عالمی امور اور مفادات میں تبدیلیاں

بدھ 10 ستمبر 2014

Badshah Khan

بادشاہ خان

ملک میں جاری طویل دھرنے نے جہاں معیشت کو شدید نقصان پہنچایا،اسی دوران عالمی امور میں کئی تبدیلیاں سامنے آئیں، دنیا اس وقت واضح طور پر تقسیم ہوتی جارہی ہے اور تین بڑے اتحاد بنتے جارہے ہیں ،امریکہ و اتحادی،روس واتحادی اور دنیاء اسلام میں موجود مدافعتی قوتیں۔نیٹو نے داعش و روس سے نمنٹنے کیلئے نئی فورس بنانے کا اعلان کیا تو دوسری طرف داعش نے مشرق وسطی کے بعد افغانستان و پشاور کا رخ کیا اور ایک کتابچہ تقسیم کیا گیا یہ کتابچہ کس نے تقسیم کیا؟کیوں کیا؟ کون سرحدی علاقوں ان کے لئے راہ ہموار کررہا ہے؟کس کو براراست نقصان ہے؟اس پر پھر کبھی کالم تحریر کرونگا،تیسری خبر القاعدہ کے حوالے سے میڈیا میں گردش میں ہے، القاعدہ نے جنوبی ایشیاء کے شاخ کا اعلان کردیا،جبکہ روسی باغیوں اور یوکرین میں معاہدے کی خبر ہے۔

(جاری ہے)

یہ وہ تبدیلیاں اور مسائل ہیں جن کا تعلق اس ریجن اور ایشیاء سے ہے اس وقت دنیا میں ایشیاء مرکز کی حیثیت اختیار کرچکا ہے،اور سرد جنگ کی یہ صورت حال طویل عرصے تک برقرار نہی رہ سکتی اس کی ایک وجہ گریٹ گیم کے رائٹرز بھی ہیں جن کے منصوبے پورے ہونے میں کئی مشکلات ہیں اور انھیں کاونٹر کرنے کے لئے مختلف گروپوں ،جماعتوں اور افراد کو ان ممالک میں مضبوط کیا جارہا ہے تاکہ وہ ان کے مخالفین کی راہ روک سکیں۔


ایک اور اہم رابط انڈیا اور جاپان میں ہوا ہے جس کے پیچھے امریکہ کی کوشش ہے جس کا مقصد چین جاپان میں بڑھتی قربت کو روکنا ہے، جس سے براہ راست پاکستان متاثر ہوسکتا ہے ،اس وقت سعودی عرب کے بعد جاپان پاکستان کا دوسرا بڑا ڈونر ملک ہے،جس کی وجہ سے پاکستان کئی اہم پروجیکٹس سے محروم ہوسکتا ہے۔
نئے اتحاد بن رہے ہیں ، اور مفادات کا محور بدل رہا ہے، دنیا میں اب ہمہ قطبی ہونے کا غلغلہ ہے روس سے لیکر امریکہ تک سب اپنے مہرے اور کھلاڑی بدل رہے ہیں۔

پرانے اتحادوں کے بعد نیٹو بھی زوال پذیر ہے ۔ نئے اتحاد کا بھی براہ راست نشانہ مسلم ممالک ہیں جس کی لپیٹ میں شام ،مصر اور غزہ آچکے ہیں ، اب اس کا ہدف دوسرے ممالک میں منتقل کیا جا رہا ہے۔اس صورت حال جسے مغربی میڈیا نے عام کردیا ہے اور اس کے اثر ات سے متاثر ہوکر کئی ممالک پریشان ہیں اور ان کی سمجھ میں نہی آرہا کہ وہ کیا فیصلہ کریں؟ کس پر بھروسہ کریں؟ اور کس اتحاد کا حصہ بنے؟جبکہ دوسری طرف روس انگڑیاں لے رہا ہے اور یورایشیا کے نام سے سنیٹرل ایشیا کے ممالک جن میں کئی مسلم ممالک شامل ہیں نئے بلاک میں شامل ہونے کیلئے رابطے کرچکے ہیں۔

چین اور جاپان میں گذشتہ تین برسوں سے نئے اتحاد اور ڈالر کے علاوہ دوسری کرنسی میں کاروبار پر غور ہونے کے بعد اس میں بھی تبدیلی آرہی ہے ،امریکہ نے انڈیا کے ذریعے جاپان کو قابو کرنے کے منصوبے پر عمل شروع کردیا ہے، حالیہ دنوں میں بھارتی وزیر اعظم کا دورہ جاپان اسی مقصد کے لئے تھا،اس بے یقینی کی کیفیت نے دنیا کو مزید بحرانوں کی طرف دھکیل دیا ہے
پہلے یہ مشہور کیا گیا کہ سعودی عرب نے پاکستان سے خفیہ جوہری معاہدہ کیا ہوا ہے ،اب تازہ پروپیگنڈے میں سعودی بیلسٹک میزائیل کو اپنا حدف بنایا جارہاہے ، کہ سعودی عرب نے ان کا رخ اسرائیل و ایران کی طرف ہے اور یہ میزائیل ہر وقت حملے کیلئے تیا ر ہیں۔

مغربی مقولہ ہے کہ جھوٹ اتنا بولو کہ لوگ اس کو سچ سمجھ لیں۔یہودی اسی فارمولے پر عمل پیرا ہیں جس کی وجہ مسلم ممالک میں اور اس کی عوام میں تفرقہ بڑھتا جارہا ہے ۔ پروپیگنڈے کے مقاصد بالکل واضح ہیں سعودی عرب اور عالم اسلام بالخصوص عرب ممالک میں خلیج بڑھنا ۔تاکہ اسرایئل کو تسلیم کرنے میں آسانی ہو اور سعودیہ کا کردار مسلم امہ کی نظروں میں ختم ہوکر رہے جائے۔

تاکہ شام کے مسئلے جس پر ایران ،امریکہ اور اسرائیل میں اتفاق ہے چھپ جائے۔اور ایک نیا محاذ کھولا جائے ۔اسرائیل کو تسلیم کرنے کے کئی ممالک کو راضی کرنا اور اس سارے معاملات میں امریکہ برطانیہ ایک ایجنڈے پر عمل پیرا ہیں۔جبکہ ایران اپنے ریجنل مفادات کے لئے ان کے ساتھ شامل ہوگیا ہے یا تھا۔
کچھ مبصرین کا کہنا ہے کہ گودار اکنامک کوروڈور کے قیام سے کئی ممالک کو تکلیف ہے ،اس طرح کے منصوبوں سے پاکستان اپنے پاوں پر کھڑا ہوسکتا ہے ،اس لئے اب وقفے وقفے سے ملک میں نئے نئے بحران اٹھائے جائیں گے،ان بحرانوں کے پیچھے لندن پلان والوں کے ساتھ اندرونی عناصر اور آلہ کار ملوث ہونگے ،تاکہ اہم منصوبوں کو ختم کیا جاسکے یا اس کی رفتار کو سست کیا جاسکے، کیونکہ بین الاقوامی اسٹبلشمنٹ میں شامل پاکستان مخالف ممالک کی خواہش ہے کہ موجودہ حکومت کو ایک سال کے اندر فارغ کیا جائے ،اور پاکستان دنیا کے حوالے خارجہ پالیسی تبدیل نہ کرے،ایک آزاد ملک کی حیثیت سے پاکستان کی خارجہ پالیسی بنانے کا اختیار پاکستان کو ہے ،پاکستان کا موقف کئی بین الاقوامی معاملات پر ان سے الگ ہے،افغانستان ہو یا شام کے مسئلے پر پاکستان کا موقف اصولی ہے، شام کے مسئلے کو جینوا ون اور جینوا ٹو کے تحت حل کیا جائے ۔

مگر چند عناصر ہیں جواس موقف کو تبدیل کرنے کیلئے کام کررہیں، ان سنگین حالات میں قدم اور فیصلے دور رس نتائج کے حامل ہونگے ایسے میں کسی پرپپیگنڈے سے متاثر ہوئے بغیر وہ فیصلے کرنے ہونگے جس سے ملکی مفادات اور دوست ممالک دونوں فائدے میں رہیں ،دنیا ایک گلوبل ویلج بن چکی ہے ۔مگرآزمائے ہوئے دوستوں کو چھوڑنا مہذب قوموں کا شیوا نہیں ،دیکھنا یہ ہے کہ حکومت اور ریاستی ادارے اس اندرونی و بیرونی چیلنجز سے کیسے نمٹتے ہیں۔

افغانستان سے نیٹو کا انخلا ٹرنینگ پوائینٹ ہے،فیصلہ کن معرکے کی بساط بچھائی جاچکی ہے،تین بڑے اتحاد اور ان کو لڑانے والی خفیہ لابی یہودی اس کے جنگ کے چوتھے حصے دار ہیں،امریکی خواب ٹوٹ چکا ہے، اپنے مفادات کے تحفظ کیلئے نئے اسلامی اتحاد کو مضبوط کرنے کی ضرورت ہے آخر میں اس وقت کی صورت حال کے حوالے سے یہود ی پروٹوکولز کا ایک پروٹوکل نقل کرنا چاہتا ہوں یہ پروٹوکولز یہودیوں کے دانا افراد نے دو سو برس قبل دنیاپر غلبے کیلئے اور اپنی سپر حکومت بنانے کیلئے تحریر کئے تھے، وہ لکھتے ہیں، رائے عامہ پر تسلط حاصل کرنے کے لئے اولاء ہمیں ماحول میں کشیدگی ،مایوسی اور بے اطمینانی کی فضا پیدا کرنی ہوگی جس کیلئے متضاد نظریات اور متنازعہ آرا کو جنم دیکر مستحکم کرنا ہوگا یہ کھیل طویل عرصہ تک کھیلاجانا چاہے تاکہ عوام بے صبر ہوکر بھپر جائیں گے،
قارئین ہماری موجودہ صورت حال یہ لانگ مارچز،یہ دھرنے ،ٹی وی چینلز پر مباحثے ایسے ہی ماحول کو تخلیق دینے میں مصروف ہیں، جس سے قوم میں تقسیم بڑھتی جارہی ہے ،اس کا مطلب یہ ہے کہ نادیدہ قوتیں دھیمے انداز سے نہی بلکہ تیزی سے اپنے اہداف کی جانب بڑھنے کا اعلان کررہی ہیں اور ہم مدہوش ہیں اور اس کا انجام کیا ہوگا ؟ سب کے سامنے ہے۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :