یہ ہوکیا رہا ہے؟

جمعہ 12 ستمبر 2014

Chaudhry Haroon Jamil Khan

چوہدری ہارون جمیل خان

یقینی طور پر جو کچھ ہو رہا ہے پاکستان جیسا ترقی پذیر ملک ان حالات کا متحمل نہیں ہو سکتا ۔ یقینی طور پر ان حالات میں زیادہ ذمہ داری حکومت وقت پر عائد ہوتی ہے کہ جس نے 14 ما ہ کا عرصہ گزارنے کے باوجود ’چار‘ حلقے جن پر عمران خان زور دے رہے تھے کہ ان حلقوں میں ووٹوں کی گنتی اور Thumb Impression کے ذریعے نادرہ سے تصدیق کروائی جائے ۔اگرحکومت کی نیت صاف ہوتی تو وہ یہ کام پہلے ہی کر چکی ہوتی ۔

اس سے یہ بات ثابت ہو گئی کہ دال میں کچھ کالا ضرور ہے بلکہ پوری دال ہی کالی ہے۔ اب موجودہ منظر نامے میں سب جماعتوں کا ایکا کیوں؟ یہ ایک اہم اور بنیادی سوال ہے اسکا جواب جو مجھ جیسے نالائق سیاسیات کے طالب علم کی حیثیت سے سمجھ میں آ رہا ہے۔ وہ یہ کہ عمران خان صاحب بائیومیٹرک سسٹم کا مطالبہ بھی کر رہے ہیں جس کو دیکھ کر پی پی پی کو پتہ ہے کہ سندھ کی 35 نشستیں جن پر ان کی کامیابی یقینی ہوتی ہے۔

(جاری ہے)

ان کی کامیابی پر سوالیہ نشان لگ جائے گا۔ دوسری جانب MQMکو لالے پڑ گئے ہیں کہ کراچی کی 20اور حیدر آباد کی دو نشستوں پر سوالیہ نشان لگ سکتا ہے۔ جبکہ تخت لاہور والوں کیلئے پنجاب کی نشستوں ‘ قوم پرستوں کو بلوچستان ‘ جبکہ مولاناصاحب کو KPK میں بائیومیٹرک سسٹم کی وجہ سے شکست نظر آ رہی ہے۔ جبکہ دوسری جانب اس کی ایک بنیادی وجہ یہ بھی ہے کہ پی پی پی چاہتی ہے یہ اپنی مدت پوری کریں تا کہ عوام ہمارے کیے گئے کرتوتوں کو بھول جائے کیونکہ ہماری عوام کی یاداشت کچھ کمزور ہے تب تک عمران کے غبارے سے ہوا بھی کافی حد تک نکل جائے گی‘ اور پھر اگلی باری پھر زرداری کی ہو سکتی ہے۔

اگر بائیو میٹرک سسٹم آ گیا تو ایسا ہونا ناممکن ہے۔تب یہ جماعتیں محض چند سیٹوں تک محدود ہو جائیں گی۔ اب مجھ جیسانالائق طالب علم تو اس کو جعلی جمہوریت بھی نہ کہے گا یہ تو آشرافیہ کی حکومت ہے جس میں چند افراد اور خاندان ریاست پاکستان کی مشینری کو کنٹرول کرتے ہیں۔ اب آئیے کپتان صاحب کی طرف جن میں ایک ضدی بچے کی جھلک نظر آتی ہے۔ جو ’نہ کھیلو اور نہ کھیلنے دو‘ کی پالیسی پر گامزن ہیں ان کے مشیران ان کو غلط مشورے دیکر ان کا image خراب کررہے ہیں ۔

عمران خان نے جہاں اتنا صبر کیا وہاں انکو چاہیے تھا کہ 13 اگست کی وزیراعظم کی تقریر کے بعد ایک پریس کانفرنس میں کہہ دیتے کہ اکتوبر کی 10تاریخ تک اگر حلقوں میں ووٹوں کی تصدیق نہ کرانے اور اگر کروائی بھی تو ایک ووٹ بھی اگر جعلی نکل آئی تو نومبر میں لانگ مارچ کروں گااور تب تک نہ اٹھوں گا جب تک وزیراعظم کابینہ سمیت مستعفی نہ ہوجائیں۔ اس موسم میں نہ گرمی ہوتی نہ سردی ۔

منچلے خوب Enjoy کرنے آتے جس سے ان کا سیاسی کنسرٹ خوب چمک اٹھتا اور پاکستان کی civil society اور عام بندہ بھی وزیراعظم پر استعفے کا زور دیتا اور کپتان صاحب کے پاس ہٹانے کی دلیل بھی ہوتی ‘ پر یہ بات ان کو کون سمجھاتا؟ اس سے ان کا سیاسی قد بھی بڑھتا اور مقبولیت میں بھی اضافہ ہوتا۔ اب آئیے علامہ صاحب کی طرف جو انقلاب لانے کے لیے پاکستان نمودار ہوئے ،میں ان کے قومی حکومت بنانے اور اسمبلیاں تحلیل کرنے کے مطالبے سے 100%اختلاف کرتا ہوں کیونکہ نہ تو اس کی آئین میں گنجائش ہے اور نہ ہی کسی جمہوری ملک میں اس کی مثال ملتی ہے لیکن اگر ان کے موجودہ لانگ مارچ کے پس منظر کو دیکھا جائے تو پتہ چلتا ہے کہ اسکی ذمہ داری پنجاب حکومت پر آتی ہے۔

میں علامہ صاحب کے اس مطالبے سے 100% متفق ہوں کہ وزیر اعلٰی پنجاب کو اپنے عہدے سے استعفٰی دینا چاہیے اور انکے خلاف بھی قانونی کاروائی ہونی چاہیے کیونکہ کسی بھی صوبے کی انتظامیہ پتھروں کے جواب میں گولیاں نہیں چلاسکتی جب تک صوبے کا چیف ایگزیکٹو آرڈر نہ دے اور 17 جون کو ایسا ہی قیامت برپا کرنے والا واقعہ نمودار ہوا جس میں 14 بے گناہ افراد کو قوت کی نیند سلا دیا گیا ایسا تو امریت ،آشرفیہ یابادشاہت میں بھی نہیں ہوتا۔

لیکن ہمارے حکمران جمہوریت کا نام لیتے لیتے نہیں تھکتے ، ایسا جمہوری ملکوں میں نہیں ہوتا جو ظلم یہاں ہم غریب عوام پر کیا جا رہا ہے لیکن ہمارے حکمرانوں نے استعفٰی کو اپنی ”انا“ کا مسئلہ بنا رکھا ہے۔ آخر میں ، میں جمہوریت کی مثال اس بات سے دے دوں ،کہ ایک برطانوی وزیر داخلہ کو اپنے عہدے سے اس لیے استعفٰی دینا پڑا کیونکہ اس نے اپنے بچے کی ”آیا“ کو برطانوی ویزا دلوانے میں اپنا اثرورسوخ استعمال کیا تھا ۔ یہ ہے اصل جمہوریت اور جمہوری روایات جس کیوجہ سے برطانیہ کو ” جمہوریت کا گھر“ کہا جاتا ہے۔خدا ہمارے لیڈروں کو درست عوامی خدمت کرنے کی توفیق دے۔۔ ۔ آمین!

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :