مقبول عام نعرے

پیر 22 ستمبر 2014

Muhammad Saqlain Raza

محمد ثقلین رضا

کہتے ہیں کہ کسی بھی قوم کی نفسیات کا جائزہ لینا ہوتو وہاں پنپنے والے نعروں کو ہی دیکھ لیجئے اس اعتبار سے ہم نفسیاتی طورپر کس نہج پر ہیں اس بات کو ایک طرف رکھتے ہوئے آج ذرا نعروں کی بات کی جائے‘ ایسے نعرے کہ جنہیں اپنے دور میں بیحد مقبولیت حاصل رہی ‘قیام پاکستان کے وقت تو خیر ایک ہی نعرہ تھا ”پاکستان کا مطلب کیا ‘ لاالہ الا للہ“ یہ نعرہ آج 68برس گزرنے کے باوجودبھی تروتازہ ہے بلکہ ہرآنیوالے دن کے ساتھ ہی اس کی تازگی بڑھتی ہی جار ہی ہے ‘ ابتداًاس نعرے کے حوالے سے بھی بعض ایسے لوگوں نے اعتراضات اٹھائے کہ جنہیں ”قیام پاکستان “ سے اتفاق نہ تھا‘ خیر اس نعرے پر اعتراض یوں لگا کہ ”پاکستان نام کے ساتھ کلمہ کے ابتدائی الفاظ کو جوڑنا درست نہیں پھر نعرے میں پہلے مصرعے کے ساتھ دوسرے کویوں جڑاہونا چاہئے کہ ہم معنی ہوجائیں۔

(جاری ہے)

لیکن یہاں پاکستان کا مطلب لاالہ کیسے نکل آیا ۔ یوں بھی پاکستان کا مطلب پاک لوگوں کے رہنے کی جگہ‘ اس اعتبار سے بھی کلمہ کچھ میل نہیں کھاتا ۔ بہرحال وہ دور گزرگیااس کے بعد ایوب خان کے دورمیں انہیں ایک ایسے جانور سے تشبیہہ دی گئی جس کاذکر ضرور ی نہیں ‘خیراسی ایک نعرے کی بدولت ایوب خان حکومت چھوڑگئے
اس کے بعد بھٹو کے دور میں آجائیں تو ”روٹی کپڑا اورمکان“ کانعرہ بلندہوا ‘ یہ نعرہ اتنابلند ہوا کہ آج بھی پیپلزپارٹی اسی نعرے کو استعمال کرتے ہوئے غریبوں کا دل پسیجنے کی کوشش کرتی ہے لیکن یہ الگ معاملہ ہے کہ بعض خامیوں کی وجہ سے اب لوگ کم کم ہی اس نعرے پر اعتبار کرتے ہیں بلکہ مخالفین کے مطابق پیپلزپارٹی یہ نعرہ استعمال کرتے ہوئے غریب عوام کو کپڑا‘ روٹی ‘مکان سبھی سے محروم کرگئی ‘ خیر یہ نعرہ اُس وقت بڑے تواتر کے ساتھ ہی گونجتا تھا جب بھٹو زندہ تھے لیکن ان کی صاحبزادی بینظیربھٹو جب اقتدار میں آئیں تو پھر ان کے سیاسی مخالف نوازشریف بھی میدان میں اترے ہوئے تھے لہٰذا ان کے روٹی کپڑا اور مکان کے نعرے کے جواب میں ”میاں دی نارے وجنڑ گے“ کی آواز گونجا کرتی تھی ‘ نیز چونکہ مسلم لیگ ن کا انتخابی نشان بھی شیر ہی چلاآرہا ہے تو پھر نعرہ مستانہ بلند ہواکرتاتھا ”دیکھو دیکھو کون آیا‘ شیر آیا شیر آیا“ ایک بات بہرحال بھول گئی کہ سابق صدر ضیا الحق کے دور میں ایک مومنانہ قسم کانعرہ بڑا ہی مشہور ہوا تھا ‘مرد مومن مرد حق ‘ ضیا الحق ضیا الحق“ اسے تاریخ کی ستم ظریفی ہی سمجھاجائیگا کہ یہ نعرہ لگانے والے بعد میں انہیں آمراور نجانے کن کن القابات سے نوازتے رہے“ اس دور میں جب بھٹوازم کے مقابل اینٹی بھٹو کی اصطلاح عام تھی تو ایک ہی نعرہ تواتر سے گونجاکرتا تھا ”مردمومن مرد حق“بہرحال سیاسی ترجیحات کے ساتھ ساتھ نعرے بھی بدلتے گئے‘ مرتضیٰ بھٹو قتل ہوئے اس سے قبل بھٹو بھی پھانسی چڑھائے گئے تھے تو اسی تناظر میں ایک نعرہ بڑا ہی مقبول ہوا ”تم کتنے بھٹو ماروگے‘ہرگھرسے بھٹونکلے گا“ یا یہ پھر نعرہ بھی خاصا مقبول ہوا ”چاروں صوبوں کی زنجیر ‘بینظیر بینظیر“
صاحبو! یہ ساٹھ کی دہائی سے لیکر 2000تک کے وہ نعرے ہیں جن میں ایک نظریہ چھپاہوا دکھائی دیتاہے تاہم اس کے بعد چونکہ پاکستانی سیاست بھی کروٹ بدلتی دکھائی دیتی ہے ‘اسی دہائی کا زیادہ عرصہ آمر وقت جنرل پرویزمشرف کے قبضہ میں رہا اس دور میں کوئی ایسا نعرہ سامنے نہیں آیا جس سے پرویز مشرف کی شہرت جھلکتی دکھائی دے البتہ 1999 کے اواخر میں ان کا لگایاگیا نعرہ ”سب سے پہلے پاکستان “ کافی شہرت حاصل کرگیا ‘ یہاں یہ نقطہ بھی توجہ کاطالب ہے کہ جن لوگوں کے آباء کو پاکستان کامطلب کیا ‘لاالہ الا للہ “ پر اعتراض تھا وہی لوگ بعد میں”سب سے پہلے پاکستان“ کے نعرے پر شاکی تھے ‘ ان کاخیال تھا کہ ”سب سے پہلے مسلمان“ کانعرہ بلند کیاجائے اور اسی تناظر میں امریکہ کی افغانستان میں جاری جنگ میں بالکل اسی طرح سے حصہ لیاجائے جس طرح روسی مداخلت کے بعد پاکستان نے کردار اداکیا ۔

خیر ان کی نہ سنی گئی اور پرویز مشرف نے جیسے تیسے کرکے اپنا عرصہ اقتدار گزار دیا‘ 2008کے انتخابات میں شریف برادران کو الیکشن لڑنے کی اجازت نہ مل سکی مگر کسی نہ کسی طرح سے بہرحال شہبازشریف پنجاب کے وزیراعلیٰ بن ہی گئے پھر یہ کہانی 2013 تک چلتی ہے ‘اسی دوران مسلم لیگ ایک نعرہ بڑے ہی تواتر سے لگاتی رہی ”بدلہ ہے پنجاب تو بدلیں گے پاکستان“یہ نعرہ بعد میں مسلم لیگ کا انتخابی منشور بھی بنا۔


یہ انتخابات مسلم لیگ جیت گئی مگر کچھ ہی عرصہ کے بعد دھاندلی کے الزامات سامنے آئے‘ تحریک انصاف دوسری بڑی پارٹی بن کر ابھری اور ایک صوبے خیبر پختونخواہ کی وزارت اعلیٰ بھی لے اڑی مگر اس پارٹی کے سربراہ عمران نے ابتداً چار حلقوں میں دھاندلی کا نعرہ لگایا ‘کسی نے ان کی نہ سنی اور پاکستان کی سیاست میں مروجہ دھاندلی الزامات پر حکومتی تردید ہی سمجھ کر اسے نظرانداز کردیاگیا لیکن کسے خبر تھی کہ معاملہ اب کی بار کچھ زیادہ ہی گھمبیر ہوجائیگا ۔

پھر ایک وقت آیا کہ عمران خان کی اس خواہش کا حکومتی وزرا مذاق اڑاتے رہے لیکن ”تبدیلی“ کانعرہ لیکر میدان میں آنے والے عمران خان نے اپنی روش نہ چھوڑی ایک وقت وہ آیا کہ عمران خان دھاندلی کی یہ پلیٹ اٹھاکر ملک کے مختلف علاقوں میں گئے ‘عوام نے ان کی بات سن بھی لی اور سمجھی بھی مگر حکمرانوں کے کان پر جوں تک نہیں رینگی۔ مجبوراً لانگ مارچ کا اعلان کیاگیا‘ اس وقت حکومتی وزرا نے کبھی ’شارٹ مارچ“ کاطعنہ دیا تو کبھی ریلا نہیں ریلی اور کبھی لیلی کی بات کہی گئی جس پر عمران خان کے عزائم خطرناک ہوتے چلے گئے۔

اس کے بعد جو کچھ ہوا وہ قوم کے سامنے ہے
آج دھرنوں کو چالیس دن گزرگئے مگر شرکا کا جوش اسی طرح سے قائم ہے‘ اس بات سے قطع نظر کہ دھرنے جائز ہیں یا ناجائز‘ جس کاز کیلئے دئیے جارہے ہیں اس کا اب وقت ہے یا نہیں‘ دھرنے دینے والوں کا طرز عمل غیر جمہوری ہے یا جمہوری ہے ان سوالات سے ہٹ کر ان کی مستقل مزاجی کی مثال خوب رہی۔ اسی دوران ایک نعرہ بڑے ہی تواتر سے لگایاجاتارہابلکہ اس قدر زبان زد عام ہوا کہ پاکستان کی تاریخ میں پہلی بار مطعون پارٹی کے لوگ بھی وہی نعر ہ لگانے پر مجبور ہوگئے‘ یعنی ”گونواز گو “ کانعرہ اب نہ صرف میڈیاکی تمام اصناف پر حاوی ہوچکا ہے بلکہ کھیلتے ہوئے بچے بھی یہی نعرہ بلندکرتے دکھائی دیتے ہیں ‘طاہر القادری نے کرنسی نوٹوں پر یہی نعرہ لکھنے کو کہا اورپھر انہیں حکم واپس لیناپڑا اس کے بعد متوالوں نے عجیب وغریب طریقے ڈھونڈ لئے اور سگریٹ ‘سبزیاں حتیٰ کہ قربانی کے جانوروں کی کھال پر بھی یہی نعرہ لکھادکھائی دیا۔

اس نعرہ کی مقبولیت کا اندازہ اس امر سے لگایاجاسکتاہے کہ حکومتی پارٹی کے افراد بھی نعرہ سے متاثر ہوئے بنا نہ رہ سکے۔ خیبرپختونخواہ کے سابق وزیراعلیٰ پیر صابر شاہ مسلم لیگ ن کی حمایتی ریلی میں ”گونواز گو“ کانعرہ بلند کرتے رہے بعد میں احساس ہوا تو پھر نعرے کو تبدیل کرکے ”گوعمران گو“ کہتے رہے۔ اگلے روز انہیں وضاحت کرنا پڑی کہ زبان کی پھسلن کی وجہ سے ”گونواز گو“ کا نعرہ بلندہوا۔


ماضی کے نعروں کا جائزہ لینے کے بعد اگر موجودہ دور میں بلند ہوتے نعرے کو دیکھاجائے تو حیرت ہوتی ہے کہ مسلم لیگ سے نالاں سبھی لوگ یکساں طورپر یہی نعرہ بلند کرتے ہیں۔ پتہ نہیں یہ نعرہ اپنے انجام کو کس انداز میں پہنچے مگر یہ طے ہے کہ تاریخ میں پہلی بار بچوں کے منہ سے ”گونواز گو“ کانعرہ سن کر عجیب سا احساس ہونے لگا کہ کیا واقعی بچے غیر سیاسی ہوتے ہیں

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :