سید ابو الاعلیٰ مودودی کے سنہرے حروف

منگل 16 ستمبر 2014

Zahid Raza Khan

زاہد رضا خان

دنیا کے کروڑوں لوگوں کی زندگی بدل دینے والی تحریریں جو کئی زبانوں میں شائع ہو چکی ہیں اس عظیم ہستی کی ہیں جو آج تک اپنوں،غیروں،مسلم،غیر مسلم سب میں اپنی نیک نامی کی وجہ سے اچھے نام سے یاد کی جاتی ہے۔دین اسلام کی وہ سوچ سید مودودینے انسانوں میں پید اکی جس سے پوری دنیا میں اسلامی تحریکیں اٹھیں جنھوں نے دنیا سے بگاڑ کا خاتمہ اور نیکی کا چلن عام کیا۔

لوگوں کی سطحئی سوچ درست سوچ میں تبدیل ہوئی۔عبادت کا مفہوم کتاب خطبات میں اتنے آسان اور پر کشش انداز میں بیان کیا ہے کہ کم پڑھے لکھے لوگ بھی اس کتاب کو پڑھکر اپنی زندگی تبدیل کر لیتے ہیں۔یہ کتاب سید صاحب کے جمعہ کے خطبات پر مشتمل ہے جو ایک گاؤں کی مسجد میں دئے گئے۔اس کتاب میں ایمان،اسلام،تقویٰ اور عبادت وغیرہ کو اس اچھے انداز میں بیان کیا گیا ہے کہ جو بھی ذرا توجہ سے اس کتاب کو پڑھ لے وہ یہ سوچنے پر مجبور ہو جائے گا کہ ابھی تک تو میں صحیح مسلمان ہی نہیں بنا ہوں۔

(جاری ہے)

میں نماز بھی پڑھتا ہوں ،جھوٹ بھی بولتاہوں۔قرآن بھی پڑھتا ہوں گانے بھی سنتا ہوں،فلم بھی دیکھتا ہوں۔سود کھانے پر بھی میرا دل نہیں مچلتا۔میں ظالم حکمرانوں کے سامنے کلمہ حق تک نہیں ادا کرتا۔یہ ساری سوچ اس کتاب کو سکون کے وقت توجہ سے پڑھ لینے کے بعد پیدا ہوتی ہے۔اتنے اچھے اور سادہ الفاظ میں یہ کتاب لکھی گئی ہے کہ اردو پڑھ لینے والا اس کتاب سے متاثر ہوئے بغیر نہیں رہتا۔

کیسی کیسی مثالیں دیکر کلمہ،ایمان،اسلام،جہاد وغیرہ کے بارے میں ہم کو سمجھایا گیا ہے۔اس کتاب کے پڑھنے کے بعد لاکھوں کروڑوں لوگوں کی زندگی میں انقلاب آیا ہے۔سید مودودی کی کتابوں کی تعداد اس قدر ہے کہ اتنی کتابیں شائد ہی کسی اور نے لکھی ہوں۔آپ کی قرآن پاک کی تفسیرجو تفہیم القرآن کے نام سے چھ جلدوں میں ہے وہ نہائت سادہ اور پر اثر الفاظ میں لکھی گئی ہے۔

اس کو جو شخص بھی دلچسپی سے اور باقائدگی سے پڑھے تو وہ بھی ا پنے ا خلاق وکردار میں تبدیلی لانے پر آمادہ ہو جائے۔سید مودودی نے اپنی تحریروں میں ایسے ایسے الفاظ استعمال کئے ہیں جو سنہری حروف سے لکھے جانے والے ہیں۔ایسے ایسے جملے تحریر کئے ہیں اور بسا اوقات اپنی تقریروں اور گفتگو میں استعمال کئے ہیں جن کو سن کر انسان حیرت زدہ ہو جاتا ہے۔

اور وہ الفاظ اور جملے انسان کے دل پر ایسا اثر کرتے ہیں کہ وہ اپنی سابقہ زندگی پر افسوس کرتا ہے اور اپنی زندگی بدل لینے کا تہیہ کر لیتا ہے۔آئیے سب سے پہلے ایک کتابچہ جو ؛بناؤ اور بگاڑ؛کے نام سے لکھا گیا ہے اوریہ دراصل سید مودودیکی ایک تقریر ہے جو مئی 1947 کو پٹھان کوٹ(مشرقی پنجاب)کے جلسہ عام میں کی گئی تھی،اس کو کتابچہ کی شکل میں شائع کیا گیا ہے۔

