آئین ء پاکستان اور جمہوریت

ہفتہ 6 ستمبر 2014

Syed Shahid Abbas

سید شاہد عباس

اس ملک کا عام شہری بھی جمہوریت پہ اتنا ہی یقین رکھتا ہے جتنا ہمارے ملک کے سیاستدان۔اور شاید وطن عزیز میں سیاستدانوں کی جمہوریت کو سمجھنا اب ایک ایسا" اوپن سیکرٹ" ہے جو کسی سے ڈھکا چھپا نہیں۔ اور سیاستدانوں کے لیے جمہوریت کیا پاکستان کے آئین پر عمل ہے یا پھر اپنے مفادات پر عمل؟ اس سوال کے جواب کے لیے آپ جمہوریت کے علمبرداروں کی تقاریر ملاحظہ کریں اور ان کا عمل دیکھیں۔

کہیں جمہوریت تین سے چار وزارتوں کی باندی ہے۔ تو کہیں جمہوریت کا پرچم کسی صوبے کی گورنر شپ کی صورت میں گھر پہ سجا دکھائی دیتا ہے۔ کہیں خصوصی مشیر کی کرسی جمہوریت کی تعریف میں رقصِ بیاں نظر آتی ہے تو کہیں وزیر بے محکمہ جمہوریت کے خطبات دے رہا ہے۔
جو تقاریر شعلہ بیاں مقررین نے قومی اسمبلی میں کی ہیں۔

(جاری ہے)

اس میں تو ملکی سلامتی کے ایک ادارے کا خوف ہی نظر آتا ہے کہ کہیں پھر گنگا الٹی نہ بہنا شروع ہو جائے۔

اگر کوئی کہے کہ یہ تقاریر جمہوریت کی سر بلندی کے لیے کی گئی ہیں تو وہ یقینا احمقوں کے سرداروں میں سے ہو گا۔ وکلاء بحالی تحریک کے سرخیل اور باغیانہ مزاج ہاشمی کی تقاریر میں بہرحال کچھ ایسا ضرور تھا جس سے جمہوریت کی بو آ رہی تھی۔ باقی لوگوں تو شاید ملنے والے عہدوں اور وزارتوں کا حق وفا کر رہے تھے۔ ان کا جمہوریت سے تو دور دور تک کا واسطہ نہیں ہے۔

اگر جمہوریت ان کی سوچ تک میں ہوتی تو عہدوں کی بندر بانٹ کا حصہ نہ بنتے اپنے اقرباء کو اسمبلیوں میں نہ بٹھاتے۔ نہ ہی وزارتوں پر اپنا حق سمجھ کر حصہ وصول کرتے ۔
پچھلے دس سالوں سے ایک ہی رٹ سن رہے ہیں کہ ہم ملک میں جمہوریت کو مضبوط کر رہے ہیں اور جمہوریت پر کوئی آنچ نہیں آنے دیں گے۔اور کوئی غیر آئینی فیصلہ نہیں ہونے دیں گے۔ لیکن جمہوریت کیا ہے؟ اور وطن عزیز کا آئین کیا کہتا ہے ؟ آئین کے ٓرٹیکل 9میں ہے کہ کسی بھی شخص کوزندگی یا آزادی سے محروم نہیں کیا جائے گا ۔

لیکن شاید ماڈل ٹاؤن کے 14جان دینے والے۔ اور اسلام آباد میں مرنے والے 3لوگ کسی دوسرے ملک کے تھے جن پر یہ آئین ہی لاگو نہیں ہوتا۔ آئین کے آرٹیکل شہریوں کے ملک کے کسی بھی حصے میں آباد ہونے کا حق حاصل ہے ۔ لیکن آپ کیا یہ تصور بھی کر سکتے ہیں ااپ بناء کسی مشکل کے خیبر پختونخواہ ،سندھ، بلوچستان میں مستقل رہائش اختیار کر سکتے ہیں۔ اگر نہیں تو پھر کیسی جمہوریت اور آئین کی سر بلندی ؟ آرٹیکل 19 کے تحت تقریر ،اور اظہار رائے کی آزادی ہر شہری کا حق ہے۔

19-A کے تحت شہریوں کو معلومات تک رسائی کا حق بھی دیا گیا ہے ۔ کیا جمہوری حکومت یہ حق دے پائی؟ اگر نہیں تو جمہوریت کس کام کی ؟ آئین کے آرٹیکل23 اور24 وطن عزیز کے باسیوں کے لیے زمین و جائیداد کی ملکیت اور حفاظت کے لیے ہیں لیکن کیا اس ملک میں قبضہ گروپس آئین کے ان آرٹیکلز سے باہر ہیں؟ اگر باہر نہیں تو پھر ان دونوں آرٹیکلز کے فوائد عوام کو نہ دینا جمہوریت کے ضمرے میں آتا ہے؟ ایک غیر ملکی جریدے کے مطابق لینڈ مافیا ملکی سلامتی کو لاحق خطرات میں سے دوسرا بڑا خطرہ ہے۔

اور وطن عزیز میں شاید " جمہوری قبضہ گروپ" ایک مہذب اصطلاح بھی ہے۔آئین کا آرٹیکل 25 تمام پاکستانی شہریوں کو قانون کی نظر میں برابر قرار دیا گیا ہے اور یکساں قانون تحفظ بھی ۔ لیکن پاکستان میں کیا ایسا ہو رہا ہے؟ ایک طرف ایک دن میں بغاوت تک کے مقدمات۔ دوسری طرف ایک FIR کے لیے مارچ کرنا پڑ رہا ۔ اگر اسی دن FIRماڈل ٹاؤن واقعے کی بھی درج وہ جاتی تو آج ملک ایک دوراہے پر نہ کھڑا ہوتا۔

آرٹیکل 25-A میں کہا گیا کہ پانچ سے سولہ سال تک کے بچوں کو مفت تعلیمی سہولیات دینا ریاست کی ذمہ داری ہے ؟ کیا ریاست نے یہ ذمہ داری پوری کی ؟ اگر نہیں تو پھر جمہوریت صرف عمارتوں کا نام ہے؟ یا لیپ ٹاپس دینے کا نام ہے ؟ آرٹیکل 31-C میں ریاست کو پابند کیا گیا ہے کہ وہ اتحاد(مذہبی و فقہی) کو فروغ دے گی۔ لیکن کیا موجودہ حکومت خود ایک فریق بن کے سامنے نہیں آرہی بجائے اس کے کہ اتحاد کو فروغ دے؟ آرٹیکل 33 میں شہریوں کے درمیان علاقائی، نسلی،قبائلی، فرقہ وارانہ، اور صوبائی تعصب کی حوصلہ شکنی کا کہا گیا ہے۔

لیکن آج کل کے دور میں جب حکومتی سطح پر سندھ کارڈ اور پنجاب کارڈ کا استعمال کیا جا رہا ہے تو پھر شہریوں کو کیسے روکا جا سکتا ہے؟ آرٹیکل 62 جو بہت خبروں میں ہے میں کہا گیا کہ وہ شخص پارلیمنٹ کا ممبر نہیں بن سکتا جس کا کردار اچھا نہ ہو، اسلامی احکامات کا منحرف ہو،اسلامی تعلیمات کا علم نہ ہو، ایماندار و امین ہو، نظریہ پاکستان کے مخالف کام نہ کیا ہویا ملکی سالمیت کے خلاف کام نہ کیا ہو۔

اگر یہ شق لاگو کر دی جائے تو اس وقت پورا ایوان ہی جائے گا تو پھر جمہوریت کیسی جب آئین کی شق پر ہی جمہوری ممبران پورے نہیں اترتے۔ بہت سے ایسے بھی ایوان میں ہوں گے جو آج بھی دو قومی نظریہ کے لیے دل میں بغض رکھتے ہیں۔ اور بہت سے ایسے بھی ہیں جو شاید اس وقت بھی بیرونی مفادات کے لیے کام کر رہے ہوں گے۔
آئین کی دستاویز میں بنیادی انسانی حقوق کی دفعات ہی گنی چنی ہیں۔

باقی تو ہیں ہی مکمل طور پر مملکت کے امور چلانے کے متعلق۔ لیکن آئین کے جو حصے عام آدمی کو تحفظ دیتے ہیں وہ بھی عملاً معطل ہی محسوس ہوتے ہیں کیوں کہ اس وقت ملک میں تمام حقوق صرف اشرافیہ کے لیے ہیں اور تمام فرائض صرف عوام کے لیے ہیں۔ ٹیکس عوام دیتے ہیں اور ان ٹیکسوں سے تنخواہ اشرافیہ پتے ہیں۔ عام آدمی ایک ماچس بھی خریدتا ہے تو ٹیکس ادا کرتا ہے۔

جسے عام زبان میں سیلز ٹیکس کہا جاتا ہے ۔ جب کہ پارلیمنٹ میں بیٹھے ممبران، دفاتر میں بیٹھے بیوروکیریٹس وغیرہ عوام کے ملازم ہونے کے باوجود حاکمانہ مزاج اپنا لیتے ہیں۔ صدر ، وزیر اعظم، تمام حکومتی مشینری، وزراء، مشراء، عدلیہ، فوج، سرکاری دفاتر، تمام وزارتوں وغیرہ میں بیٹھے تمام لوگ حقیقت میں ملک کے عوام کے ملازم ہیں کیوں کہ یہ تنخواہ عوام کے دیے گئے ٹیکس سے لیتے ہیں لیکن ان میں سے اکثریت خود کو عوام کو بونے سمجھتے ہیں۔

عدلیہ و فوج ایسے ادارے ہیں جن پر عوام کی نگائیں اب بھی ہر مشکل میں جمی ہوتی ہیں کیوں کہ انہی دو جگہوں سے انہیں انصاف و احساس کی کچھ توقع ہوتی ہے۔ جب کہ باقی تمام جگہ پر بادشاہانہ انداز و اطوار اس ملک کی جڑوں کو کھوکھلا کرنے میں مصروف ہیں۔ آئین نے جہاں عوام کی بہتری کا کہا آئین کا وہ حصہ ہمارے سیاستدانوں کو زمانہ ہوا بھول چکا۔ جو حصہ ان کے مفادات کا تحفظ کرتا ہے وہ انہیں جمہوریت کی بالادستی کی یاد دلاتا رہتا ہے۔

جمہوری نظام بہتر اسی لیے گردانا جاتا ہے کہ اس میں عوام کو انصاف، روزگار، اشیائے خوردو نوش بآسانی مل سکیں۔ لیکن اگر جمہوری نظام میں ہی عوام کی تکلیفیں زیادہ ہو رہی ہیں تو پھر اس نظام میں چھوٹی موٹی تبدیلی نہیں بلکہ مکمل اوورہالنگ کی ضرورت ہے۔
جمہوریت کی اصل شکل آئین کے مطابق یہ ہے کہ اس ملک میں اشرافیہ اور عام آدمی کو قانون ایک نظر سے دیکھے۔

دونوں کے لیے زندگی کو بہتر بنانے کے لیے یکساں مواقع میسر ہوں۔ آئین کسی بھی جگہ یہ نہیں کہتا کہ عوام صرف بھیڑ بکریوں کی طرح ہانکنے کے لیے ہیں۔ بلکہ ان کا بھی زندگی کی ضروریات پر اتنا ہی حق ہے جتنا ضروریات کو تعیشات بنا دینے والے اعلی طبقے کے لیے۔ اگر وسائل پر قابض خاندانوں میں اور غریب عوام میں خلیج اس سطح تک پہنچ گئی کہ بہتری کی کوئی صورت نہ رہے تو پھر ارباب اختیار کا حشر بھی مصر کے جدید فرعونوں سے مختلف نہیں ہو گا۔ پھر جمہوریت حقیقی معنوں میں آزاد بھی ہو گی اور آئین اپنی اصلی روح میں نظر بھی آئے گا۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :

متعلقہ عنوان :