دھرنے، سیلاب اور عوام

ہفتہ 20 ستمبر 2014

Sajjad Khan Jadoon

سجاد خان جدون

وطن عزیز کی فضاء ان دنوں خاص مکدر سی ہے ہر طرف ایک انجانہ خوف اور بے چینی پھیلی ہوئی ہے اس نازک صورت حال میں بھی سیاسی پنڈت اپنے محبوب مشغلے مختلف قسم کی چہ مگوئیوں اورپیشنگوئیوں میں مصروف ہیں جس سے اس بحرانی کیفیت میں مزید اضافہ ہورہا ہے۔ ایک جانب تحریک انصاف کے سربراہ ایک ماہ سے زائد عرصے سے اپنے کارکنان کے ہمراہ اسلام آباد میں ڈیرے ڈالے ہوئے ہیں دوسری جانے پاکستان عوامی تحریک کے قائد آئے دن حکومت گرانے کے لیے نت نئی دھمکیاں اور ڈیڈ لائنز دینے میں مگن ہیں۔

طاہرالقادری اور عمران خان کے درپردہ کیا عزائم ہیں اس پر بہت کچھ لکھا اور پڑھا جاچکا ہے ہم اس بحث میں پڑنے کے بجائے صرف یہ عرض کرنا چاہتے ہیں کہ احتجاج کرنا یقینا ان جماعتوں کا حق ہے لیکن اس سارے معاملے میں دعوؤں کے برعکس دونوں رہنماؤں کی ذاتی انا اور خوشنودی کاعمل دخل زیادہ نظر آرہا ہے اگر بات صرف مطالبات کی حد تک ہوتی تو مذاکرات کب کے طے پاچکے ہوتے اس سلسلے میں تمام جماعتوں کے قائدین نے اپنے اپنے طور پراس گھمبیر مسئلے کو سلجھانے کی اپنی سی کوششیں کی ہیں لیکن وہ سب کی سب بے سود ثابت ہوئیں۔

(جاری ہے)

پاکستان پیپلز پارٹی اس وقت اپوزیشن میں بیٹھی ہے لیکن ملک کے وسیع تر مفاد کی خاطر زردار صاحب خود چل کرجماعت اسلامی کے مرکذ منصورہ اور جاتی عمرا گئے تاکہ دیگر قائدین کے ساتھ صلاح ومشورہ کرکے موجودہ حالات کو بہتر بنانے کے عمل کو آگے بڑھایا جاسکے یقیناان کا یہ طرز عمل قابل تحسین ہے۔ مذاکراتی عمل کا شروع ہونا عمران خان کے لیے ایک بہترین موقع تھا جس کے ذریعے وہ نا صرف اپنے مطالبات منواسکتے تھے بلکہ انتخابات کے دوران روایتی دھونس اور دھاندلی کے مستقل عمل سے بھی قوم کی جان ہمیشہ کے لیے چھڑاسکتے تھے۔

احتجاج کو خواہ مخواہ کا طول دے کر انہوں نے حکمرانوں پر پڑنے والے اپنے اثرورسوخ کو خود کم کرنے کی کوشش کی اگر وہ اب بھی استعفے کی رٹ چھوڑ کر باقی ماندہ مطالبات پر ڈٹ جائیں تو ان کے مطالبات کو پارلیمنٹ کے ذریعے قانونی شکل بھی دی جاسکتی ۔ ابھی قوم دھرنوں کے اثرات سے ہی باہر نہیں نکلی کہ سیلابی ریلوں نے پنجاب بھر میں تباہی مچا نے کے بعد اب سند ھ کی جانب رخ موڑ لیا ہے سینکڑوں دیہات زیر آب آچکے ہیں، کئی قیمتی جانیں اور املاک ضایع ہوچکی ہیں اور ہزاروں خاندان کھلے آسمان تلے کسمپرسی کی زندگی گزارنے پر مجبور ہیں حکومت پر اب دہری ذمہ داری عائدہوگئی ہے ایک طرف سیاسی سوجھ بوجھ کامظاہرہ کرتے ہوئے دھرنے کے شرکاء سے پر امن طور پر دارالخلافہ کو خالی کروانا اوردوسرا سیلاب متاثرین کی دوبارہ آباد کاری ۔

احتجاجی دھرنوں اور سیلابی صورت حال کا براہ راست اثر عوام پر پڑھ رہا ہے معشت کی تباہی کا خمیازہ بہر حال عوام کو ہی بھگتنا پڑے گا ، بجلی ، گیس،پیٹرول اور اشیائے خوردونوش کی قیمتوں میں اضافوں کے ساتھ ساتھ مختلف نوع کے ٹیکسوں کے ذریعے عوام پر ایک نیا عذاب ٹوٹنے والا ہے جس سے وہ طبقہ جسے اشرافیہ کہا جاتا ہے بہرحال ہر طرح کی قربانی سے مبرا ہے۔


ملک جب بھی بحرانوں سے دوچار ہوتا ہے اس کے پیچھے کہیں نا کہیں نااہل حکمرنوں کا ہاتھ ضرورہوتا ہے جو نصف صدی سے کسی نا کسی شکل میں اقتدار سے چمٹے ہوئے ہیں اپنے اقتدار کو مضبوط کرنے اور اسے طول دینے کے لیے ہر جائز وناجائز ذرائع استعمال کرنا ان کے ایمان کا حصہ ہے اسی سبب آج پاکستان انتشار ، بد امنی، کرپشن،دہشت گردی اور ان جیسی ان گنت بیماریوں کا شکار ہے۔

ملک میں رائج غلط طرز حکمرانی کے باعث خاندان کے خاندان دن دیہاڑے قتل کر دیے جاتے ہیں، سرعام حوا کی بیٹیوں کی عصمت لوٹ لی جاتی ہے،لاپروائی کی وجہ سے روڈ ،ٹرین اور فضائی حادثات میں سینکڑوں افرد قیمتی جانوں سے ہاتھ دھو بیٹھتے ہیں،حساس قومی املاک کونشانہ بنانے کے بعد دہشت گرد باآسانی فرار ہونے میں کامیاب ہوجاتے ہیں،سیاحت،کھیل اور رفاعی کاموں کی غرض سے آئے ہوئے غیرملکیوں کو قتل کردیا جاتا ہے،آئے دن ملک کے ممتاز اسا تذہ،وکلاء،ڈاکٹرز،صحافیوں اور تاجروں کو اغواء کرکے تاوان وصول کیا جاتا ہے یا بے دردی سے قتل کردیا جاتا ہے، سیاسی اور مذہبی رہنماؤں سمیت پولیس افسران تک کوخون میں نہلادیا جاتا ہے ، چند مخصوص قوتوں نے قوم کوفرقہ پرستی ، بے راہ روی اور مسالک کے درمیان الجھا رکھا ہے لیکن ان جرائم پیشہ مادر پدر آذاد افرادکو روکنے والاکوئی نہیں۔

عوام جب تک اپنی سوچ کا معیار تبدیل نہیں کریں گے ، حکمرانوں کے جھوٹے اور دلفریب وعدوں کے سحر سے باہر نکلنے کی کوشش نہیں کریں گے اس وقت تک نہ نظام بدلے گا نہ چہرے بلکہ ان کی طرح ان کی نسلیں بھی غلامی کی زندگی گذارنے پر مجبور ہوں گی۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :

متعلقہ عنوان :