اس میں ملک کے موجودہ حالات کے مطابق بہت پر اثر باتیں لکھی ہوئی ہیں اس لئے سب سے پہلے ان الفاظ کو ذرا غور سے پڑھیں۔مولانا ، قوموں کے عروج و زوال کا خدائی قانون ؛ کے عنوان سے لکھتے ہیں کہ یہ دنیا جس خدا نے بنائی ہے اور جس نے اس زمین کا فرش بچھا کر اس پر انسانوں کو بسایا ہے۔وہ کوئی اندھا دھند اور الل ٹپ کام کرنے والا خدا نہیں۔وہ چوپٹ راجا نہیں ہے کہ اس کی نگری اندھیر نگری ہو ۔

وہ اپنے مستقل قانون،پختہ ضابطے اور مضبوط قاعدے رکھتا ہے۔جن کے مطابق وہ سارے جہا ں پر خدائی کر رہا ہے۔اس کے قانون سے جس طرح سورج،چاند،زمین اور تارے بندھے ہوئے ہیں،جس طرح ہوا،پانی،درخت اور جانور بندھے ہوئے ہیں۔اسی طرح ہم آپ سب انسان بھی بندھے ہوئے ہیں۔اس کا قانون جس طرح ہماری پیدائش اور موت پر،ہمارے بچپن ،جوانی اور بڑھاپے پر،ہماری سانس کی آمد و رفت پر ۔

ہمارے ہاضمے اور خون کی گردش پر،اور ہماری بیماری اور تندرستی پر بے لاگ اور اٹل طریقے سے چل رہا ہے،ٹھیک اسی طرح اس کا ایک اور قانون بھی ہے جو ہماری تاریخ کے اتار چڑھاؤ پر،ہمارے گرنے اور اٹھنے پر،ہماری ترقی اور تنزلی پر اور ہماری ذاتی،قومی اور ملکی تقدیروں پر حکومت کر رہا ہے اور یہ قانون بھی اتنا ہی بے لاگ اور اٹل ہے۔اگر یہ ممکن نہیں ہے کہ آدمی ناک کی بجائے آنکھوں سے سانس لینے لگے اور معدے میں کھا نا ہضم کرنے کی بجائے دل میں ہضم کرنے لگے ،تو یہ بھی ممکن نہیں ہے کہ اللہ کے قانون کی رو سے جس راہ پر چل کر کسی قوم کو نیچے جانا چاہیئے وہ اسے بلندی پرلے جائے ۔

اگر آگ ایک کے لئے گرم اور دوسرے کے لئے ٹھنڈی نہیں ہے تو برے کرتوت بھی ،جو اللہ کے قانون کی رو سے برے ہیں ،ایک کو گرانے والے اور دوسرے کو اٹھانے والے نہیں ہو سکتے۔جو اصول بھی اللہ نے انسان کی بھلی اور بری تقدیر بنانے کے لئے مقررکئے ہیں وہ نہ کسی کے بدلے بدل سکتے ہیں،نہ کسی کے ٹالے ٹل سکتے ہیں،اور نہ ان میں کسی کے ساتھ دشمنی اور کسی کے ساتھ رعایت ہی پائی جاتی ہے۔

اس کے بعد سید مودودی  نے بتایاہے کہ اللہ بناؤ کو پسند کرتا ہے اور بگاڑ کو پسند نہیں کرتا۔اور اللہ اپنی زمین کا انتظام ان لوگوں کو دیتا ہے جو بگاڑ نے کے مقابلہ میں بنانے کی زیادہ صلاحیت رکھتے ہیں۔ایک مالی کی مثال دے کر سیدمودودی یہ کہتے ہیں کہ کسی باغ کا مالک ایسے مالی کو نکال پھینکتا ہے جو اس کے باغ کی صحیح طرح دیکھ بھال نہ کر سکتا ہو۔

تو اللہ اپنے اس باغ کو اجڑتاکیسے دیکھ سکتا ہے۔وہ ایسے حکمرانوں کو جو اس کی زمین پر بہت زیادہ فساد پھیلانے لگتے ہیں ان کو ان کی حکمرانی سے بے دخل کر دیتا ہے۔ اسی لئے جہاں مسلمانوں کی حکمرانی ہو وہاں اگر حکومت، اللہ کی زمین پر اللہ کی حکمرانی نہ قائم کر سکے تو اللہ ایسے حکمرانوں کی جگہ دوسرے حکمران لے آتا ہے جو یا تو پکے مسلمان ہوتے ہیں اور مکمل اسلامی نظام نافذ کر نے کے اہل ہوتے ہیں،یا ان لوگوں سے بہتر ہیں جو پہلے حکومت کرتے رہے ہیں۔

اس کے برعکس اگر حکومت کو ہٹانے والے لوگ جو اپنی مسلسل جد وجہد کے باوجود حکومت کو نہ ہٹاسکیں وہ اللہ کی نظروں میں ان بگڑے ہوئے حکمرانوں سے بھی زیادہ بگاڑ پیدا کرنے والے ہو سکتے ہیں۔اگر کسی ملک میں دین دار لوگ ہوں لیکن وہ حکومت چلانے کے اہل نہ ہوں تو اللہ ان کی جگہ دین کا کم علم رکھنے والے لیکن دنیا کے نظام کو بہتر طریقے سے چلانے والوں کو اپنی زمین کی حکمرانی دے دیتا ہے۔

بہر حال ہر شخص کو یہ معلوم ہونا چاہئے کہ دنیا کا نظام جو ہستی چلا رہی ہے وہ اللہ ہے ۔وہ جس کو چاہتا ہے عزت دیتا ہے اور جس کو چاہتا ہے ذلیل کر کے رکھ دیتا ہے ۔کوئی کسی سے زبردستی نہ حکومت چھین سکتا ہے نہ کوئی زور زبردستی سے حکومت اپنی قائم رکھ سکتا ہے۔ مولانا سید ابوالاعلیٰ مودودی  کی تحریریں اگر ہم غور سے پڑھیں تو ہم بہت کچھ سیکھ سکتے ہیں۔

اس دور میں اگر کوئی درست دینی سوچ رکھتا ہے تو وہ جماعت اسلامی کے لوگ ہیں جن کی تربیت سید مودودی کی تحریروں اور تقریروں نے کی ہے۔لیکن اس جماعت کے لوگوں میں بھی ابھی اتنی صلاحیت پیدا نہیں ہوئی ہے کہ اللہ ان کو اپنی زمین کا اقتدار عطا فرما دے۔اسکی اصل وجہ ان لوگوں کا مولانا کی تحریروں کو پڑھنا کم کردینا ہے۔اب ہم سب الیکٹرانک میڈیا کے زیراثرآچکے ہیں جو ہم سے اچھائی کا خاتمہ کر رہا ہے اور برائی کو ہمارے اندر فروغ دے رہا ہے۔

بناؤ اور بگاڑ کا فارمولا صرف مسلم حکمرانوں کے لئے نہیں ہے۔اللہ تعالیٰ کیونکہ سارے جہانوں کا رب ہے اس لئے وہ غیر مسلموں کے لئے بھی یہی اصول دیتا ہے۔اچھائی برائی کا تصور تمام انسانوں میں اللہ نے رکھا ہے اور اللہ کی ذات کو سارے انسان جانتے ہیں لیکن اللہ کے ساتھ شریک بھی ٹھیراتے ہیں اور حکومت کا دینا اور لینا توکچے ایمان کے مسلمان بھی اللہ کے ذمہ نہیں سمجھتے۔

کافروں نے تو مذہب اور سیاست کو الگ کیا ہوا ہے اور یہی تصور عام مسلمانوں میں بھی پھیلتا جا رہا ہے۔مسلمانوں میں اس سوچ کو مولانا سید ابو الاعلیٰ مودودی نے اپنی تحریروں کے ذریعہ ختم کیا۔
2 ۔ایک دوسراکتابچہ؛دعوت اسلامی اور اس کاطریق کار؛میرے سامنے ہے۔اس کا بھی خلاصہ آپ کے سامنے رکھتا ہوں۔یہ بھی سیدمودودی کی تقریر ہے جو آپ نے19
ا پریل 1945کو دارالالسلام پٹھان کوٹ میں کی۔
سید صاحب  فرماتے ہیں کہ سب سے پہلے میں اس امر پر اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کرتا ہوں کہ اس نے ہمیں ایک نہائت خشک دعوت اور نہایت بے مزہ طریق کار کو با لآ خر لوگوں کے لئے دلچسپ و خوش ذائقہ بنانے میں توقع سے زیاد ہ کا میابی عطا کی ۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :