واویلا کار

جمعہ 12 ستمبر 2014

Nadeem Tabani

ندیم تابانی

پاکستان کی مذہبی قیادت کا کہنا ہے ”ہندوستان نے سیلابی پانی چھوڑ کر آبی دہشت گردی کی ہے “،بھائیو! دہشت گرد تو دہشت گرد ہی ہوتا ہے ، جب دہشت گردی ہی اس کا مذہب ٹھہرا تو اس سے گلہ کیا جاسکتا ہے نہ اس سے کسی اچھے کی توقع کی جاسکتی ہے، وہ تو پاکستانی عوام کو پانی میں ڈبو کر ان کی حکومت سے پوچھ رہا ہے کہ اپنے بندوں کو خود نکال لو گے یا ہم نکال کر دیں، صوفی نواز شریف کا دل تو کر رہا تھا کہ کہہ دیں ہاں مسٹر موڈی! جب ڈبویا ہے تو نکالنا بھی تمھارے ذمے ہے لیکن میاں صاحب نے صرف شکریہ ادا کرنا کافی سمجھا ہے ، اگرمجبوری کا نا م واقعی شکریہ ہے تو پھر میاں صاحب کو واقعی شکریہ ہی ادا کرنا چاہیے تھا ،اور شکریہ ادا نہ کرتے تو کیا کرتے ، زیادہ سے زیادہ دو چار جلی کٹی سنا سکتے تھے، اس وقت میاں صاحب اپنے سب سے بڑے حریف سے خود جلی کٹی سننے میں مصروف ہیں، ویسے دھماکا خیز بیان داغ دیتے تو واہ وا خوب ہو جاتی مگر پانی کا ایک بڑا سا ریلا بھی آجاتا، ہم تو ریلا بھی نہیں بھیج سکتے ، البتہ کچھ ڈیم ویم بنا لیں تو اگلے سالوں میں بھارتی ریلوں سے بھی فائدہ حاصل کیا جاسکتا ہے ، میاں صاحب کے ساتھی دعوی کر رہے ہیں کہ اگر ان کی حکومت کو رہنے دیا گیا اور کام بھی کرنے دیا گیا تو ڈیم بناکے دم لیں گے ۔

(جاری ہے)


####
سیلاب پہلی دفعہ نہیں آیا ، آتا ہی رہتا ہے، کبھی کم کبھی زیادہ ،کبھی بہت زیادہ، کہا جا رہا ہے اس بارسیلاب نے پرانے پرانے ریکارڈ توڑ کے نئے بنائے ہیں، حکومت کو بھی نئے ریکارڈ بنانے چاہییں، تصاویر بنوانے کے نہیں کام کرنے کے کر کے دکھانے کے ، ویسے یہ بھی یاد رکھنا چاہیے سیلاب ہو یا زلزلہ یا ایسی اور کوئی قدرتی آفت ، بڑی سے بڑی حکومت اور بڑے سے بڑا نظام سب ناکام ہوجاتے ہیں، یہ بھی ٹھیک ہے کہ حکومتیں کام کم کرتی دعوے زیادہ کرتی ہیں، این جی اوز تشہیر کے مقابلے میں کام 5فی صدبھی نہیں کرتیں،لیکن اگر 100فی صد بھی کریں تب بھی اجڑی ہوئی بستیاں بستے بستے ہی بسیں گی درہم برہم نظام آہستہ آہستہ ہی ٹھیک ہو گا۔


سیلاب کیا آیا ہمیشہ کی طرح سیاست کے نئے پینترے بھی ساتھ لایا ہے ، حکومت بھی سیاست کر رہی ہے اور اپوزیشن کا تو خیر فیورٹ موسم ہے سیاست کا، یہی نہیں کچھ لوگ فوج کو بھی مجبور کر رہے ہیں وہ بھی سیاست کرے ، اپنی کارکردگی کی تشہیر کرے، سیاسی رہ نماؤں کی طرح بیانات بھی دیے جائیں، اور کچھ لوگ اس موقع پر فوج بمقابلہ حکومت کاردگی کا موازنہ بھی کرنے لگے ہیں۔

حکومت سمجھتی ہے فوج اس کا ایک ذیلی ادارہ ہے ، جب کہ فوج سمجھتی ہے حکومت اس کی مرہون منت چل رہی ہے ۔
####
ٹی وی اینکر اور اینکرنیاں بھی سیاست کرنے میں کسی سے پیچھے نہیں ، ایک صاحب سیلاب کے ریلوں کی آمد کی خبر دینے کے ساتھ اس علاقے میں موجود اپنے نمایندے سے پوچھ رہے تھے کہ حکومت پانی نکالنے کے لیے کیا کر رہی ہے ، گویا پانی نہ ہوا کوئی جانور ہوا جو کسی عمارت میں گھس گیا ہے ، یا کوئی دہشت گرد کسی حساس جگہ پر قابض ہو گیا ہے۔

کسی جگہ یہ نہیں دکھایا جائے گا کہ حکومت یا رفاہی ادارے کیا کیا خدمات انجام دے رہے ہیں ، آخر کچھ نہ کچھ تو کر رہے ہوں گے، لیکن چوں کہ صحافت کے زریں اصولوں کے مطابق یہ خبر بنتی ہی نہیں، خبر تو یہی بنتی ہے کہ حکومت کچھ کر رہی ہے نا کوئی رفاہی ادراہ اور این جی او، اس لیے رپورٹر ڈھونڈ ڈھونڈ کے ایسے لوگوں سے بات کرتے ہیں جو زیادہ سے زیادہ واویلا کر سکیں ، اور رپوٹر صاحب اس واویلا کارکے کندھے پر رکھ اوراپنے اینکر کے ساتھ مل کر افرا تفری مچا سکیں۔


####
دھرنے بمقابلہ حکومت ہی لے لیتے ہیں، کچھ ٹی وی چینل اور اخبارات نے ان دھرنوں کو پاکستان کے سارے مسائل کا حل اور غریبوں کا نجات دہندہ سمجھ لیا ہے اور خود کو وقف کر دیا ہے دھرنوں کے لیے ، منہ کا ذائقہ تبدیل کرنے لیے کچھ دوسری چیزوں پر بھی نظر ڈال لی جاتی ہے ، اسی طرح کچھ چینل نے دھرنے والوں کی برائیاں اپنے ذمے داری لے لی ہیں ہے، ڈھونڈ دھونڈ کے ایسی چیزیں لائی جاتی ہیں، یوں معاشرے کی تقسیم کا فریضہ ادا کیا جاتا ہے ، پارلیمنٹ میں جو تقریریں ہو رہی تھیں گویا اس وقت قوم کی سب سے بڑی خدمت وہی تقریریں تھیں ، پارلیمنٹ نہ ہوا سیاسی جلسوں کا اسٹیج ہو گیا ، آنکھیں بند کر کے منہ کھول دیا جاتا ہے جو نکلے قوم کی قسمت۔

شکر ہے اجلاس ایک ہفتے کے لیے ملتوی ہوا ، خدا کرے ارکان پارلیمنٹ کو توفیق ہو جائے کہ ہفتے بعد دوبارہ تقریر تقریر کھیلنے کی بجائے مسائل کا حل نکالا جائے ، اور اس پر عمل کیا جائے ۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :