کیا یہ ہوتی ہے طرز حکمرانی؟

جمعرات 18 ستمبر 2014

Chaudhry Haroon Jamil Khan

چوہدری ہارون جمیل خان

آجکل تمام ساستدانوں اور حکمرانوں کو دیکھا جائے تو ان سب کی زبان پر ایک ہی لفظ ہو گا ۔جمہوریت،جمہوریت اور بس جمہوریت! اب ان میں’ جمہور ‘کی فکر تو کسی کو نہ ہے۔جمہوریت کا لفظ تو جمہور سے نکلا ہے جس کے معنی عوام کے ہیں۔ یعنی کہ’ عوام کی حکومت ‘’عوام سے اور عوام کے لیے‘ لیکن ہماری بد قسمتی ہے کہ پاکستان جیسے ملک میں جمہوریت کی تعریف یوں کی جائے۔

’جاگیرداروں کی حکومت‘ ’جاگیرداروں سے اور جاگیرداروں کے لیے‘۔ لیکن ہمارے حکمران ہم غریب عوام کو جموریت کا ’لالی پوپ ‘ دیے کر بہلا دیتے ہیں۔ارے جناب یہ جمہوریت نہیں ہوتی، جمہوریت کے اثرات تو عام عوام تک ”grass level root“ تک دیکھائی دیتے ہیں۔ اب موجودہ منظر نامے کو دیکھا جائے تو پنجاب بھر میں سیلاب نے تباہی مچائی ہوئی ہے، سینکڑوں افراد موت کی وادی میں چلے گئے۔

(جاری ہے)

لاکھوں ،کروڑوں کا سامان اور فصلیں سیلاب کی نظر ہو گئیں ، لاہور جیسا شہر جسکو ’خادم اعلی صاحب‘ پیرس کا نام دیتے ہیں وہاں کی سڑکیں تالاب کا منظر پیش کرنے لگیں ،اب اس جانی و مالی نقصان کا ذمہ دار کون ہے؟ یقینی طور پر ہمارے حکمران جو انتخابی مہم میں جھوٹے دعوے اور وعدے کر کے ہم غریب عوام کو بے وقوف بنا جاتے ہیں اور ہم بار بار ان کی باتوں میں آجاتے ہیں ۔

ہمارے حکمران جانتے ہیں کہ ہر سال اگست اور ستمبر میں سیلابی صورتحال کا سامنا کرنا پڑے گا، پھر آخر کیوں نہیں احتیاطی تدابیر اختیار کی جاتیں؟ ملک میں تربیلا اور منگلا ڈیمز کو ایوب کے دور حکومت میں قائم کیاگیا ہماری بد قسمتی ہے کہ 45سالہ تاریخ میں کوئی بڑا ڈیم نہیں بنایا جا سکا اور ہر سال ہی سیلابی پانی لاکھوں ایکڑ فٹ سمندر میں گر کر ضائع ہو جاتا ہے۔

اگر ہمارے ساستدانوں نے کالا باغ ڈیم کے منصوبے کو اپنی منافقانہ سیاست کی نذر نہ کیا ہوتاتو آج حالات یکسر تبدیل ہوتے۔ دریائے سندھ پر کالا باغ کا مقام انتہائی اہمیت کا حامل ہے یہ جگہ چاروں طرف سے پہاڑوں میں گھری ہوئی ہے۔ دریائے سندھ اس کے بیچ سے ہو کر گزرتا ہے،عالمی ماہرین اور انجینئرزنے اس جگہ کو ڈیم کے لیے انتہائی موزوں قرار دیا ، ڈیم کی فزیبلٹی رپورٹ بنائی گئی،لاکھوں روپے خرچ کیے گئے،مگر اچانک ساستدانوں نے اسے سیاست کا موضوع بنالیا اور اس منصوبے کے تابوت میں آخری کیل پیپلز پارٹی کے آخری دور حکومت میں لگائی گئی۔

جب اس منصوبے کو ہمیشہ کے لیے ختم کر نے کا اعلان کیا گیا۔ اب صرف انااور اپنی سیاست کی دکان کو چمکانے کیلئے ہمارے سیاستدان”ریاستِ پاکستان کا نقصان کر رہے ہیں۔ اگرتاریخی پس منظر میں دیکھا جائے تو موجودہ ”نام نہاد“ جمہوری نظام سے آمریت کے ادوار بہتر معلوم ہوں گے۔مثال کے طور پر ایوب کے دورحکومت میں گروتھ ریٹ6.8%تھا۔جبکہ ضیاء کے دور حکومت میں% 6.5تھا، 90کی دہائی جو کہ جمہوری دور تھا، اس میں گروتھ ریٹ4.6%تھا۔

مشرف دور میں گروتھ ریت پھر سے بڑھتا ہوا 6.7%پرجا پہنچا۔ اور 20/03/14کو جمہوری دور میں گروتھ ریٹ 3%کی سطح پر آ گیا۔اب بتائیں کون سے ادوار بہتر رہے؟میں آمریت کے سخت خلاف ہوں لیکن پاکستان میں جمہوریت اصلی جمہوریت ہے ہی نہیں ، اگر پاکستان میں اصلی جمہوریت ہوتی تو پاکستان آج ترقی یافتہ ممالک کی فہرست میں شامل ہوتا،اصلی جمہوریت تب ہی آئے گی، جب کابینہ میں مزددرکا بیٹا ،کسان کا بیٹا ،بس ڈرائیور کا بیٹابھی نظر آئے گا،جیسا کہ ”برطانیہ“ میں دکھائی دیتا ہے۔

اگر پاکستان کے ہر قومی و صوبائی حلقے کا بغور مشاہدہ کیا جائے تو پتہ چلتا ہے کہ ہر حلقے کی سیٹ دو یا تین خاندانوں کے گرد گھومتی ہے۔ اگر اس کو جمہوریت کہا جاتا ہے تومیں اس جمہوریت کو نہیں مانتا، اصل جمہوریت تب آئے گی جب مڈل کلاس اور لوئر مڈل کلاس کی پڑھی لکھی نوجوان قیادت پارلیمنٹ کا رخ کرے گی۔ تب اس ملک میں اصل جمہوریت آئے گی اور انشاء اللہ وہ وقت دور نہیں ،لیکن اس کے لیے ضروری ہے کہ ہم اپنے ووٹ کا درست استعمال کریں ! ساتھ ساتھ ہر ایک کو اپنے اندر انفرادی طور پر سیاسی شعور پیدا کرنا ہو گا،تب ہی ملک درست معنوں میں ترقی کی منزل پر گامزن ہوگا۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :