یا اللہ تو ہمیں اپنوں سے بچا

ہفتہ 6 ستمبر 2014

Anwaar Ayub Raja

انوار ایوب راجہ

اور کیا نئی تازی ہے ؟سنا ہے تمھارے ملک میں آجکل جمہوریت کا بول بولا ہے۔ آجکل دھرنے ، لانگ مارچ اور اسمبلی کے اجلاس ہو رہے ہیں ، سنا ہے تمہارے سب سے پیارے دوست ملک چین کے صدر نے پاکستان کا دورہ کرنے سے معذرت کر لی ہے۔ سنا ہے لاہور پیرس اور کراچی لندن اور پشاور دبئی بن گیا ہے جبکہ سننے میں آیا ہے کہ اسلام آباد سپیس ایج میں داخل ہو گیا ہے۔

میں نے سوچا تھا تم واپس کسی ٹاک شو کے ہوسٹ بن گئے ہو گے۔تم یہاں کیا کر رہے ہو؟ آجکل تمھارے بھائی تگڑی کمائی کر رہے ہیں ، سنا ہے آجکل حکومتیں بنانے اور اتارنے میں صحافیوں کا کلیدی کردار ہے ! کل کوئی بتا رہا تھا کہ جنگ نے پاکستان کے دفاعی اداروں کے خلاف جنگ کا اعلان کر دیا ہے۔ مبارک ہو تمھارے صحافی بھائی اب فوج کے خلاف دھرنا دیں گے ، خیر تم سناوٴ ، کیسے ہو ؟ پریشان ہو ؟ مجھے آج کیسے یاد کیا ؟ کیا بات ہے ؟ نینا نے پوچھا۔

(جاری ہے)


نینا میں پریشان ہوں اور افسردہ بھی ، بارشوں نے پورے پاکستان کو اپنی گرفت میں لے لیا ہے سینکڑوں پاکستانی مر گئے ہیں اور پھر اسلام آباد کی سڑکوں پر ہزاروں مایوس پاکستانی اس پارلیمنٹ کی طرف دیکھ رہے ہیں جو صرف ایک اپر کلاس کلب ہے ، اس کے ممبران سنگ دل ، ظالم اور بے شرم ہونے کے ساتھ ساتھ بد اعمال بھی ہیں مگر کسی کو یہ پتہ نہیں کہ پاکستان کا آئین کیا کہتا ہے ! بس یہی سوچ رہا ہوں کہ اس صورتحال میں کیا کروں؟ کس سے اپنا غم بانٹوں؟ کس کو حال دل سناوٴ ں؟ بس افسردہ ہوں ، میں کیا کرسکتا ہوں ؟کچھ بھی نہیں ،بس اپنا غصہ نکال سکتا ہوں ، بس اپنے غصے کا اظہار کر سکتا ہوں! اسی لیے سوچا تم سے بات کروں۔


اچھا کیا ، آخر دوست غم بانٹنے کے لیے ہی ہوتے ہیں مسٹر کہانی نویس ، وہ بولی۔
آوٴ بیٹھو ، کیا پیو گی ؟ چائے یا کافی؟ میں نے پوچھا۔
کچھ نہیں تم اپنی بات جاری رکھو ، وہ بولی۔
نینا میں کہہ رہ تھا کہ دھرنا میں نہیں دے سکتا ، کوئی جگہ نہیں کہ جہاں دھرنا دوں۔ احتجاج میں نہیں کر سکتا ، کہاں کروں ؟ اگر احتجاج کا راستہ اپنایا تو جو دو چار لوگ ملتے ہیں وہ بھی ملنے سے مکر جائیں گے کیونکہ احتجاجی لوگوں کے یار بہت کم ہوتے ہیں۔

دل بوجھل تھا ایسے میں تم سے زیادہ مناسب کوئی ہستی نہیں ہے جس سے اس موضوع پر بات کی جائے۔ دیکھو آجکل لانگ مارچ ہو رہے ہیں ، کیا میں بھی کسی لانگ مارچ پر چلا جاوٴں ؟ پھر سوچتا ہوں کہ میرا لانگ مارچ بھی ایک فضول اور نا تمام کوشش بن جائے گا۔ ٹانگوں میں اتنی ہمت اور جسم میں اتنی پھرتی نہیں ،تو میں کیا کروں؟
تم شرم کرو ، تم ماتم کرو اور ہو سکے تو شرم سے ڈوب مرو ! نینا بولی۔


کیوں؟ میں نے پوچھا
وہ اس لیے کہ تم جمہوریت پسند ہو ، تمہیں ہر کام جمہوری ہی اچھا لگتا ہے۔ تم کاغذ کالے کرتے ہو اور خود کو جلاتے رہتے ہو۔ یاد ہے کچھ سال پہلے تم نے مجھے پریس کی آزادی پر ایک طویل لیکچر دیا تھا تم کہتے تھے کہ صحافی آنے والے وقت میں انصاف کے ہمالے پر سچ کا ایک نیا نصاب لکھے گا ، وہ پاکستان بدلے گا کیونکہ وہ پاکستان کے سوشل فیبرک کا ایک ستون ہے۔

اس نے اپنی جیکٹ کی جیب سے اپنا فون نکالا اور ڈاکٹر شاہد مسعود کے پروگرام کا ایک کلپ چلایا۔ میں خاموشی سے یہ کلپ دیکھنے کے بعد پھر سے اپنے خالی کپ کو دیکھنے لگ گیا۔ کافی ختم ہونے والی تھی۔ یہ میرا دوسرا کپ تھا۔ شام سہ پہر کی روشنی پر اپنی لالیوں کے پردے ڈالنے والی تھی اور میں نے پھر سے ایک اور کافی کا کپ آر ڈر کیا اور واپس اسی کرسی پر بیٹھ گیا کہ جس پر میں کافی دیر سے بیٹھا سوچ رہا تھا کہ پاکستان کو کیا ہو گیا ہے۔


نینا بولی ڈ اکٹر شاہد مسعود کے مطابق پاکستان میں ایک کالم نگار ایسا بھی ہے جو پانچ ناموں سے لکھتا ہے اور ایک لاکھ فی نام (شناخت ) لیتا ہے۔ اب میری دانست میں یہ سرکاری بہروپیے کا ہی کام ہو سکتا ہے۔ ہماری قوم ان بہروپیوں کو بڑی عقیدت سے پڑھتی ہے۔ یہ ان کے رول ماڈل ہیں۔ بہروپیا تو خود نہیں بتائے گا کہ وہ کون ہے مگر ڈاکٹر شاہد کو اس کا نام ضرور بتانا چاہیے تھا۔

جس طرح کی صحافتی آزادی کی باتیں تم کرتے ہو وہ آزاد ملکوں میں اچّھی لگتی ہے غلام ملکوں میں اسے استحصال کہا جاتا ہے۔
میں بولا ڈاکٹر صاحب کی کوئی مجبوری ہو گی ورنہ وہ کھر ے آدمی ہیں۔ نینا نے کہا کوئی نہیں بولے گا۔ بس سب اپنی اپنی ٹی آر پی کے چکروں میں ہیں۔ میں نے نینا کو سمجھایا کہ میں اب ایک ورکنگ جرنلسٹ نہیں ہوں۔ اس نے پھر سے اپنا فون نکالا اور صحافیوں کے کالے کرتوتوں کی ایک فہرست میرے سامنے رکھ دی۔

میں اسلام آباد کی سڑکوں پر بارش اور گرمی میں کھلے آسمان کے نیچے بیٹھے ان ہزاروں لوگوں کے لیے پریشان تھا کہ جن کا قومی اسمبلی میں تمسخر اڑایا جا رہا تھا مگر نینا کی سوئی صحافیوں پر اٹکی ہوئی تھی۔
اس سے پہلے کہ میں واپس اپنی خاموشی کی چادر میں غائب ہو جاتا نینا پھر سے بولی۔ لو تمہاری کافی آ گئی ہے۔ کافی پیو اور موج کرو ۔۔۔۔۔۔۔ نینا تم مجھ پر ایسے تابڑ توڑحملے کر رہی ہو جیسے میں پاکستان کے صحافیوں کا پٹواری ہوں ، میں نے کہا۔

میں نے نینا سے کہا کہ مجھے اسلام آباد میں بیٹھے لوگوں کی فکر ہے ، ہزاروں کی تعداد میں یہ لوگ سڑک پہ بیٹھے ہیں اور حکومت پاکستان کبھی ان پر آنسو گیس کی بارش کرتی ہے ، کبھی انہیں دہشت گرد کہتی ہے اور کبھی ان پر لاٹھی چارج کرتی ہے۔ کوئی ان کو پاپ گروپ اور اسلام آباد کا نائٹ شو کہتا ہے۔ کسی کو ان سے بو آتی ہے اور کوئی انہیں پاکستان کا دشمن کہہ رہا ہے۔


نینا نے میری بات سننے کے بعد پھر صحافیوں پر اپنی بندوق تان لی اور بولی یہ بھی تمہارے بھائیوں کی کرامات ہیں۔ انہوں نے ہی ان سیاستدا نوں کے منہ میں زبان ڈالی ہے۔ میں نے وضاحت کرنے کو کہا تو نینا بولی "ا ختلاف رائے جمہوریت کا حسن ہے بلکہ سٹیلمنز کریم ہے ، لاڈو صابن ہے اور ہیڈ اینڈ شولڈر شیمپو ہے مگر وہ صحافی جو ایک طرف شاہ سے زیادہ شاہ کے وفادار اور ہر سرکاری تقریب کے مہمان خاص ہوتے ہیں۔

جو دس سال پہلے صرف غریب نہیں مسکین اور مقروض بھی تھے آج جس منہ سے ان لوگوں کا مذاق اڑا رہے ہیں د ر حقیقت اپنے اپنے ریٹ کے مطابق کام کر رہے ہیں۔ عمران اور قادری کو اگر میں اس مساوات سے نکال دوں تو جو لاہور میں ہوا اور جو کچھ پورے ملک پاکستان میں ہو رہا ہے اور ہو چکا ہے کیا ان اندھے قلم کاروں کو وہ نظر نہیں آتا۔ کوئی آٹھ لاکھ کماتا ہے ، کوئی دس لاکھ کے پیکیج پر ہے ، کسی کو دنیا کے بڑے بڑے ملکوں کو دیکھنے کا شوق ہے اور کوئی وزیر اعظم کا مشیر ہے۔

یہ ہر دور کے مشیر اور بھانڈ ہیں۔ ان صحافتی مشیروں ، قلم کی آبرو ریزی کرنے والوں کو کس نے حق دیا کہ وہ غریبوں کا تمسخر اڑائیں؟ اللہ کی لاٹھی بے آواز ہے ، تماشہ گر کا تماشہ بننے میں دیر نہیں لگتی اور اب تو ان کے ساتھ جمہوری جمورے اور ہیوی مینڈیٹ والی حکومت ہے "۔
میری پریشانی ابھی بھی کم نہیں ہوئی ؟ کیا ایسا نہیں ہو سکتا کہ حکومت کچھ ترس کھائے اور ان لوگوں کو شامیانے دے دے تا کہ یہ کم از کم موسم کی شدت سے بچ جائیں؟ نینا نے میری بات کاٹ دی ۔

۔۔۔۔۔۔ہاں ہاں کیوں نہیں ، حکومت کو تو اسلام آباد کلب کھولنا چاہیے ، حکومت کو صدارتی محل کی چابیاں عمران اور قادری کو دے دینی چاہیے ، تم حقیقت میں پاگل ہو گئے ہو تمہیں شاک لگا ہے۔
نہیں میں ٹھیک ہوں بس تھوڑا پریشان ہوں ، انسان ہوں اس لیے آجکل ٹی وی پر آنے والی خبر پریشان کر دیتی ہے۔ میں نے کہا۔
نینا مسکرائی اور بولی ۔۔۔۔۔ اگر کسی کو تمھارے ان انقلابیوں پر ترس آ بھی گیا اور اگر حکومت نے ترس کھا کر انہیں کوئی شیلٹر دے بھی دیا تو پھر یہ ہو گا کہ کوئی در باری صحافی حکومت کانوں میں سرگوشی کرے گا کہ ان شامیانوں میں کسی نے نئے پاکستان کا دستور لکھنا شروع کر دیا ہے ،راتوں رات کوئی ان شامیانوں کو بھی آگ لگا دے گا اور بارش اور گرمی نے جو کام نہیں کیا وہ آگ کر دے گی اور ہزاروں لوگ اسلام آباد کی گلیوں میں جل کر مر جائیں گے اور پولیس نا معلوم مجرموں کے خلاف ایف آئی آر درج کر کہ اسے داخل دفتر کر دے گی۔


میں نے نینا کو ٹوکا ، نہیں ایسا نہیں ہو سکتا ، اب ایسا بھی جنگل کا قانون نہیں ۔۔۔۔۔۔۔یہ کبھی نہیں ہو گا !
نینا ہنسی ، اس نے اپنے کانوں کو ہاتھ لگایا اور بولی ، تم نے لاہور ماڈل ٹاون میں ہونے والی بربریت کو نہیں دیکھا ؟ یہ تمہارے ملک کی پولیس تھی ، دن کی روشنی میں سب کی آنکھوں کے سامنے انسانوں کا شکار کیا گیا۔ مجھے یقین ہے کہ مارنے والوں کو ٹارگٹ دیا گیا ہو گا ! جیسے ایک بینک میں نئے عملے کو ٹارگٹ ملتا ہے ، جیسے انشورنس کمپنی بیمہ بیچنے کا ٹارگٹ دیتی ہے۔

ایسا ہی ٹارگٹ کسی نے ان انسانی شکاریوں کو دیا ہو گا ! اگر وہ ہو سکتا ہے تو یہ بھی ہو سکتا ہے ،بلکہ ہو گا ۔۔۔۔۔۔۔ کچھ سمجھے مسٹر کنفیوز؟
مجھے لگتا ہے کہ لاہور کا سانحہ ایک غلطی تھی اور حکومت اب ایسا نہیں کرے گی ، میں نے کہا۔
نینا جارحانہ ہو گئی ، غصے میں بولی تم بھی بک گئے ہو ، تمہاری سوچ بھی سیاسی گٹر کی طرح بدبو دار ہے ، تمہارا دماغ خراب ہو گیا ہے۔

یہ تمہارا قصور نہیں یہ اس غلامانہ سوچ کا مظہر ہے جو تم میں اور تمھاری قوم میں پشتوں سے ہے۔ جس قوم پر ایک وڈیرہ ، ایک مل مالک نسل در نسل حکمرانی کر رہا ہو اس کو کبھی آزادی نہیں مل سکتی۔ میں کہتی ہوں لاہور ایک ٹریلر تھا اگر یہ تمھاری جمہوری حکومت اور اس کے بہروپیے مشیر مزید چار سال رکے تو لاہور کا سانحہ شہر شر ہو گا۔ کیا تمہاری جمہور کے پاس طاقت ہے ان نسل در نسل حکمرانوں کو بدلنے کی ؟
میرے پاس نینا کے اس سوال کا جواب نہیں تھا۔

نینا نے کہا تم سب رائیونڈ اور لاڑکانہ کے غلام ہو او ر چند صحافیوں کے رحم و کرم پر جینے والے لوگ۔ جس ملک میں نجم سیٹھی جیسے وزیر اعظم کے منظور نظر ہوں اور جس ملک کے صحافی بنگلہ دیش میں بیٹھ کر پاکستان کی افواج کو صرف ایک ایوارڈ کی خاطر عالمی دہشت گرد کہیں وہاں طوفان ہی آ سکتے ہیں ، وہاں دھرنے ہی دئیے جا سکتے ہیں اور وہاں لاہور جیسے سانحے ہی پیش آسکتے ہیں۔

یہ تمہاری بد قسمتی ہے اس لیے کافی پیو اور آرام سے گھر جاوٴ ، تمھارے رونے سے کچھ نہیں ہو گا ۔۔۔۔جاوٴ تھوڑی دیر میں الطاف بھائی کا خطاب آئے گا وہ سنو ، چوہدری نثار اسلام آباد فتح کرنے کے بعد پریس کانفرنس کر رہا ہو گا اس کا مزہ لو اور رات کو مبشر لقمان کے کھر ے سچ کو پیرا سیٹا مول کی گولی سمجھ کر نگل لو۔ اور اگر اس سے پیٹ نہ بھرا تو حامد میر ، طلعت حسین ، جاوید چوہدری اور نصرت جاوید سے جمہوریت کا درس سنو، اور اگر کوئی اور کام نہیں تو محمود خان اچکزئی اور فضل الرحمان کی کوئی تقریر سن کر اپنا ایمان تازہ کرو۔۔۔۔۔۔۔مجھے اور بھی کام ہیں پھر ملیں گے ۔۔۔۔۔ا لله حافظ۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :