رینٹ اے انقلابی

اتوار 14 ستمبر 2014

Shahid Iqbal

شاہد اقبال

حق کے خلاف باطل کی سازشی فیکٹری ازل سے چل رہی ہے اور ابد تک چلتی رہے گی ۔ یہ فیکٹری چوبیس گھنٹے اہلِ حق کو نیچا دکھانے کے لیے نت نئی سازشیں بُنتی رہتی ہے ۔اس سے برآمد ہونے والی پراڈکٹس میں نئے نئے فلیور کے جھوٹ ، نئی نئی طرز کی تہمتیں اور نتنئے فیشن کے الزامات بالخصوص قابلِ ذکر ہیں۔یہ طاغوتی فیکٹری پچھلے کچھ دنوں سے اسلام آباد میں دھرنے دینے والوں کے خلاف جھوٹ کات رہی ہے اور طاہر القادری جیسی بزرگ ہستی کے خلاف ایسے الزاماتلگا رہی ہے جن پر ایمان لانا تو دور کی بات صرف ان کو سوچنے سے بھی ایمان کھونے کا دھڑکا لگارہتا ہے ۔

طاغوت کے دو برطانوی ہر کاروں بی بی سی اور رائٹرز نے اپنی دو مختلف رپورٹس میں شیخ الاسلام کے انقلابیوں پر کرائے کے انقلابی ہونے کے ایک ہی جیسے الزامات لگا کر ہمارے اس شک کومزید تقویت دی ہے کہ یہود و نصاریٰ پورے زور و شور سے انقلابی پاکستان کے خلاف سازشوں کے جال بن رہے ہیں۔

(جاری ہے)

جیسے جیسے دھرنا طوالت پکڑ رہا ہے نئے پاکستان کے امکانات روشن سے روشن تر ہوتے جارہے ہیں اور اس روشنی سے چونکہ یہودو نصاریٰ کی آنکھیں چندھیا رہی ہیں اس لیے وہ اس طرح کی من گھڑت خبروں سے نئے پاکستان کے سورج کو طلوع ہونے سے پہلے ہی غروب کردیناچاہتے ہیں۔


قادری صاحب کے سالِ گذشتہ کے تاریخی دھرنے کے موقع پر بھی غیر ملکی خبر رساں ایجنسیوں پر انحصار کرنے والیبعض کج بیں حضرات کی طرف سے کچھ اسی طرح کے شکوک و شبہات کا اظہار کیا گیا تھا کہ قادری صاحب کے غیر معمولی ڈسپلنڈ مریدین یا تو ان کے منہاج سکول نیٹ ورک کے ملازم ہیں یا پھر کرائے پر لائے گئے بے روزگار ! لیکن اُس وقت بھی ایسی افواہوں کی قادری صاحب نے سختی سے تردید کر کے ان کے سر کچل دیے تھے اور اِس سال بھی قادری صاحب بی بی سی اور رائٹرز کی پھیلائی گئی افواہ نما خبروں کا قلع قمع کرنے کے لیے پوری طرح مستعد ہیں ۔

ہم نے سازش کا سرا تو ڈھونڈ لیا ہے لیکن اس سازش کے پس پردہ محرکات تک پہنچنا نہ صرف نئے اور انقلابی پاکستان بلکہ پرانی امتِ مسلمہ کی فلاح و بہبود کے لیے بھی اشد ضروری ہے ۔ اس بات کا کھوج لگانا کہ بی بی سی اور رائٹرز انقلاب سے اس قدر خوفزدہ کیوں ہیں نہایت ہی اہم ہے۔
ہمارے خیال میں قادری صاحب کے انقلابی نعرہ ِ مستانہ سے مغرب کے بت کدوں میں پیدا ہونے والی ہلچل کی چند بنیادی وجوہات ہیں ۔

سب سے پہلی وجہ تو یہ ہے کہ قادری صاحب پاکستان کے وہ واحد داعیِ انقلاب ہیں جن کے پاس ذہنِ رسا کے ساتھ ساتھ تخیلِ بے بہا کی دولت نہایت فراوانی سے موجود ہے ۔وہ مادی دنیا سے بلند ہو کر عالمِ رویا میں ان ہستیوں سے رابطہ کرنے کی صلاحیت سے بھی مالامال ہیں جن کے بارے میں سوچنے سے بھی عام آدمی کے پر جلتے ہیں۔ مغرب یہ جانتا ہے کہ پاکستان جیسے امتِ مسلمہ کے واحد ایٹمی ملک کی باگ ڈور اگر قادری صاحب کے ہاتھ میں آ گئی تو اس کے ہاتھ کچھ نہیں بچے گا۔

قادری صاحب اپنے زمینی علم اور آسمانی رابطوں کی مد دسے اس ملک کی کا یا پلک جھپکنے میں الٹ پلٹ سکتے ہیں ۔ جب زمین و آسمان کی قوتیں مل جائیں تو پاکستان کو آگے بڑھنے سے بھلا کون روک سکے گا۔
قادری صاحب کا انقلابی اصلاحاتی ایجنڈہ بھی مغرب کے کان کھڑے کر دینے کے لیے کافی ہے ۔اپنے دس انقلابی نکات کی مدد سے جس طرح کی فلاحی ریاست قادری صاحب بنانا چاہتے ہیں وہ مغرب کو کسی صورت ِ قبول نہیں ہو سکتی۔

اپنی خیالی ریاست میں شیخ الاسلام جسقسمکی سہولیات دینے کاوعدہ کر رہے ہیں مغرب اپنی ہوش ربا ترقی کے باوجود آج تک ایسی سہولیات اپنے ہاں مہیا نہیں کر سکا۔ آج بھی یورپ اور امریکا میں لوگوں کی ایک بڑی تعداد بے گھری کے عذاب سے گزر رہی ہے، آج بھی وہاں لوگ بے روزگار ہیں، صحت اور تعلیم ابھی تک وہاں مفت مہیا نہیں کی جاسکیں اور نصف قیمت پر اشیائے خوردو نوش کی خریداری آج بھی وہاں ایک خواب ہے۔

قادری صاحب کے انقلابی پاکستان کی صورت میں مغرب کو مشرق سے ابھرتا ہوا اپنا ایک ایسا حریف نظر آ رہا ہے جس نے مغرب کے سارے کھوکھلے طمطراق کا بیڑہ غرق کر دینا ہے۔ بی بی سی اور رائیٹرز کی من گھڑت خبریں مشرق کے اسی ابھرتے ہوئے سورج کے خلاف مغرب کی بوکھلاہٹ کا واضح اظہار ہیں۔
قادری صاحب کے معصوم اور پر عزم انقلابیوں کوتین چار سو کے دیہاڑی دار قراردے کران غیر ملکی خبر رساں ایجنسیوں نے بالکل اسی طرح کی متعصبانہ حرکت کی ہے جیسے ایمل کانسی کے مقدمے میں ایک امریکی عدالتی اہلکار نے یہ کہہ کر کی تھی کہ پاکستانی ڈالر کے عوض اپنی ماں بھی بیچ سکتے ہیں۔

تب کی تہمت اور آج کے الزامات میں کوئی خاص فرق نہیں ۔ نہ اس وقت پاکستانی ڈالروں کے عوض مائیں بیچ رہے تھے نہ آج پیسے لے کر انقلابی بنے ہوئے ہیں۔ رینٹ اے انقلابی کے کاروبار کا الزام نہ صرف غیور پاکستانیوں کی توہین ہے بلکہ یہ انقلابی لیڈروں کی شان میں ناقابلِ معافی گستاخی بھی ہے۔ ہمیں بہ حیثیت ِ قوم اس مذموم سوچ کی کھل کر مذمت کرنی چاہیے اور بہ بانگِ دہل یہ کہنا چاہیے کہ پاکستانی قوم رینٹ پر دستیاب نہیں ہے۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :