مغربی طرز پر اسلامی انقلاب پرپا !مگر کیسے؟؟؟

جمعہ 12 ستمبر 2014

Hafiz Muhammad Faisal Khalid

حافظ محمد فیصل خالد

تقریباََ گزشتہ تین ہفتوں سے پاکستان کے دار الحکومت اسلام آباد کو عمران خان اور مولانا کینیڈا نے اپنے اپنے ساتھوں کے ہمراہ یرغمال بنا رکھا ہے۔عمران خان اپنی ذاتی اناء کی خاطر وزیرِ اعظم پاکستان کے استعفے کیلئے بزد ہیں جبکہ مذہب کے نام پر نام کمانے والے نام نہاد ملاں جنہوں نے ساری عمر دین فروشی کی آج ملک و عوام کے وسیع تر مفادمیں پاکستان میں اسلامی انقلاب برپا کرنے کی خواہش لئے پاکستان تشریف لائے ہیں جبکہ انکی ذہنی استعداد کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ موصوف مغرب کے طرز پر اسلامی انقلاب برپا کرنا چاہتے ہیں لیکن شاید عالامہ صاحب یہ بات بھول رہے ہیں کہ مغربی طرزِ انقلاب اور اسلامی طرزِ انقلاب میں بنیادی فرق پایا جاتا ہے۔


اس اسلامی انقلاب برپا کیلئے کئی بار جناب برطانیہ میں ہونے والے پر امن احتجاج کی امثال دیتے ہوئے اپنے مغربی ایجنڈے اور اپنی جماعت کی دہشتگردی کو چھپانے کی ناکام کوششیں کر رچکے ہیں مگر بد قسمتی سے شاید وہ برطانیہ کی سیاسی تاریخ سے نا واقف ہیں جو ایسی امثال دے کر شاید عوامی توجہ اپنے مذموم عزائم سے ہٹا کر کسی اور طرف مبذول کرانا چاہتے ہیں۔

(جاری ہے)


علامہ صاحب کے انہی دعووں کے پیشِ نظر برطانیہ کی مخطصر سیاسی تاریخ قارئین کی نظر کرتا ہوں جسکو پڑھنے کے بعد کم از کم اس بات کا اندازہ ہو جائے گا علامہ صاحب کس ڈگر پرچل ہرے ہیں اور برطانیہ میں سیاسی تبدیلی کیسے آئی۔برطانیہ کی سیاست بنیادی طور پر تین جماعتوں کے گرد گھومتی ہے۔(۱) لیبر پارٹی (۲) کنزرویٹو پارٹی (۳) لِبرل دیموکریٹک پارٹی۔

ان میں سے آخری پارٹی نئی ہے جبکہ پہلی دو جماعتیں خاصی پرانی تصور کی جاتی ہیں۔تاریخ بتاتی ہے کہ ان کے ذہنوں میں جماعتوں کی باہمی نفرتوں نے برطانوی معاشرے کو دہ گروہوں میں تقسیم کر دیا تھا جس کے بعد ناقدین اس بات کو یقینی قرار دے رہے تھے کہ اب برطانیہ کوتقسیم ہونے سے کوئی نہیں روک سکتا ۔
’ٹوری’ قدامت پسند نطریات کی بنیاد پر دیہی علاقوں میں خاصی مقبول تھی جبکہ ’وگ’ جدید نظریات کی بناء پر تاجروں اور شہریوں میں کافی شہرت رکھتی تھی۔


جب بھی ان میں سے کوئی بھی جماعت’ بر سرِ اقتدار آتی تو دوسری جماعت اور اسکے کارکنان کی شامت آجاتی۔عہددران کو ملک سے فرار ہونا پڑتا، سیا سی کارکنان کی گرفتاریاں عمل میں لائی جاتیں اور مخالف جماعت کے تمام سرکاری ملازمین کو بر طرفکردیا جاتا۔اسی طرح جب ’وگ’ اقتدار میں آتی تو سارا دیہی برطانیہ ہر قسم کی سہولیات سے محروم کردیا جاتا۔

وہاں کے مکینوں کی زندگیاں اجیرن کر دی جاتیں سرکاری ملازمتوں میں انکے کوٹے ختم کر دئیے جاتے اور انکی ترقی اور خوشحالی پر کوئی توجہ نی دی جاتی۔
اسی طرح دوسری جانب جب ’ٹوری’ بر سرِ اقتدار آتی تو تاجر اور بڑے شہروں کے رہائشی کرب و عذاب میں مبتلاء کر دئیے جاتے اور یوں صدیوں تک ان دونوں جماعتوں میں باہمی نفرت پلتی رہی اورعوام ان کے مفاداد کی جنگ میں درجہ بدرجہ پِس تے رہے۔

چناچہ بگڑتے حالات کے پیشِ نظرحالات کی بہتری کیلئے دو افراد میدان میں اترے جن میں (۱) رچڑڈ اسٹیل جبکہ دوسرے نمبر پر جوزف ایڈیسن تھے۔انہوں نے ' ' The Seperatorکے نام سے ایک اخبار متعار ف کروایا اور اس اخبار کی اشاعت دنوں میں لاکھوں تک جا پہنچی۔اس اخبار کی دلچسپ بات یہ تھی کہ یہ اخبار ٹوری اور وگ دونوں جماعتوں کے لوگ پڑہتے تھے اور اس اخبار نے ان دونوں کے ما بین محبت و الفت کو ایسے منظم انداز میںآ گے بڑہایا کہ ان دونوں جماعتوں کی باہمی رنجشیں محبت میں بدل گئیں۔

دونوں جماعتیں ایک دوسرے کے قریب آنے لگیں اور اس طرح وہ برطانوی معاشرہ جس کے بارے میں ناقدین کا کہنا تھا کہ اب اسکو ٹکرے ہونے سے کوئی نہیں بچا سکتا ایک منقلب معاشرے کے طور پر ابھر کے سامنے آیا۔اور اس طرح اس معاشرے میں باہمی ایثار کے جذبے کو فروغ ملا جس نے برطانیہ کی ترقی میں ایک ایسا قلیدی کردار ادا کیا جس کی مثال آج کے لوگ بڑے فخر سے دیتے ہیں۔


یوں برطانوی معاشرہ منقلب ہوا۔
مگر یہاں پرکس قسم کا اقلاب لایا جا رہا ہے وہ سمجھسے بالا ترہے ۔ شاید علامہ صاحب بھول رہے ہیں کہ وہ ایک مذہبی شخصیت ہیں اور اسلامی انقلاب کی باتیں کر رہے ہیں اور اسلامی طرزِ انقلاب اور مغربی طرزِ انقلاب میں بڑا بنیادی فرق ہے۔ بحثیتِ مسلمان علامہ صاحب کو اسلامی انقلاب اسلامی طرزِ انقلاب پرلانا چاہئیے تھا مگر بد قسمتی سے یہاں علامہ صاحب کے ساتھ نیم ملاں خطرہ ایمان والا معاملہ ہے۔

کاش کے علامہ صاحب دین فطرت کے اصل اصولوں سے واقف ہو تے اور کاش کہ علامہ صاحب کبھی اسلامی طرز پر بھی اسلامی انقلاب بر پا کی بات کرتے ۔ جس طرح چِلا چِلا کر مغربی معاشرے کی امثال دیتے ہیں کاش دین کے نام پر لوگوں کو اکٹھا کر نے والے دینی انقلاب کی بھی تھوڑ ی سی بات کر لیتے۔کاش کے علامہ صاحب یہ بھی دیکھ لیتے کہ برطانوی معاشرے میں لوگ ابھی اتنے بے ضمیر نہیں ہوئے کہ خود بلٹ پروف کنٹینرز میں چھپے رہیں اور عوام کو مذہب کے نام پر بے یار و مدد گارچھوڑ دیں۔

موصوف کاش یہ بھی دیکھ لیتے کہ جہاں کی امثال یہ دے رہے ہیں وہاں احتجاج میں لوگ نہ مسلح ہوتے ہیں اور نہ ہی اہم عمارات کو نشانہ بنا کر عاملی برادری میں اپنے ملک و ملت کے استحقاق کو مجروح کرواتے ہیں۔مگر افسوس ان کے مفادادکی لڑی شاید کہیں اور جا ملتی ہے اور یہ اتنے مجبور لوگ ہیں کہ افسوس بھی نہیں کر سکتے۔
نہ معلوم یہ کیسا انقلاب ہے جس سے علامہ صاحب کے اپنے گھرانے کو استثنی حاصل ہے جبکہ بیچارے غریب عوام کو مذہب کے نام پر واسطے دے دیکر بٹھایا جا رہا ہے۔

علامہ صاحب اس ملک میں جہاں باہمی الفت و محبت کی ضرورت ہے آپ انتشار پھلا کر نہ جانے کونسی دینی خدمت سر انجام دے رہے ہیں۔ علامہ صاحب آپ اس ملک کو ایک ایسی دلدل میں دھکیل رہے ہیں جس کے لئے یہ دھرتی ماں آپ کو کبھی معاف نہیں کرے گی اور آپکا نام تاریخ کے ان سیاہ ابواب میں ان لوگوں کے ہمراہ لکھا جائے گا جنکو نہ اس دنیا میں کچھ ملا اور نہ آخرت میں ان کا کوئی حصہ ہے۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :