اپنی اپنی ہمت ہے

منگل 16 ستمبر 2014

Abdul Raheem Anjaan

عبدالرحیم انجان

اپنی کمیونٹی کا ایک اخبار پڑھ کر ایسے لگا ،جیسے میں جیو ٹی۔وی دیکھ رہاہوں یا میاں فیلی کے کچھ وفا دار صحافیوں کو پڑھ رہا ہوں۔جو آنکھیں بند کر کے عمران خان کی بے سرو پا مخالفت کرتے اور میاں برادران کی کرپشن اور بیڈ گورننس کو چھپانے کی کوشش میں ننگے ہوتے رہتے ہیں۔ ایسے لوگوں کے لئے بس اتنا ہی کہا جا سکتا ہے کہ آج آپ عمران خان کے کھاتے میں جتنے عیوب دل چاہیے ڈال لیں،آئین شکنی کے ، بغاوت کے،کلہاڑا بردار غنڈہ فورس کے،تاریخ کے دامن سے چن چن کر کچھ صاحبِ ضمیر لیڈروں کا ذکر کر کے عمران خان کو بے ضمیر ہونے کے طعنے بھی دے لیں،کوئی آپ کا کیا بگاڑ سکتا ہے؟ ویسے ایک خبر یہ بھی ہے کہ عمران خان کی پر امن احتجاج کو کی شہرت کو داغدار بنانے کے لئے پاک ٹی۔

وی پر حملہ کرانے کا ڈرامہ حکومت کا تھا۔

(جاری ہے)

الغرض آپ عمران خان کے کھاتے میں جو بھی عیب ڈالنا چاہیں ڈال سکتے ہیں۔ لیکن وقت بتائے گا کہ قوم کو کسی بڑے نقصان سے بچانے کے لئے چھوٹے نقصان اٹھانے پڑتے ہیں۔ میں خود اپنے کسی حالیہ کالم میں لکھ چکا ہوا ہوں کہ ” عمران خان کی حب الوطنی پر میرا ایمان اتنا ہی پختہ تھا، جتنا کہ اس حق پر کہ اللہ ایک اور حضور ﷺ اللہ کے آ خری نبی ہیں “ لیکن اب گزشتہ چند ہفتوں کے حالات دیکھتے ہوئے ہوئے عمران خان کی حب الوطنی کے حوالے سے میرا ایمان ڈگمگانے لگا ہے۔

میں یہ تو نہیں مان سکتا کہ عمران خان اپنے کسی مفاد کے لئے پاکستان کے خلاف کسی بیرونی یا اندرونی سازش کا حصہ بن سکتے ہیں۔لیکن مجھے یہ شک ضرور ہونے لگا ہے کہ عمران خان کسی شاطر کے ہاتھوں پاکستان کی معیشت کے خلاف Useہو رہے ہیں اور وہ شاطر طاہر القادری ہے۔ظاہر ہے جو شخص حضور نبی کریم ﷺ کے بارے میں گفتگو کرتے ہوئے خوف ِ خدا کے دامن کو تھام کے نہیں رکھ سکتا۔

اُس کی کسی بھی بات پر اعتبار کیسے اور کیوں کر کیا جا سکتا ہے ؟ عمران خان کی سمجھ میں یہ کیوں نہیں آرہا ہے کہ اُن کے دھرنے سے نقصان کس کا ہو رہا ہے ؟ میاں نواز شریف کا نہیں ، پاکستان کا ہو رہا ہے اور میاں نواز شریف کو اپنی وزارت عظمیٰ کے مقابلے میں پاکستان کے نقصان کی کیا پروا ہو سکتی ہے؟میاں نواز شریف کے کانوں پر کوئی جوں اُس دن رینگے گی، جس دن کسی نے جاتی عمرہ پر حملہ کرنے کی ٹھان لی۔

“ لیکن آج مجھے اپنے اِن خیالات پر افسوس ہو رہا ہے۔اِس لئے کہ ا ب عمران خان کے دھرنے نے جو تماشا مجھے دکھایا ہے، وہ ایمان افزوز منظر دیکھنے کو ایک مدت سے آنکھیں ترس رہی تھیں۔ بلکہ میں عوام الناس کی فاقہ مستی کے مقابل بڑی بے رحمی سے لٹتے ہوئے پاکستان کو دیکھ دیکھ کر کڑھا کرتا تھا اور اکثر لکھا بھی کرتا تھا کہ ہم کیسے مومن ہیں کہ بار بار ایک ہی سوراخ سے خود کو ڈسواتے رہتے ہیں۔

لیکن اب میاں نواز شریف کے ساتھ جو کچھ آزاد کشمیر سکھر اور کچھ دوسری جگہوں پر سیلاب زدگان نے کیا ہے ۔ میاں صاحب سیلاب زدگان کے ساتھ ہمدردی کا اظہار کرنے کے لئے زبانی جمع خرچ کی سوغات لے کر گئے تھے۔لیکن لوگوں نے وہ سوغات قبول کرنے سے انکار کر دیا اور ”گو نواز گو“ کے نعروں سے میاں صاحب کا استقبال کیا۔یہاں تک کہ انہیں زبانی جمع خرچ کا موقعہ بھی نہیں دیا۔

کم از کم مجھے اس بات کی خوشی ہوئی ہے کہ پاکستان کے عوام ستر کی دھائی کے بعد ایک بار پھر بیدار ہو گئے ہیں۔جس کا کریڈٹ بلا شبہ عمران خان کو جاتا ہے۔ہمارے شاطر لیڈران قوم نے اس قوم کو کم علمی کے اندھیروں میں دھکیل کر خود آ گہی کے شعور سے محروم رکھنے کی ہر ممکن کوشش کی ہے اور اپنی اس جارحانہ کوشش میں کامیاب بھی رہے ہیں۔بھٹو پہلے لیڈر تھے جنہوں نے اس قوم کو خود آگہی سے آشنا کیا تھا۔

بہت سال پہلے کی بات ہے کہ ریڈیو” صدائے پاکستان“ ٹورونٹو پر کنگسٹن یونیورسٹی میں پولٹیکل سائینس کے ہیڈ آف ڈیپارٹمنٹ پرو فیسر خالد بن سعید کا انٹر ویو آرہا تھا ۔ اُن کا ایک جملہ آج بھی مجھے یاد ہے۔وہ فرما رہے تھے۔” میں نے پاکستان کے ایک دہیاتی سے پوچھا۔بھٹو نے تمہیں کیا دے دیا ہے ؟“ اس کا جواب تھا۔”ہمیں تو آج تک کسی نے بھی کچھ نہیں دیا۔

لیکن بھٹو صاحب کم از کم ہماری بات تو کرتے ہیں۔“ عمران خان پاکستان کی تاریخ میں دوسرے لیڈر ہیں جو پاکستان کے غریب لوگوں کی بات کرتے ہیں اور صرف بات ہی نہیں کرتے انہوں نے غریبوں سے ہمدردی کے کچھ عملی ثبوت بھی دئے ہیں۔سب جانتے ہیں کہ ہمارے ملک میں عوام الناس کے حالات میں بہتری کے راستے میں سب سے بڑی رکاوٹ کرپشن ہے، بے لگام کرپشن۔

جس کے خلاف عمران خان نے اپنے گلے میں ڈھول ڈال رکھا ہے۔جس طرح پارلیمنٹ میں کھڑے ہو کر موجودہ حکومت کے وزیر داخلہ چوہدری نثار اور اپوزیشن پارٹی کے قد آور لیڈر چوہدری اعتزاز احسن نے ایک دوسرے کی کرپشن کی گٹھڑیوں کی گرہیں کھولی ہیں۔ کیا دنیا کی کسی بھی جمہوریت میں پارلیمنٹ کے ممبران ایسی شرمناک کرپشن کی کہانی خاموش تماشائی بن کر سن سکتے تھے؟ سوال ہے اگر موجودہ حکومت اک نیا پاکستان بنانے کے اپنے دعوےٰ میں سچی ہے تو اُس نے کرپشن کے الزامات کو کسی تحقیقی ادارے کے حوالے کیوں نہیں کیا ؟کیا یہی جمہوریت ہے ،جس کا ڈھنڈورا ہماری پارلیمنٹ پیٹ رہی ہے۔

ایک مچھلی سارے جل کو خراب کرتی ہے۔جیسی سکہ بندکہاوت کے مصداق مجھے یہ کہتے ہوئے دکھ ہو رہا ہے کہ پارلیمنٹ میں سب چور بیٹھے ہیں۔جو چاہتے ہی نہیں کہ کرپشن کے کھاتے کھولے جائیں۔کرپشن کی کہانیوں کے مطابق سب سے بڑے چور خود شریف برادران اُن کے ساتھی اور زر داری اور اُن کے ساتھی ہیں۔جن کے ہوتے ہوئے کبھی بھی کرپشن کا پہیہ رک ہی نہیں سکتا۔


اب سوال ہے عمران خان نے خود کو جس بند گلی میں بند کر لیا ہے۔بالخصوص میاں نواز شریف آئین اور جمہوریت کی آڑ میں جس طرح چھپے بیٹھے اکتوبر کا انتظار کر رہے ہیں جب کہ آئی۔ایس۔آئی کے سربراہ اور کچھ دوسرے جرنیل ریٹائرڈ ہو رہے ہیں۔جن کے بعد ظل سبحانی کھل کر اپنے حریفوں پر ظلم و ستم ڈھانے کے قابل ہو جائیں گے۔کون حق پر ہے اور کون غلط ہے۔

دونوں فریقین میں اس بات کا فیصلہ کون کرے گا ؟دونوں جس طرح ضدس پر اڑگئے ہیں۔اس کا انجام کیا ہو گا ؟ کل ایک دوست نے فون کر کے بتایا کہ پندرہ سو کے قریب پنجاب پولیس کے لوگوں نے عمران خان کو گرفتار کرنے کے لئے ان کے گھر کا محاصرہ کر لیا ہے۔میں یہ خبر سن کر بہت خوش ہوا تھا۔کاش ! عمران خان گرفتار کر لئے جاتے۔ اُن کی گرفتاری کے بغیر یہ اونٹ کسی کروٹ بیٹھتا نظر نہیں آ رہا۔

بعد میں معلوم ہوا کہ کئی پولیس والوں کی طرح مجسٹریٹ نے بھی پولیس والوں کو عمراں خان کے گھر میں داخل ہونے کے لئے اجازت دینے سے انکار کر دیا تھا۔کوئی میری رِٹ کو مانے نہ مانے پارلیمانی ممبران تو مانتے ہیں۔میں نہیں جاوٴں گا،میں وزیر اعظم ہوں۔
جنرل محمد ایوب خان ( مرحوم) کے خلاف جمہور کے نبض شناس ذوالفقار علی بھٹو کے احتجاج نے جب زور پکڑا لیا تھا ، اور عوام کی اکثریت بھی بھٹو (مرحوم ) کے ساتھ ہو گئی تھی تو ایک مقام پر عوام کے غم و غصے نے یہ شکل اختیار کر لی کہ وہ لاہور کی مال روڈ پر ایک کرسی کے ساتھ کسی لا وارث کتے کو باندھ کر اسے مارتے تھے اور جب کتا احتجاجاً اُن پر بھونکتا تو لڑکے بالے اسے کہتے تھے” چھوڑ کرسی“ لاہور میں میرا آفس الفلاح بلڈنگ کی تیسری منزل پر تھا اور یہ تماشا میں نے اپنی آنکھوں سے دیکھا ہے۔

اپنے خلاف عوام کے غم و غصے کی یہ صورت حال دیکھ کر ایوب خان جیسا آ مر بھی ہمت ہار کر بیٹھ گیا تھا۔ جنرل محمدایوب خان کا نام تو محمد شریف نہیں تھا، لیکن وہ واقعی ایک شریف انسان تھا، اپنی یہ تذلیل برداشت نہیں کر سکا تھا کہ عوام کتے کو کرسی کے ساتھ باندھ کر اسے یہ کہیں کہ” چھوڑ کرسی“
میاں محمد نواز شریف کو پاکستان کے عوام ایک ماہ سے کہہ رہے ہیں کہ گو نواز گو،گو نواز گو۔۔لیکن ان پر کوئی اثر نہیں ہو رہا۔گویا کرسی کے ساتھ کتا باندھنا باقی رہ گیا ہے۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :