سیلاب …چند قابل توجہ امور

جمعہ 12 ستمبر 2014

Qari Hanif Jalandhri

قاری حنیف جالندھری

پاکستانی قوم پے درپے عذابوں اور آزمائشوں سے گزرنے والی قوم ہے ۔ ہماری قوم ابھی ایک مشکل کا دریا عبور نہیں کر پاتی کہ کسی نئے دریا کا سامنا ہوتا ہے ۔ تازہ ترین صورتحال ہی دیکھ لیجیے کہ پاکستانی قوم ابھی سیاسی کشمکش اور دھرنوں کی سولی پر لٹکی ہوئی تھی کہ اسی اثنا ء میں سیلاب کی شکل میں ایک نئی آزمائش سے دوچار ہونا پڑا ۔اس سیلا ب کے نتیجے میں ملک کے مختلف حصوں میں بدترین تباہی ہوئی ۔

گھروں کے گھر اجڑ گئے ،لوگوں کی زندگی بھر کی جمع پونجی سیلاب کی نذر ہو گئی ،گھروں کی چھتیں گرنے سے خاندانوں کے خاندان ملبے تلے دب کر رہ گئے ،کئی عورتیں بیوہ ہوئیں ،بچے یتیم ہو ئے ،پوری پوری بستیاں زیر آب آگئیں ۔
اس صورتحال میں ہر درد دل رکھنے والا پاکستانی فکر منداور دعا گو ہے ۔

(جاری ہے)

ایسے میں ضرورت اس امر کی ہے کہ چند ایسی چیزوں کی طرف توجہ مبذول کروائی جائے جن کا خیال رکھنے سے مشکلات اور مصائب کی سنگینی میں کمی واقع ہونے کے امکانات ہوتے ہیں ۔

ان چیزوں میں کچھ قابل توجہ امور ہیں اور کچھ کرنے کے کام ہیں ۔
(۱)سب سے پہلے تو ہمیں اللہ رب العزت کی طرف رجوع کرنے اور اجتماعی طور پر توبہ واستغفار کرنے کی ضرورت ہے ۔دیکھنے میں آیا ہے کہ سیلاب ،زلزلوں اور قدرتی آفات کے بعد ایک بحث چل نکلتی ہے کہ یہ اللہ کا عذاب ہے یا آزمائش ؟ اگر عذاب ہے تو فلاں جگہ کیوں نہیں آیا اور فلاں جگہ کیوں آیا؟اس لیے اس بارے میں ایک اصول ذہن نشین کر لیجیے کہ اگر خدانخواستہ کبھی بھی ایسے کسی حادثے سے دوچار ہونا پڑے تو انفرادی اور اجتماعی سطح پر اپنے اعمال ،رویوں اور معاملات کا جائزہ لینے کی ضرورت ہوتی ہے۔

اگر اس جائزے اور احتساب کے نتیجے میں ہمارے سامنے یہ بات آئے کہ اللہ رب العزت کے فضل وکرم سے ہمارے اعمال وکردار اور مجموعی روش اللہ رب العزت کے احکامات اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت مطہرہ کے مطابق ہے تو ہمیں اس پر اللہ رب العز ت کی بارگاہ میں شکر ادا کر نا چاہیے اور ا س کے باوجود اگر سیلاب ،زلزلوں ،مہنگائی اور بدامنی جیسے مسائل سے دوچار ہونا پڑے تو یہ یقینا اللہ رب العز ت کی طرف سے آزمائش ہو گی اور اگر خدانخواستہ ہمارے انفرادی یا اجتماعی اعمال قابلِ اصلاح ہیں ،ان پر نظر ثانی کی ضرورت ہے تو پھر ہمیں فکر مند ہونا چاہیے ۔

اسی بات کو بعض اہل علم نے ایک اور انداز سے بھی بیان کیا کہ آزمائش اور عذاب کا تعین اس مصیبت کے آنے کے بعد کے انسانی طرزِ عمل سے کیا جا سکتا ہے ۔اگر اس کے بعد انسان رجوع الی اللہ کا پہلے سے زیادہ اہتمام کرنے لگا ہے تو اس کا مطلب یہ ہے کہ یہ آزمائش اس کے لیے اللہ رب العزت کی طرف سے باعث رحمت تھی اور اگر اس تکلیف کے پہنچنے کے بعد اس کے رویے میں بغاوت اور غفلت بڑھ جاتی ہے تو یہ اس بات کی نشانی ہو گی کہ وہ مصیبت اس کے لیے ایک عذاب کی حیثیت رکھتی ہے۔


(۲)شریعت نے ہمیں احتیاطی تدابیر اختیار کرنے کا حکم دیا ،کسی حادثے کے آنے سے قبل اس کی فکر اورتیاری کرنے کا درس دیا گیا ،حسن تدبیر اور سلیقہ مندی کی حوصلہ افزائی کی گئی لیکن ہمارا المیہ یہ ہے کہ ہم مجموعی طور پر غفلت کے مرتکب ہوتے ہیں ،اسباب ووسائل کو بے دریغ لٹاتے ہیں لیکن سلیقہ مندی اور حکمت وتدبر سے کوئی علاقہ نہیں رکھتے اس معاملے میں ہمارے حکمرانوں کا رویہ سب سے زیادہ افسوسناک ہے ۔

ہمارے ہاں کتنے عرصے سے سیلاب آرہے ہیں ،وقت سے پہلے وارننگ دے دی جاتی ہے لیکن اس کے باوجود اس کے لیے خاطر خواہ انتظامات نہیں کیے جا تے ۔عوام الناس کے جان ومال کے تحفظ کی فکر نہیں ہوتی ۔جب کوئی آفت سر چڑھ جاتی ہے تو پھر تصویر ی سیشن کرنے کے لیے حکمران بعض نمائشی اقدامات کرتے ہیں ۔وقتی بھاگم دوڑ نظر آتی ہے لیکن نہ کسی کے نقصان کی تلافی ہوتی ہے ،نہ کسی کے زخموں پر مرہم رکھا جاتا ہے اور نہ ہی آئندہ کے لیے سنجیدگی کے ساتھ کوئی پیش بندی ہوتی ہے ۔

اس لیے ضرور ت اس اَمر کی ہے کہ اس قسم کی صورتحال سے نمٹنے کے لیے کوئی ٹھوس حکمت عملی وضع کی جائے ۔
(۳) سیلاب کے حوالے سے تیسرا قابل غور معاملہ انڈیا کا طرز عمل ہے ۔انڈیا کی طرف سے دریاوٴں پر جس طرح ڈیم بنائے گئے اور ہمارا پانی چور ی کیا گیا ،ہماری سرزمین کو بنجر بنانے کی کوشش کی گئی اور پھر جس طرح اچانک اس پانی کو چھوڑ کر آبی دہشت گردی کا ارتکاب کیا جاتا ہے اس پر عالمی سطح پر بھرپور آواز بلند کرنے کی ضرورت ہے۔

انڈیا کی طر ف سے بے وقت چھوڑے جانے والے پانی کے ریلے کی وجہ سے جو تباہی آتی ہے وہ تو ہم سب کو نظر آتی ہے اور اسے کسی درجے میں زیر بحث بھی لایا جاتا ہے،وقتی طور پر خوب لے دے ہوتی ہے لیکن انڈیا کی طرف سے ہمیشہ ہمیشہ کے لیے ہمارے پانی پر جو ڈاکہ ڈالا گیا ،ہماری زمینیں پیاسی کر دی گئیں اور پھر جس طرح سیلاب کی تلوار مستقل طور پر ہمارے سروں پر لٹکا دی گئی اس معاملے پر ہم جس قدر سنجیدگی ،منصوبہ بندی اور تسلسل کے ساتھ عالمی فور م پر اپنا مقدمہ لڑیں گے اتنے ہی اس کے مثبت اثرات مرتب ہوں گے ورنہ بصورت ِدیگر اس کا خمیازہ صرف ہمیں ہی نہیں بلکہ ہماری آنے والی نسلوں کو بھی بھگتنا پڑے گا ۔


