میرا دکھ۔۔۔۔!

پیر 8 ستمبر 2014

Farrukh Shahbaz Warraich

فرخ شہباز وڑائچ

مجھے اس بات سے کوئی سروکار نہیں کہ یہ احتجاج کتنے دن مزید جاری رہے گا،میری دلچسپی اس بات میں بھی نہیں کہ ان دھرنوں کے بعد حکومت جاتی بھی ہے کہ نہیں۔مجھے نہیں معلوم یہ جمہوریت کو ری ڈیل کرنے یا نہ کرنے سے کیا ہو گا۔۔؟میں نہیں جانتا کہ فوج اور حکومت کو ایک ”پیج“ پر ہونا چاہیے یا نہیں۔۔۔؟ میں یہ بھی نہیں جانتاکہ”سٹیک ہولڈرز“کی دلچسپیاں کہاں ہیں۔

۔۔؟مجھے یہ بھی نہیں جاننا کہ ”سٹیٹس کو“ کی فضا کب ختم ہو گی۔۔؟میرا اس بات سے بھی کوئی تعلق نہیں آیا کہ ”نیا پاکستان“ اس سال بن بھی پائے گا کے نہیں۔۔۔؟مجھے اس بات سے کوئی لینا دینا نہیں ”عالمی اسٹیبلشمنٹ “ کیا ”گیم“ پلان کر رہی ہے۔۔؟
میرا دکھ تو کچھ اور ہے۔۔میرا غم تو سانحہ ماڈل ٹاؤن میں گرنے والی لاشیں ہیں،میرا دکھ توان شدید بارشوں کی وجہ سے اپنی سانسیں کھو دینے والے لوگ ہیں۔

(جاری ہے)

میں ایک عام آدمی ہوں مجھے صرف ”عامیوں “کے دکھ کا علم ہے۔ میرا نوحہ تو انھی لوگوں کے ارد گرد گھومتا ہے۔نواز شریف،آصف زرداری،عمران خان،ڈاکٹر طاہر القادری کیا کھاتے ہیں ،کیا پیتے ہیں،کن ”محلوں“،”کنٹینروں“ میں راتیں گزارتے ہیں۔میں یہ سب نہیں جانتا۔۔جانتا تو بس اتنا کہ کہ روز سینکڑوں لوگ میرے دیس میں سوکھی روٹی کو ترس جاتے ہیں جب کہ اسی دیس کے حکمرانوں کے دستر خوان ستر قسم کے کھانوں سے سجے ہوتے ہیں۔

میرا غم یہ نہیں کہ تین ہفتوں میں قائدین گرمی،سردی ،بارش،آندھی،طوفان میں دھرنا دیے بیٹھے ہیں۔مجھے یاد آتے ہیں تو بس وہاں بیٹھے بے بس،لاچار،بے سہارا بچے،بچیاں میرے اپنے لوگ جی ہاں میرے اپنے، میرے جیسے عامی لوگ وہ کیسے ان موسموں سے لڑ رہے ہیں ۔مجھے نظر آتے ہیں تو صرف وہ دس لاکھ لوگ جو اپنے ہی وطن میں بے وطن ہو چکے ہیں۔مگر بد قسمت قوم کے خوش قسمت حکمران اپنی اناؤں کی جنگیں لڑ رہے ہیں،ان سب کی عزتیں ہیں،سٹیٹس ہیں،egoہیں،عزت نہیں ہے تو اس لٹی پٹی عوام کی۔

سڑکوں پر لاٹھیاں کھانے کے لیے عوام اور ان لاٹھیوں کے ثمرات سے محظوظ ہونے کے لیے یہ سیاستدان،سڑکوں پر لاچار بے بس نہتے گولیاں کھانے کے لیے عوام۔۔۔میرا دکھ تو یہ ہے مرتے ہیں تو میرے جیسے عام لوگ،پستے ہیں تو میرے جیسے عام لوگ،جیلیں بھری جاتیں ہیں تو پھر کام آتے ہیں میرے جیسے عام لوگ،روندے جاتے ہیں تو پھر میرے جیسے عام لوگ،خود لوگوں کے بچوں کو سڑکوں پر لانے کا استحقاق محفوظ رکھتے ہیں ان راہنماؤں کے بچے انگلش میڈیم سکولوں میں پڑھتے ہیں،بیرون ملک سیر سپاٹے کرتے ہیں مگر مرنے،ڈنڈے کھانے اور دھرنوں کے لیے رہ گیا غریب کا بچہ۔

۔۔آخر کیوں ۔۔؟دوسری طرف ہیں جمہوریت کے محافظ جب تک خود کی حکومت محفوظ جمہوریت سلامت ہے،جمہوریت ان کے گھر کی لونڈی ہے۔خود کی دم ہر پاؤں آئے تو چلا اٹھتے ہیں جمہوریت زندہ باد۔۔۔ جمہوریت یہ نہیں جس کے مزے سیاستدان اور ان کے اقرباء اٹھا رہے ہیں۔جناب والا جمہوریت کا مطلب ہےGovernment of the people, by the people, for the people
تصویر کا دوسرا رخ دیکھیے ان دھرنوں کی وجہ سے ڈالرکی قدر بڑھنے سے پاکستان کے ذمہ واجب الادا قرضوں میں 350 ارب روپے کا اضافہ ہوگیا ہے اور معیشت کو 500 ارب روپے کا نقصان پہنچ چکا ہے۔

چینی صدر کا دورہ منسوخ ہو چکا ہے،لوگ پاکستان آنے گھبرا رہے ہیں۔پہلے اس وطن کے مسائل کم ہیں جو آپ عوام کو بے وقوف بنا کر سڑکوں پر لے آئے ہیں۔سیاستدانوں کا کیا جاتا ہے۔۔؟ یہ نقصان ان کا نہیں یہ نقصان تو ہمار ہے،اس ملک کا،عام آدمی کا،گزشتہ اکیس دنوں کے دوران جڑواں شہروں میں دھرنوں کے باعث جو صورت حال بنی ہوئی ہے اْس سے ثابت ہوتاہے کہ ہمارے سیاسی رہنما قومی مسائل کے حل کے لیے بصیرت، تدبر اور تاریخ کا تجزیہ کرنے کی صلاحیتوں سے محروم اور ملک کے اردگرد کے حالات سے لاعلم دکھائی دیتے ہیں۔

ان بے غرض سیاستدانوں کی ترجیحات اور اہداف کچھ اورہیں۔یہ عوام کے دکھ سے لاتعلق نظرآتے ہیں۔آپس میں سر شام سکرینوں پر چیختے چلاتے نظر آتے ہیں۔ان کی لڑائیوں میں نقصان کس کا ہوتا ہے عام لوگوں کا۔شاعر کہتا ہے
آپ کو کون تماشائی سمجھتا ہے
آپ تو آگ لگاتے ہیں چلے جاتے ہیں
کاش یہ عوام کا دکھ سمجھ سکیں،کاش کہ کوئی آگے بڑھے ان حالات کو ٹھیک کرنے کے لیے۔۔۔کاش کہ یہ خلق خدا کی آواز سن سکیں۔۔۔اس امید کے ساتھ یہ الفاظ لکھ رہا ہوں کہ شاید کوئی عوام کا دکھ سمجھ سکے ان عامیوں کا دکھ ایک عام آدمی ہی سمجھ سکتا ہے۔۔کاش کوئی میرا دکھ سمجھ سکتا۔۔۔۔!

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :

متعلقہ عنوان :