غلیل والے اور ربڑ کی گولیاں

ہفتہ 6 ستمبر 2014

Muhammad Afzal Shaghif

محمد افضل شاغف

اس وقت اسلام آباد میں ہونے والے واقعات نے نہ صرف ملک کی تمام سیاست کو ہلا کررکھ دیا ہے بلکہ ہر چھوٹا بڑا ، پڑھا لکھا اور ان پڑھ ان واقعات کو کان دھر کر سننے لگتا ہے ۔ گو کہ کو ئی واقعہ جتنا پرانا ہوتا جائے اسکی دلچسپی اتنی ہی کم ہوتی جاتی ہے لیکن مشاہدہ میں آیا ہے کہ عوام کی بے چینی میں تو کچھ کمی واقع ہوئی ہے مگر دلچسپی بڑھتی ہی جاتی ہے ۔

ساتھ ساتھ اُن خواتین کے صبر کی داد دینے کو جی چاہتا ہے جو احتجاج کے اٹھارویں روز بھی ایسے ہی ترو تازہ اور پُر دم نظر آتی ہیں جیسے آج احتجاج کا پہلا دن ہو ۔
علامہ طاہر القادری نے کہاتھا کہ احتجاج پر امن ہو گا اور کوئی گملا تک بھی نہیں ٹوٹے گا ۔ محو حیرت ہوں کہ عوام کا ایک جم غفیر ہونے کے باوجود آج تک کوئی گملا تک نہیں ٹوٹا ۔

(جاری ہے)

عوام کے اس سمندر میں کتنے ہی شریف زادے ہوں گے اور اسی ہجوم میں کتنے ہی گلو بٹ بھی ہوں گے ۔

لیکن اللہ تعالیٰ نے ان کے دلوں میں عوام دشمنی اور ملک دشمنی جیسے خیالات پیدانہیں ہونے دیے ۔حکومتی عہدیداران نے نہتے ، بیچارے اور غریب الوطن احتجاجیوں مع رہنماؤں کو” غلیل والے “ کا لقب دے چھوڑا ۔ انہیں شاید اس بات کا علم نہیں کہ ”غلیل والے“ کلاشنکوف چلانے سے پہلے غلیل پر ہی اپنا نشانہ پکا کرتے ہیں ۔اور پھر غلیل چلانے والے کا نشانہ کبھی چوکتا نہیں اور ہمیشہ اپنے ٹارگٹ پرہی لگتا ہے ۔

نہتے احتجاجیوں کی بے سرو سامانی کی وجہ سے انہیں ”غلیل والے “ کہنا غرور اور تکبر کی نشانی ہے جو اللہ کی ذات کو کسی طرح بھی قبول نہیں ۔
تاریخ اسلام میں بہت سے ایسے واقعات ہیں جب کہ معرکہٴ حق و باطل میں ”حق “ کے پاس چند ٹوٹے پھوٹے ہتھیار اور مٹھی بھر مجاہدین ہوا کرتے تھے ، کبھی غزوہ بدر میں 313نے 1000سے زیادہ کے لشکر کے دانت کٹھے کیے ۔

اس وقت بھی ”باطل “ ایسے ہی اپنی طاقت پر گھمنڈ کرتا تھا نجانے اس وقت بھی مٹھی بھر بے سرو سامان مسلمانوں کو کفارنے ”غلیل والے “ تصور کیا ہو گا ۔لیکن خدائی مدد نے کھجور کی شاخوں کو تیز دھار تلواریں بنا دیا جنہوں نے کفار کے سر تن سے یوں کاٹ دیئے جیسے کوئی باورچی ٹماٹر کاٹتا ہے ۔
اس کے علاوہ غزہ تبوک میں بے سرو سامانی کے عالم میں غزوہ کی طرف نکلنا اور جذبہٴ جہاد سے لبریز ہونا اور دشمنوں پر ہیبت بیٹھ جانا بھی خدائی مدد کی غمازی کرتا ہے ۔

اس غزوہ میں بھی باطل نے مسلمانوں کی کسمپرسی اور مفلوک الحالی کی وجہ سے انہیں ”غلیل والے “ تصور کیا ہوگا اور غرور و تکبر سے اپنا سر بلند اور سینہ چوڑا کیا ہو گا ۔ جسکا نتیجہ یہ نکلا کہ بغیر جنگ لڑے ہی دشمن کو منہ کی کھانی پڑی۔ خدا کو منظور ہوتو چیونٹی جیسا حقیر ترین جانوربھی جب اپنے جیسے اور بہت سے اکٹھے کر لیتا ہے تو بڑے سے بڑے اژدھے کو موت کی نیند سلا دیتا ہے اور چند بھینسیں متحد ہو کر جب کچھ کرنے کی ٹھا ن لیں تو شیر جیسے درندے کو بھی دم دبا کر جنگل سے بھاگ نکلنے پر مجبور کر دیتی ہیں۔


علامہ اقبال نے اپنی شاعری میں ایسے مناظر کو کیا خوب انداز میں بیان کیا ہے۔
اٹھا ساقیا پردہ اس راز سے
لڑا دے ممولے کو شہباز سے
اس وقت تک ”باطل اور ”غلیل والے “ سینہ سپر ہیں اور نہتے عوام ( مردو خواتین ) پر آنسو گیس کی بارش کی گئی جس کے نتیجے میں گھمسان بھی ہوا اور تازہ ترین اطلاع کے مطابق 72پولیس والے اور 500”غلیل والے“ زخمی ہوئے ۔

عوام کو ربڑ کی گولیاں مار کر بے حسی کے ساتھ زخمی کیا گیا لیکن عوام کے جذبہٴ جہاد میں کوئی کمی واقع نہ ہوئی ۔مہذب اقوام میں پر امن احتجاج کو روندہ اور کچلا نہیں جاتا بلکہ انتہائی مناسب طریقہ اختیار کیا جاتا ہے جن میں بہترین واٹر کینن Water Canon کا استعما ل تھا ۔واٹر کینن کے استعمال سے عوام کا غصہ کافی حد تک ٹھنڈا کیا جا سکتا تھا اور انہیں حدف سے پیچھے ہٹانے کی سعی بھی کی جاسکتی تھی ۔

اس پر مستزاد، پولیس عوام پر حملے کرتی رہی اور گاڑیوں کی توڑ پھوڑ کا فریضہ انجام دے کر ”گلو بٹ“کا کردار بھی خود ہی ادا کرتی رہی۔ اور عمران خان کی بہن کی گاڑی کو ڈنڈوں سے توڑکر اس میں رکھا کھانا بھی تناول فرما گئی۔
میاں محمد نواز شریف نے ہر بار مذاکرات کی دعوت دی جس پر عمران خان اور طاہر القادری کی جانب سے ”استعفیٰ “ پہلا مطالبہ رہا ۔

لہذا مذاکرات ناکام شد۔حکومت نے ضرب ِ عضب میں مصروف فوج کو بھی با رہا استدعا کر کے ناکام حکومت کے معاملات میں ثالثی کا کردار ادا کرنے کو کہا ہے لیکن اب تک نواز شریف صاحب کو کوئی دال گلتی ہوئی نظر نہیں آتی ۔ زرداری صاحب نے بھی لازمی طور پر یہی نصیحت کی ہو گی کہ برادرم کرسی نہیں چھوڑنی ، عزت جاتی ہے تو جائے ۔ عزت تو آنی جانی چیز ہے مگر چلی جانے والی کرسی کبھی واپس نہیں آئے گی ۔


ایوانِ اقتدار میں بھیگی بلی بن کر بیٹھے صاحب کا فرمان ہے کہ ” یہ ہیجانی کیفیت چند روز میں ختم ہوجائے گی ۔ “
شاید میاں صاحب احتجاجیوں کے تھک کر بیٹھ جانے یا واپس لوٹ جانے کا انتظار فرما رہے ہیں ۔ لیکن تاریخ شاہد ہے کہ جب کوئی قوم جنون کی حدیں پار کر کے ایک مقصد کے حصول کے لیے جدو جہد کرتی ہے تو کامیابی اس کے قدم چومتی ہے ۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :