ہمیں فیصلہ کرنا ہو گا !

پیر 8 ستمبر 2014

Muhammad Irfan Nadeem

محمد عرفان ندیم

کارل مارکس کواشتراکیت کا پیغمبر کہا جاتا ہے ۔مارکس 5مئی 1818میں جرمنی میں پیدا ہوا ،اس کا والد ایک یہودی وکیل تھا جس نے 1824میں عیسائی فرقے پروٹسٹنٹ کا مذہب اختیار کر لیا تھا ۔مارکس نے 1830سے 835تک ٹریئر کے جمناسٹک اسکول میں تعلیم حاصل کی ،اس کے بعد پہلے بون پھر برلن یونیورسٹی میں لا ء کا اسٹوڈنٹ رہا ۔اس کا اکیڈمک سبجیکٹ لاء تھا لیکن اس نے فلسفہ اور تاریخ میں بھی دلچسپی لی اور ان دونو ں موضوعات پر کافی دسترس حاصل کر لی ۔

اس نے 1841میں فلسفے میں ڈاکٹریٹ کی ڈگری لی اور بون یونیورسٹی میں تدریس کے خواب دیکھنے لگا ،پروشیا کی گورنمنٹ نے ترقی پسند خیالات کے حامل پروفیسرز کو یونیورسٹی سے خارج کر دیا اور یوں مارکس کا خواب شرمندہء تعبیر نہ ہو سکا ۔1842میں مارکس ”زی انشے زیتونگ “نامی اخبار سے منسلک ہو گیا اور کچھ ہی عرصے بعد اس اخبار کا ایڈیٹر بن بیٹھا ۔

(جاری ہے)

اپنے خیالات کی ترویج کے لیئے مارکس کے پاس یہ اچھا پلیٹ فارم تھا چناچہ اس نے ریاستی جبر ،معاشی ناانصافی ،مزدوروں کے استحصال اور جبر کے خلاف لکھا اور خوب لکھا ۔یورپ میں ابھی اظہار رائے کی اتنی آزادی نہیں تھی نتیجہ یہ نکلا کہ پروشیا کی حکومت نے اخبار پر پابندی عائد کر دی ۔17مارچ1843کو مارکس نے استعفیٰ پیش کیا ،اپنی بچپن کی دوست جینی سے شادی کی اور خود ساختہ جلاوطنی ختیار کر کے پیرس چلا گیا ۔

فرانس اور پیرس کی کھلی ہواوٴں نے مارکس کو زندگی کی نئی حقیقتوں سے روشناس کرایا ،وہ روزانہ پیرس کے نواح میں قائم مزدوروں کی بستیوں میں چلا جاتا اور گھنٹوں ان سے گفتگو کر تا ،ان کی مشکلات سنتا ،ان کے مسائل معلوم کرتا اور ان کی دکھ بھری داستانیں سن کر شام کو واپس چلا آتا ۔پیرس میں قیام کے دوران اس نے فرانس کی عدلیہ اور فرانس کی خفیہ تنظیموں سے روابط قائم کر لیئے ۔

1848کے آغاز میں مارکس نے اپنے قریبی دوست فریڈرک اینگلز کے ساتھ مل کر اشتراکیت کا منشور پیش کیا ۔1848میں جرمنی میں ہنگامے شروع ہوئے تو مارکس اپنے دوست اینگلز کے ساتھ جرمنی چلا آیا ۔1867میں مارکس نے سرمایہ دارانہ نظام پر اپنی مشہور کتاب ”داس کیپٹل “لکھ کر مغربی دنیا میں ہلچل مچا دی ،یہ ایک ایسی کتاب تھی جس نے تاریخ کا رخ موڑنے میں اہم کردار ادا کیا اور صرف اس ایک کتاب کی وجہ سے بیسویں صدی میں انسانی تاریخ کا عظیم انقلاب رونما ہوا ،یہ کتاب تین جلدوں پر مشتمل تھی لیکن مارکس کی زندگی میں اس کی صرف ایک جلد شائع ہوسکی ،بقیہ دو جلدوں کا مسودہ تیار تھا لیکن مارکس اپنی زندگی میں ان کی اشاعت کا اہتمام نہ کر سکا ،مارکس کی وفات کے بعد اس کے دیرینہ دوست اینگلز نے 1885میں دوسری اور 1894میں تیسری جلد شائع کی ۔

بیسویں صدی کے آغاز میں لینن نے آگے بڑھ کرمارکس کے فلسفے کو عملی شکل دے دی اور روس میں محنت کشوں کا انقلاب آ گیا ،1917سے شروع ہو نے والا یہ انقلاب 1990تک کسی نہ کسی صورت میں بر قراررہا اور اس کے بعد اپنی موت آپ مر گیا ۔مارکس کے نظریات کے نتیجے میں روس ،چین ،کیوبا ،ویت نام ،کوریا ،لاوٴس ،کمبوڈیا اور مشرقی یورپ تک ایک تہائی دنیا میں تبدیلی آئی اور دنیا میں آج بھی ایسے ممالک موجود ہیں جنہوں نے مارکس کی اشترکیت کو گلے سے لگا یا ہوا ہے ، آج بھی کہا جاتا ہے مارکس تو مر گیا لیکن مارکسزم آج بھی باقی ہے ۔

مارکس نے اپنی زندگی کے آخری ایام لندن میں جلاوطنی کی صورت میں گزارے ،وہ شام کو روزانہ برٹش میوزم میں چلا جاتا اور ریڈنگ میں روم گھنٹوں کتب کے مطالعے میں مصروف رہتا ۔دسمبر1881میں اس کی بیوی اور 14مارچ1883میں اس کا انتقال ہوا اوروہ آج بھی لندن کے ہائی گیٹ قبرستان میں دفن ہے۔
1850کی دہائی میں مارکس نے ہندوستانی سیاست پر ایک تاریخی کتاب لکھی۔

”برٹش رولز ان انڈیا “ میں مارکس نے ہندوستانی عوام ،ہندوستانی کلچر اور ہندوستانی حکمرانوں کے حوالے سے خوبصورت تجزیہ پیش کیا ہے ،ہم آج تک اس سوال کا جواب ڈھونڈنے کی کوشش کر رہے ہیں کہ مٹھی بھر انگریزوں نے مغلیہ سلطنت جیسی عظیم طاقت کو کیسے پاش پاش کیا تھالیکن مارکس نے ڈیڑھ سوسال پہلے ہمیں اس سوال کا جواب دے دیا تھا اور آج میں آپ کو مارکس کے اسی جواب کی طرف لے جانا چاہتا ہوں ،مارکس نے چند جملوں میں ہمیں ہماری ناکامی کی وجہ بتا دی تھی ۔

وہ کہتا ہے کہ ہندوستان کے حکمرانوں اور راجوں کی اقتدار پرستی کا یہ عالم تھا کہ مغل اعظم کو مغل صوبے داروں نے پاش پاش کیا ،صوبے داروں کی قوت کو مرہٹو ں نے توڑا ،مرہٹو ں کی قوت کو افغانوں نے ختم کیا اور اس وقت جب یہ سب ایک دوسرے کے خلا ف لڑ رہے تھے برطانیہ عقاب کی طرح جھپٹا اور آن کی آن میں اس نے سارے ہندوستان پر قبضہ کر لیا ۔
کارل مارکس نے ہماری تباہی اور بربادی کے جو اسباب بیان کیئے تھے ہماری بدقسمتی ہے کہ ہم ڈیڑھ سو سال گزرنے کے باوجود آج بھی ان سے چھٹکارا حاصل نہیں کر پائے ،ہمارے سیاست دان آج بھی راجے اور مرہٹے بنے ہوئے ہیں ۔

اقتدار کی اس جنگ نے ہمیں دنیا بھر میں رسوا کر کے رکھ دیا ہے ۔گزشتہ تین ہفتوں سے اسلام آباد میں جو ڈرامہ رچایا گیاآپ اسے اقتدار کی جنگ کے سوا کیا نام دیں گے ،یہ سب اقتدار کی جنگ ہے اور سب ایک دوسرے کی ٹانگیں کھینچ رہے ہیں اور رہے عوام تو دو ہاتھیوں کی جنگ میں کچلا گھاس ہی جاتا ہے ۔ہمیں اپنے حکمرانوں اور سیاست دانوں کو داد دینی چاہئے کہ انہوں نے ہمیں آج بھی وہیں کھڑا کیا ہوا ہے جہاں ہم ڈیڑھ سو سال پہلے کھڑے تھے ۔

1850کے برصغیر اور 2014کے پاکستان میںآ پ کو کوئی خاص فر ق نظر نہیںآ ئے گا ،اس وقت بھی مرہٹے ،راجے اور صوبے دار آپس میں لڑ رہے تھے اور آج بھی ہمارے سیاست دان،انقلابی لیڈر اور تبدیلی کے علمبردار کرسی کے لئے لڑ رہے ہیں ،دنیا ان ڈیڑھ سو سالوں میں ترقی اور جمہوریت کی معراج پر پہنچ گئی اور ہمارے سیاستدان آج بھی جمہوریت کی تعریف پر لڑ رہے ہیں ۔

خدارا اب اس ملک پر رحم کریں ،اس ملک کے لئے ایک ہو جائیں ،ہمارے اتحاد نے 1947میں یہ ملک تو بنا دیا تھا لیکن بعد میں ہم یہ اتحاد برقرار نہیں رکھ پائے اور اس اتحاد کی حدت کم ہو تی چلی گئی ،آج اتحاد کی یہ حدت بالکل ختم ہو چکی ہے یہی وجہ ہے کہ اپنے ملک میں ایک ڈیم بننے سے ملک ٹوٹنے کی باتیں تو ہوتی ہیں لیکن بھارت کی طرف سے پانی رو ک کر ہماری زمینوں کو بنجر کرنے کی سازش پر کسی کی آنکھ نہیں کھلتی ۔


یہ حقیقت ہے جب تک اس ملک کے حکمران اور سیاست دان نہیں سدھریں گے اس وقت تک یہ ملک آگے نہیں بڑھ سکے گا ،جب تک ہمارے حکمران اور سیاستدان مرہٹے اور اور راجے بننے سے باز نہیں آئیں گے تب تک اس ملک کا کچھ نہیں بنے گا ،ہمیں آج یہ فیصلہ کرنا ہو گا ہمیں 1850کا پاکستان چاہئے یا 2014کا ،اور اگر ہم نے آج یہ فیصلہ نہ کیا اورہم نے اپنی روش نہ بدلی تو پھر کم از کم ہم اپنی زندگی میں اس پاکستان کو ایک جمہوری اور ترقی یافتہ پاکستان بنتا نہیں دیکھ سکیں گے ۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :