عنوان :