(۴)سیلاب آجانے کے بعد عوام الناس اور خاص طور پر مذہبی ،سیاسی اور رفاہی وفلاحی تنظیموں کے رضاکاروں اور کارکنان کے ذمہ لازم ہے کہ وہ آزمائش کی اس گھڑی میں انصارِ مدینہ کی یادیں تازہ کر دیں ۔ایثار وہمدردی جو اہل ایمان کی میراث ہے اس کے جذبوں کو ایک مرتبہ پھر زندہ کرکے اپنے جان ومال اور کردار وعمل سے اپنے متاثرہ بھائیوں کی ہر ممکن مدد کریں ۔

اللہ رب العزت کے فضل وکرم سے پاکستان بھر کی رفاہی وفلاحی اور دینی تنظیموں اور مساجد کے ائمہ وخطباء اور مدار س دینیہ کے طلبا ء نے اپنی تابندہ رویات کے مطابق اس کارِ خیر کا آغاز کر دیا ہے لیکن اسے مزید منظم کرنے کی ضرورت ہے ۔اس حوالے سے اکثر یہ دیکھنے میں آیا ہے کہ ایسے مقامات جہاں کیمر ے کی آنکھ میں آنے کے امکانات زیادہ ہوتے ہیں رفاہی وفلاحی اداروں کا سارا زور بھی ایسی جگہوں پر ہوتا ہے جبکہ ایسے علاقے جہاں لوگ زیادہ آزمائش میں ہوتے ہیں اور زیادہ مشکلات سے دوچار ہوتے ہیں ان کی سر ے سے فکر ہی نہیں کی جاتی ۔

اس لیے رفاہی وفلاحی اداروں کو صلہ وستائش سے بالاتر ہو کر اور کیمروں کی چکاچوند سے خود کو بچا کر خالصتا ً انسانی بنیادوں پر خدمتِ خلق کا فریضہ سرانجام دینا چاہیے ۔
(۵)جب بھی سیلاب آتا ہے تو ہر کوئی مرکزی اور صوبائی حکومتوں کی طرف دیکھتا ہے ،علاقائی ذمہ داران مرکزی قائدین سے توقعات قائم کر بیٹھتے ہیں بالکل بجا کہ وفاقی اور صوبائی حکومتوں نے پالیسی دینی ہے اور اصل کام بھی انہی کا ہے ،لاریب کہ قائدین اور اکابر پر بھاری ذمہ داریاں عائد ہوتی ہیں لیکن اصل میں تو نچلی سطح پر کام کرنے اور فکر مندی پیدا کرنے کی ضرورت ہے ۔

مرکزی اور صوبائی حکومتوں سے زیادہ ضلعی اور علاقائی انتظامیہ اور اس کے ذمہ داران ،افسران اور کارکنان کا فرض بنتا ہے کہ وہ صرف نوکری نہ کریں بلکہ مشکل کی اس گھڑی میں اپنے دکھی بہن بھائیوں کی مدد اور خدمت کو ایک دینی فریضہ سمجھتے ہوئے اس میں جُت جائیں ۔اسی طرح ہر ایک مسجد ومدرسہ کی انتظامیہ،نمازی حضرات اور مدارس دینیہ کے اساتذہ وطلباء خصوصا جوان سال فضلاء کرام اس کٹھن مرحلے پر اپنی خدمات پیش کریں اور یاد رکھیں کہ دکھی انسانیت کی خدمت عین عبادت اور اللہ رب العزت کی رضا کے حصول کا ذریعہ ہے ۔


آخر میں اللہ رب العز ت کے حضور دعا ہے کہ اللہ رب العزت ہماری قوم کو آزمائش کی اس گھڑی میں سرخروفرما کر اس مشکل سے نجات عطا فرمائیں اور ہم سب کو ایثار اور جذبہ اخوت کے ساتھ خدمت خلق کا اہتمام کرنے کی توفیق بخشیں اور سیلاب میں جاں بحق ہونے والوں کی مغفرت فرمائیں اور جن کا جو نقصان ہو االلہ تعالیٰ انہیں اپنے خزانوں سے اس کا نعم البدل عطا فرمائیں ۔آمین ۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :

متعلقہ عنوان :