آبی جارح کون؟

پیر 22 ستمبر 2014

Jahid Ahmad

جاہد احمد

اگر دھرنوں پر بیٹھی سیاسی اور مریدینی جماعتوں کی باتیں بور کرنے لگی ہوں تو توجہ ذرا وفاقی وزیر صاحب کے ایک بیان پر مبذول کیجئے۔ فرمایا! بھارت کی جانب سے پانی چھوڑے جانے کے بعد حکومت کے پاس ’ری ایکشن ٹائم‘ بے حد کم تھا!!! انتہائی عاجزی سے عرض کرتا ہوں کہ ’ری ایکشن ٹائم‘ یا ’کاؤنٹ ڈاؤن‘ کا آغاز تو پچھلے برس بھارت کی جانب سے برسات کے موسم میں اپنے ڈیموں سے زائد الضرورت پانی چھوڑے جانے کے فوراٌ بعد ہو چکا تھا۔

پھر آبی جارحیت کا ذمہ دار کون؟ سیلاب کو بھارت کی آبی جارحیت قرار دے کر اپنی سیاست چمکانے والے محب وطن پاکستانی یا پانی کو نایاب جانتے ہوئے ڈیموں میں بھر کر قابلِ استعمال بنانے والے کم عقل بھارتی بنیے!!! پاکستان میں برسات نہیں آتی ایک عذاب نازل ہو تا ہے۔

(جاری ہے)

دنیا کے کسی اور خطہ میں ہم سے کم پڑھی لکھی، زیادہ جذباتی، قدرے کم باصلاحیت اور کہیں زیادہ سازشوں کا شکار کسی قوم کے پاس پانی کی فراہمی کا مون سون جیسا قدرتی موسمی نظام ہوتا جو ہر سال خاص مہینوں میں آسمان سے پانی برسا سکتا تو بلاشبہ اس پانی کوملک کے طول و عرض میں یوں تباہی مچا تے ہوئے سمندر کا پیٹ بھرنے کی کھلی اجازت نہ دی جاتی۔

یہ طرہ امتیاز پاکستانی قوم ہی کا ہے!سمجھنے میں اتنی کوئی مشکل بات نہیں کہ چونکہ کم ظرف بھارت پانی کو قیمتی جانتا ہے اور 1960 کے سندھ طاس معاہدے کی قانونی حدود و قیود کوبھرپور طریقہ سے استعمال کرتے ہوئے اپنے مشرقی دریاؤں کے علاوہ مغربی پاکستانی دریاؤں پر بھی ڈیم در ڈیم بناتے ہوئے پانی کے انتظام و استعمال اور ذخیرہ کرنے کی صلاحیت میں بے پناہ اضافہ کر چکا ہے توجتنی برساتی بارش زیادہ ہوگی اتنا ہی زیادہ پانی بھارت کو اپنے ڈیموں سے دریاؤں میں چھوڑنا پڑے گا۔


پانی سے متعلق دونوں ممالک کی سنجیدگی کا معیارجانچنے کے لئے مابعد تقسیم دونوں ممالک میں تعمیر کردہ ڈیموں کی تعداد کا تقابلی جائزہ لینے سے کیا جا سکتا ہے۔ پچھلے 67 برسوں میں بھارت نے 3,500 سے زائد ڈیم تعمیر کیے ہیں جبکہ پاکستان میں یہی تعداد 150 کے لگ بھگ ہے ۔بھارت 1960 کے سندھ طاس معاہدے کے بعداسی معاہدے کے تحت ڈیموں کی تعمیر سے جڑی مباح یافتہ اور پابند کردہ شقوں کے تئیں0 4سے زائد ڈیم پاکستان کے مغربی دریاؤں پر تعمیر کر چکا ہے جبکہ دیگر کئی ڈیموں پر کام جاری ہے۔

مغربی دریاؤں کے بہاؤ کے تناظر میں چونکہ پاکستان نچلی سمت میں واقع ہے تو سندھ طاس معاہدے کے ثمرات حاصل کرنے کے لئے پاکستان کو بھارت سے کہیں زیادہ پرو ایکٹیو ہونے کی ضرورت ہے جس میں اب تک پاکستان بلاشبہ ناکام ہوا ہے۔ چھوٹی سی مثال مقبوضہ کشمیر میں بھارت کاکشن گنگا ڈیم کا منصوبہ اور آزاد کشمیر میں پاکستان کا نیلم جہلم ڈیم کا منصوبہ ہے۔

اگر پاکستان کا نیلم جہلم منصوبہ 2008 کے بجائے اپنے ابتدائی مقررہ سال 2002 میں شروع کر دیا جاتا تو اس صورت میں بھارت سندھ طاس معاہدے کے تحت کشن گنگا منصوبہ کے لئے دریائے کشن گنگا کے پانی کو موڑکر دریائے نیلم کے پانی کے بہاؤ میں 10% کمی کرنے کے حق سے محروم ہو جاتا کیونکہ پاکستان نیلم جہلم منصوبے کے لئے اس پانی کے استعمال پر اپنا حق ثبت کر چکا ہوتا۔

پر ہوا یوں کہ کشن گنگا منصوبہ 2007 میں نیلم جہلم منصوبے سے ایک سال پہلے شروع ہو گیا۔2010 میں پاکستان نے کشن گنگا ڈیم کی تعمیر کے باعث دریائے نیلم میں پانی کی کمی کے خلاف اپیل کی اور ماضی کے دیگرمنصوبوں کی طرح بین الاقوامی ثالثی عدالت نے فروری 2013 میں پاکستان کے تکنیکی اعتراضات کو دور کرتے ہوئے بھارتی ڈیم کے ڈیزائین میں چند تبدیلیاں کیں اور ڈیم بنانے کا فیصلہ بھارت کے حق میں دیا۔

بنیادی وجہ یہ ہے کہ مجموعی طور پر کشن گنگا منصوبے کا دریائے جہلم میں پانی کے بہاؤ پر کوئی اثر نہیں پڑتا!
پاکستان کے سول و فوجی ڈنگ ٹپاؤ اربابِ اختیار اور غلیل و نعرہ باز عوام کی آنکھیں کھول دینے کے لئے کافی ہے کہ ایشیائی ترقیاتی بنک پاکستان کو پانی کی کمی کے دباؤ کا شکار ملک قرار دے چکا ہے اور اگر سنجیدگی کا عالم یہی رہا تو 2025 تک پاکستان پانی کے حوالے سے بدترین کمی کا شکار ملک بن جائے گا۔

اس سال بھی لاکھوں کیوسک پانی بارش اور طغیانی کی صورت میں تباہی مچاتا سمندر میں جا گرنے کے سفر پر گامزن ہے اور پاکستان اس سال بھی اپنے ساتھ بذاتِ خود آبی جارحیت کا مرتکب ہو رہا ہے!!! پانی کے معاملے پر بھارت کو گالیاں دینااور اس سے جنگ و جدل و ایٹمی جنگ کے خواب دیکھنے والے سیاسی و مذہبی مجاہدین اس بات کو سمجھنے کی کوشش کرنے سے بھی قاصر ہیں کہ بھارت اپنے بہتر مستقبل کے لئے سندھ طاس معاہدے کے اندر رہتے ہوئے عملی طور جو کچھ کر سکتا ہے کر رہا ہے اور ہم آنکھیں میچے جتنی بڑھکیں مار سکتے ہیں مار رہے ہیں۔

سنجیدگی کا عالم سراہیے کہ ایٹمی جنگ کرنے کو تیار ہیں لیکن حقیقی عملی کام نہیں!!!
حقیقت یہ ہے کہ اپنے ہی خطہ میں تباہی لائے بنا بھارت پاکستان کو یک مشت سیلاب سے تباہ نہیں کر سکتا۔تکنیکی طور پر سندھ طاس معاہدے کے تحت تعمیر کردہ یہ ڈیم مغربی دریاؤں کے پانی کے بہاؤ پر خاص اثر انداز نہیں ہوتے۔ باقی مشرقی دریاؤں پر اپنے ڈیموں سے بھارت ویسے ہی پانی چھوڑتا رہے گا جیسا کہ پانی کے بہاؤ اور ذخیرہ کی گنجائش کے پیش نظر یابوقتِ ضرورت ڈیموں سے چھوڑا جاتا ہے! حاجت یہ ہے کہ پاکستان قومی مفادات کے پیش نظر وطن عزیز میں ڈیم در ڈیم بنانے کی منصوبہ بندی کرے اور اسے حقیقی طورپر پائیہ تکمیل تک پہنچائے ، دریاؤں کے انتظامی امور میں بہتری پیدا کرے، موجودہ حالات اور معروضی و زمینی حقائق کے پیش نظر ندی، نالوں اور نہری نظام کو اپ گریڈ کرے تاکہ اسی بارانی اور سیلابی پانی کو تباہی کا موجب بننے کے بجائے قومی مقاصد کے لئے استعمال کیا جائے۔

اسی پانی سے لاکھوں ایکڑ بنجر زمین کو سیراب کیا جا سکتا ہے، عوام کو سستی بجلی کے ساتھ ساتھ پینے کا صاف پانی میسر کیا جا سکتا ہے، ملک کی معیشت کو دن دوگنی رات چوگنی ترقی دی جا سکتی ہے۔پر بات ہے ترجیحات کی!!!

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :