سبحان تیری قدرت!

پیر 22 ستمبر 2014

Muhammad Akram Awan

محمد اکرم اعوان

حضرت خالدبن ولیدرضی اللہ تعالیٰ عنہ کی سربراہی میں لشکر اسلام فتوحات پہ فتوحات کئے جا رہا ہے کہ ایسے میں دارلخلافہ مدینہ طیبہ سے خلیفہ رسول ﷺ کی جانب سے معزولی کا حکم نامہ جاری ہوتا ہے۔ سپہ سالار ِاسلام خالد بن ولیدرضی اللہ تعالیٰ عنہ حکم نامہ ملتے ہی بلا تاخیرمدینہ طیبہ حاضرہوتے ہیں۔اس موقع پر مدینہ منورہ میں رات کے اندھیرے میں راہ چلتے دونوجوان محو ِ گفتگو ایک دوسرے سے کہہ رہیں کہ خلیفہ کو خالد بن ولید  کو معزول نہیں کرنا چاہیے تھاکہ راہ چلتے ایک اور صاحب ان نوجوانوں سے سوال کرتے ہیں کہ اب خلیفہ کے ساتھ کیا معاملہ کیا جانا چاہیے ۔

وہ نوجوان حیران ہوکر جواب دیتے ہیں کہ معاملہ سے کیامراد ؟ہمیں ہر حال میں خلیفہ کی اطاعت کا حکم ہے۔یہ سوال کرنے والے خلیفہ وقت حضرت عمررضی اللہ تعالیٰ عنہ تھے۔

(جاری ہے)

جنہیں اس جواب سے بے حد خوشی ہوئی اور اللہ کا شکرادا کیا کہ اللہ نے مجھے ایسی رعایا عطا کی۔
حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے کسی نے سوال کیا۔۔۔آپ سے پہلے تمام شیخین رضوان اللہ علیم اجمعین کے دورِ خلافت میں حالات ایسے نہ تھے۔

۔۔ارشاد ہوا ۔۔اُن کی رعایا ہم جیسے لوگ تھے ۔۔۔ اور ہماری رعایا تم جیسے۔۔۔ آج ہماری تباہی وبربادی کا سبب ہمارے اپنے اعمال اور احکامات الٰہی سے روگردانی کے سوا کچھ نہیں۔ ہم اپنے آپ کو ، اپنے اعمال کو نہیں دیکھتے اور دن رات حالات کا رونا روتے ہیں ہر بات کا ذمہ دار حکمرانوں کوگردانتے ہیں۔ ہم میں سے جو بھی جس شعبہ زندگی سے بھی تعلق رکھتا ہے کیا وہ اپنا فرض صحیح طریقہ سے ادا کررہا ہے ؟کیا ہم میں سے ہرایک ایمان داری سے اپنے منسب کا حق ادا کررہا ہے ؟کیا کبھی کسی نے سوچا کہ روز قیامت مجھ سے میرے دائرہ اختیار ،میری محنت اور میری کمائی کے بارے میں سوال ہوگا ؟کیا ہم نے کبھی اس بات کی فکر کی کہ یوم حساب ہم سے سوال ہوگا مال کیسے کمایااور کہاں خرچ کیا؟کیا ہمارے نوجوانوں نے کبھی اس پر غور کیا کہ روز قیامت ایک ہی زندگی کے بارے میں دومختلف سوال کیوں ؟-1 زندگی کیسے گزاری؟ -2جوانی کیسے گزاری؟ کیا ہم نے کبھی اپنی نوجوان نسل کی ایسی تربیت کی اجتماعی کوشش کی،کہ جس سے نوجوان اپنے والدین کی آنکھوں کی ٹھنڈک بنیں،فعال شہری کی حیثیت سے معاشرہ کی تعمیروترقی میں اپنا کردارکریں؟
دوسری طرف موجودہ حالات میں سب سے آسان کام حکومت اور حکمرانو ں پر تنقید کرناہے۔

۔۔ یہ بات اُس وقت اور بھی آسان ہوجاتی ہے جب معزز اراکین پارلیمنٹ ایک دوسرے پر کرپشن کے الزامات عائد کرتے ہوئے کہیں کہ ان کے پاس ایک دوسرے کے خلاف کرپشن کے ثبوت ہیں،اس عظیم الشان کارنامہ پرباقی اصحاب جمہوریت ارشاد فرمائیں کہ جمہوریت میں کرپشن چلتی رہتی ہے۔کسی نے افلاطون سے پوچھا کہ فلاں کی موت کا کیا سبب بنا؟ اس نے کہا کہ اس کی زندگی۔

۔۔اسی فارمولاکے تحت اگرپوچھا جائے کہ کرپشن کا سبب کیا بنا ؟جمہوریت اور پاکستان کی بربادی کا سبب کیا بنا؟تو جواب ہوگاسیاستدان!
درحقیقت ہمیں اپنے مفاد کے سوا کچھ بھی عزیز نہیں،نہ توہمیں جمہوریت کا لحاظ ہے اور نہ ہی مصیبت زدہ عوام کے مسائل سے سروکار۔ اگرجمہوریت سے اتنا ہی پیار اور عوامی مسائل کے حل کا اتنا ہی خیال ہے تو اب تک جمہوریت کی اصل بنیاد، بلدیاتی انتخابات ہی کروا دیئے ہوتے؟
"سردار درخت سے الٹا لٹکا ہوا تھا۔

کسی نے پوچھا کہ کیا ہوا؟ سردار: یار سردرد کی گولی کھائی ہے، کہیں پیٹ میں نہ چلی جائے"۔
ہمارے حکمران سرکے نیچے تین تین تکیے رکھ کرسوتے ہیں ،کیوں ؟ کہیں سوتے ہوئے سر نیچا ہونے کی وجہ سے عوام سے کئے گئے وعدوں کی انجانے میں دماغ تک رسائی نہ ہوجائے۔ انرجی بحران پر کئے گئے وعدہ کی دہائی دی جائے،تو جناب فرماتے ہیں عوام دعا کریں کہ بارشیں ہوں، بارشیں ہوئیں اور پورا ملک سیلاب میں بہہ گیا، تو کہا،یہ بھارت نے ہم سے دُشمنی کی ہے،بیشک بھارت نے دُشمنی کی کہ دُشمن سے اور کیا توقع کی جاسکتی ہے۔

انرجی بحران جائے بھاڑ میں، آپ تو پاکستانیوں کے دشمن نہیں ہیں،جناب کی حکومت بجلی کے بل میں اضافی کھاتوں کی مد میں ڈاکہ زنی کس حب الوطنی اورعوام دوستی کے اُصول کے تحت کرر ہی ہے ؟
اب تو خطرہ اس بات کا ہے کہ کراچی سے چلنے والی قراقرم ایکسپریس کولاہور تک پہنچنے کے لئے تین بار انجن بدلنے اورمسلسل تاخیر سے بچنے کیلئے ،کہ کہیں وفاقی وزیرریلوے عوام سے یہ درخواست نہ کردیں کہ عوام کووقت پر پہنچنے کی اتنی ہی جلدی ہے تو دعا کریں تیزآندھیاں چلیں جو بغیر انجن کے ہی ریل کو دھکیل کر لاہور تک پہنچا دیا کریں۔

نہیں جناب اگر ہم بھوکے ،ننگے ،نادارعوام اتنے ہی مستجاب الدعا ہوتے توکیاآ پ جیسے صاحب کمال لوگ اسمبلیوں میں بیٹھے ہوتے؟جو ایک دوسرے پر کرپشن کے الزامات عائد کرتے ہوئے کہیں کہ ان کے پاس ایک دوسرے کے خلاف کرپشن کے ثبوت ہیں،لیکن جمہوریت کودرپیش خودساختہ خطرات کے پیش نظر کمال تحمل اورصبر کا مظاہرہ کرتے ہوئے پھر سے شیروشکر ہو جائیں۔

موجودہ حکومت کو اقتدار میں آئے ڈیڑھ سال ہونے کو ہے ،قومی تعمیر وترقی تو دور کی بات کسی ایک بحران کے حل میں بھی قابل ِ ذکرپیش رفت نہیں ہوئی۔
ہمارے راہنماء اور سیاستدان انتخابات سے قبل عوام سے وعدہ تواُن کے حقوق،جان مال، عزت آبروکی حفاظت اورملکی خوشحالی کاکرتے ہیں۔مگر یہی راہنما اور سیاستدان انتخابات میں کامیابی کے بعد عوام اور عوامی مسائل کو ایسے بھول جاتے ہیں" جیویں انھے( اندھے) نوں ماں مسیتی چھڈ کے بھل جاندی" آج ہر کوئی پریشان حال ہے ، ہم عوام نے اللہ کو بھلا کر ساری توقعات حکمرانوں سے وابستہ کرلیں اورحکمران ایسے کہ فضائی معائینہ کے بعد میڈیا کے سامنے بیان جاری کردیں، کہ سیلاب زدہ عوام کی بحالی تک سکون سے نہیں سوئیں گے۔

بہرحال خواص کی سکون سے نہ سونے کی وجہ عوام کی بدحالی اور سیلاب زدگان کی محبت نہیں بلکہ اس کی وجہ کچھ اور ہے ۔ اخبار میں سیلاب زدہ ، آفتوں میں گھری مفلوک الحال قوم کواُس کے وزیراعظم کااقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے اجلاس میں خطاب کم وبیش پانچ کروڑساٹھ لاکھ میں پڑے گا، یہ خبرابھی پڑھ ہی رہا تھا کہ ہمسائے میں کالا تیتر بول اُٹھا۔۔۔ سبحان تیری قدرت!سبحان تیری قدرت!

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :