اے قائد ہم شرمندہ ہیں

جمعہ 12 ستمبر 2014

Chaudhry Muhammad Afzal Jutt

چوہدری محمد افضل جٹ

قوم بانیِ پاکستان قائد اعظم  کا 66واں یوم وفات ایسے حالات میں منا رہی ہے جب پاکستان سیاسی، معاشی ،اقتصادی اور انتظامی بحرانوں میں پھنسا ہوا ہے کوئی راہنما ایسا نظر نہیں آ رہا جو وطن عزیز کو ان بحرانوں سے نکال کرقائد اعظم کے تصور اور نظریے کے مطابق تعمیر و ترقی کی راہوں پر پھر سے ملک کو گامزن کر سکے کیونکہ ملک کی زمام اقتدار ان لوگوں کے ہاتھ میں ہے جن کے قول و فول میں تضاد ہے جو قائد اعظم  کی ذات کو قابل تقلید نہیں سمجھتے ان کے افکار و نظریات کو پشِ پشت ڈال کرحکمرانی کا ایسا نظام وضع کرنا چاہتے ہیں جس میں اقتدار ان کی وراثت ٹھہر جائے اور قوم ان کی رعایا بن جائے وطن عزیز کی یہ خونچکاں صورت حال حکمرانوں کی ہی غلطیوں کا نتیجہ نہیں بلکہ اس میں ہماری لغزشیں بھی شامل ہیں ہم نے بھی قائد کے اصولوں کو بالکل فراموش کر دیا ہے ان کے افکار و نظریات بھلا دیا ہے اپنے قائد کے آدرشوں کو پس پشت ڈال دیا ہے اگر ہم ہی قائد کے سنہری اصو لوں امانت،دیانت،محنت ،شرافت اور صداقت جیسے اوصاف کو مدِ نظر رکھ کر قائد کے بتائے ہوئے سیاسی اور جمہوری تقاضوں کے مطابق اپنا رائے حق دہی استعمال کرتے تونہ ہم پر چور ،لٹیرے جاگیر دار اور خائن سرمایہ دار مسلّط ہوتے اورنہ ہی لاکھوں قر بانیوں کے عوض حاصل ہونے والا ہمارا وطن معاشی،اقتصادی اور سیاسی طور پر اس قدر لاغر اور کمزور ہوتا اگر قومی حمیّت،خودداری اور انا ہمارا شیوہ ہوتی ہم اپنے دین اور اسلاف کی عظیم روایات کو مضبوطی سے پکڑ کر رکھتے تو زلالت،خواری اور ناکامی ہمارا مقدر نہ بنتی۔

(جاری ہے)

ہم وہ قوم بن چکے ہیں جو سچائی اور اخلاص کے ساری قرینوں کو ملیا میٹ کر چکی ہے لوٹ کھسوٹ،بد دیانتی،بئی مانی ، رشوت ستانی اور چور بازاری کو جس نے اپنا ماٹو بنا لیا ہے یہی وجہ ہے کہ کرپشن اور بد دیانتی کے اعتبار سے ہم ان بیس ملکوں میں سب سے اوپر ہیں جو کرپٹ اور بد دیانت ہیں ماسوائے موت کے ہمارے ہاں ہر چیز دو نمبر کی ملتی ہے ملاوٹ ہمارے معاشرے میں ایک ناسور کی صورت اختیار کر چکی ہے دودھ،آٹا،چینی ،پانی،تیل،مرچ مصالحے،گھی ،گوشت اور دیگر ضروریات حیات کی کوئی بھی چیز آپ کو ملاوٹ سے پاک نہیں مل سکتی اور ہماری بے حسی کا یہ عالم ہے کہ جو جتنا بڑا چور ،لٹیرا اور ڈاکو ہے وہ ہمار ے معاشرے میں اتنا ہی بڑا معتبر ،عزت دار اور صاحب تو قیر ہے اے ہمارے قائد آج آپ کا یوم وفات ہے ہم اس دن کو ہر سال ملّی و قومی سطح پر مناتے ہیں سکہّ رائج الوقت صدر مملکت ،وزیر اعظم اور وزراء صاحبان اپنے اپنے بیانات جاری کرتے ہیں اور عہد کرتے ہیں کہ ہم قائد اعظم  کے ارشادات و فرمودات کے مطابق پاکستان کو ایک اسلامی و فلاحی ریاست بنانے کے لئے کوئی دقیقہ فرو گذاشت نہیں کریں گے اور اپنی تمام تر توانیاں ملک و قوم کے لئے صرف کریں گے مگر بارہ ستمبر کو یہ سب نہ صرف اپنے عہد کو بھلا دیتے ہیں بلکہ قومی دولت کو لوٹنے کے نئے نئے طریقے ڈھونڈنکالتے ہیں اور یہ سلسلہ گیارہ ستمبر 1948سے جاری و ساری ہے قوم بھی آپ کی برسی پر تقاریب کا اہتمام کرتی ہے اور بڑے جوش و جذبے سے اس بات کا عہد کرتی ہے کہ ہم ان حکمرانوں اور سیاستدانوں کا جنہوں نے اپنی لوٹ مار اور کرپشن سے پاکستان کو تباہ و برباد کر دیا ہے جن کا طرز حکمرانی قائد کے اصولوں اور نظریات کے منافی ہے ہم ان کو اپنے اپنے ووٹ کی طاقت سے اقتدار کے ایوانوں سے باہر نکال پھینکیں گے جنہوں نے قومی سرمائے کو چوری کیا اب کی بار ہم زمام اقتدار ان جاگیرداروں وڈیروں سید زادوں اور مخدوموں کے سپرد نہیں کریں گے جو آکسفورڈ اور کیمرج کے ان پڑھ ہیں بلکہ ہم اپنے مسائل کے حل کی خاطر ان لوگوں کو منتخب کریں گے جو ان میں سے ہیں جن کو عام آدمی کے مسائل کا ادراک ہے جو سیاست کو کاروبار نہیں بلکہ سیاست کو خدمت کا درجہ دیتا ہے مگر ہم بھی اپنی اس کمٹمنٹ سے تقریب کے ختم ہونے سے پہلے ہی منحرف ہو جاتے ہیں یہی وجہ ہے کہ آج تک ہم بنیادی سہولتوں سے بھی محروم ہیں کیا ہمارے قائد کا خواب ایسے پاکستان کا خواب تھا کیا ہمارے قائد کی یہ خواہش تھی کہ اس کے پاکستان میں ایسے لوگ حکمرانی کریں جو بات تو غریبوں کے حقوق کی کرتے ہوں لیکن اس سے نا واقف ہوں کہ غریبوں مزدوروں ،کسانوں اور دیہاڑی داروں کے حقوق کیا ہیں کیا قائد نے ایسے پاکستان کے لئے جد و جہد کی تھی کہ جہاں غریبوں کے بچے وینٹی لیٹر کے خراب ہو نے کے باعث موت کی وادی میں چلے جائیں اور حکمران اپنے سر درد کی دواء کے لئے بیروں ملک جائیں نہ ہمارے قائد ایسا پاکستان چاہتے تھے اور نہ ان لوگوں کی یہ آرزو تھی جنہوں نے اس پاک سر زمین کی خاطر اپنا مال و متاع قربان کر دیا تھاکہ ان کی امنگوں اور آرزؤں کا مسکن ایسا ہو جہاں دوہرا نظام زندگی ہو جہاں حکمران تو عیاشیاں کریں اور عوام بے چاری دو وقت کی روٹی کو ترسے۔

ہمارے قائد آج زندہ ہوتے تو پاکستان کے ان حالات پر بہت رنجیدہ ہوتے۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :