عطائیے

جمعرات 4 ستمبر 2014

Shahid Iqbal

شاہد اقبال

پاکستان جیسے تیسری دنیا کے ممالک میں فنکاروں کی ایک خاص کلاس کو عطائی کہتے ہیں جو کسی ڈرامے یا فلم کی بجائے عملی زندگی میں اپنی اداکاری سے لوگوں کے دل موہتی اور جیبیں ہلکی کرتی ہے !کھمبیوں کی طرح یہ عطائی ہر شہر ہر قصبے ہر کوچے اور ہر گلی میں وقتاً فوقتاً اگتے ہیں ،کچھ عرصہ اپنی مہارت سے علاقے کے لوگوں کو فیض یاب کرتے ہیں اور پھر غائب ہو جاتے ہیں ۔

نبض دیکھ کر مرض جان لینا ان کے بائیں ہاتھ کا کھیل ہوتا ہے اور تبخیرِ معدہ سے لے کر کینسر تک جیسے امراض کے شافی علاج میں انہیں پیدائشی مہارت حاصل ہوتی ہے۔ عام طور پر یہ دوا کی ایک ہی پڑیا سے سارے امراض کو بھگانے کا محیر العقول کارنامہ بھی سر انجام دیتے ہیں ۔ ہر طرف سے نا امید مریضوں کوونویدِ شفا دیتے ان کے اشتہار جا بجا دیواروں پر نقش ہوتے ہیں ۔

(جاری ہے)

عام طبیبوں کی نسبت یہ کم خرچ میں بڑے بڑے پیچیدہ امراض کے پیچ و خم کھولنے کا دعویٰ کرتے ہیں اس لیے ان کی دکان خوب چلتی ہے !
عطائیوں کی یہ خصوصیات تیسری دنیا میں پھیلی ان کی ساری فنکار برادری کا مشرکہ ورثہ ہیں لیکن تیسری دنیا کیباقی ممالک کے برعکس پاکستانی عطائیے صرف لوگوں کی قبض رفع کرنے اور ان کی بواسیر بھگانے کے فن تک ہی محدود نہیں بلکہ انہوں نے کئی اور شعبوں میں بھی کامیابیوں کے جھنڈے گاڑ ے ہیں۔

میدانِ سیاست میں ان کی ترک تازیاں بالخصوص قابلِ ذکرہیں۔ اس میدان میں اب تو عطائیوں کی اس قدر فراوانی ہے کہ اصلی اور نقلی میں تمیز کرنا بہت مشکل ہوگیاہے ۔ میڈیا کیمروں کی چکا چوند میں عطائی سیاست دانوں کی دکانیں زیادہ چمکتی ہیں کیوں کہ تماشا لگانا انہیں خوب آتا ہے۔ لوگوں کی توجہ اپنی طرف کھینچنے کے فن میں انہیں مہارتِ تامہ حاصل ہوتی ہے چناچہ کبھی طنز و مزاح سے ، کبھی رو رلا کر ، کبھی چٹکلے سنا کر یہ حاضرین کو محظوظ کرتے ہیں۔

ان کی یہ مہارت میلوں ٹھیلوں اور لاری اڈوں پر دانت کے درد کی دوا اور سانڈے کا تیل بیچنے والے مداریوں سے بڑی حد تک ملتی جلتی ہے ۔یہ مداری بھی اپنی دوا بیچنے کے لیے سسپنس اور تھرل کے ہتھیاروں سے کام لیتے ہیں اور بھولے بھالے سامعین کو گھنٹوں اپنی چکنی چپڑی باتوں سے گھیرے رکھتے ہیں ۔
سیاسی عطائیوں کو پہچاننا مشکل تو ضرور ہے لیکن ناممکن نہیں۔

ان کی خاص پہچان یہ ہے کہ ان کے پاس ہر قومی اور ملی مسئلے کا نقد حل موجود ہوتا ہے ۔ یہ کرپشن کو چند دنوں میں جڑ سے اکھاڑ سکتے ہیں، غربت کو پلک جھپکنے میں مٹا سکتے ہیں، بے روزگاری کو لمحوں میں غائب کر سکتے ہیں ، لاقانونیت کو منٹوں میں ختم کرسکتے ہیں، توانائی کے مسائل آناً فاناً ٹھیک کر سکتے ہیں اور معیشت کی بدحالی کو کھڑے کھڑے خوش حالی میں بدل سکتے ہیں ۔

عام سیاست دانوں کو جن مسائل کی گتھیاں سلجھاتے سالوں لگ جاتے ہیں عطائی سیاست دانوں کی زنبیل میں ان کے فوری اور تیر بہدف حل ہر وقتکلبلا رہے ہوتے ہیں ۔ اقربا پروری، مفاد پرستی، انا پرستی سمیت تمام قسم کی پرستیوں سے یہ یکسر پاک ہوتے ہیں۔ ان میں اور فرشتوں میں بس انیس بیس کا ہی فرق رہ جاتاہے ۔ یہ اپنے ماننے والوں کے دلوں میں پنی شرافت اور نیکو کاری کی دھاک بٹھانے کا کوئی موقع ہاتھ سے جانے نہیں دیتے اور اس نیک مقصد کے حصول کے لیے اپنی بزرگی کے قصے بڑی بے اعتنائی سے اکثر سناتے رہتے ہیں چناچہ ان کے ماننے والے بڑی سنجیدگی سے انہیں آسمانی اوتار سمجھنے لگتے ہیں۔

سیاسی مخالفین کو مجسم شیطان بنا کر پیش کر نا ان کا وہ حربہ ہے جس کی مدد سے یہ حق و باطل کی تاریخی جنگوں کے جدید ورژن میں کبھی حسین بن بیٹھتے ہیں توکبھی موسیٰ کا کردار اپنے لیے مختص کر لیتے ہیں!
پچھلے کئی روزسے اسلام آباد میں جاری سیاسی بحران بھی کچھ سیاسی عطائیوں کے ہاتھ کی ہی صفائی ہے۔ طاہر القادری اور عمران خان کی دھواں دھار تقاریر سے اگر یہ تاثر ابھر رہا ہے کہ پارلیمنٹ ہاؤ س کے سامنے سانڈے کا تیل بیچا جا رہا ہے تو اس میں کچھ اچنبھے کی بات نہیں۔

پچھلے سترہ روزکے دونوں راہنماؤں کے اقوالِ زریں کا نچوڑ نکالا جائے تو نتیجہ یہی نکلتا ہے کہ نقلی جمہوریت سے اصلی آمریت ہزار درجے بہتر ہے۔ یہ تو واضح نہیں کہ ان دونوں مسیحاؤں کو کسی متوقع اصلی آمریت کے ہنڈولے میں جھولا جھولنے کا اشارہ ملاہے یا نہیں لیکن اتنا سمجھ میں آ رہا ہے کہ یہ کسی ایسی مقدس آس پر دھرنے کو طول دے رہے ہیں جس کا تعلق عوامی طاقت سے کسی بھی طرح نہیں ۔

عمران خان کو پاکستان کے نوجوانوں نے اس امید پر اپنا لیڈر بنایا تھا کہ وہ ان کو پسماندگی وبد حالی کے تپتے صحرا سے نکال کر خوش حالی کے نخلستان میں لاکھڑا کریں گے، اس آس پر وہ راہنماچنے گئے تھے کہ اس ملک کو ذلت کی دلدل سے نکال کر خودداری و خودکفالت کی مسند پر لا بٹھائیں گے پر افسوس عمران خان عطائیوں کی صحبت میں بہک گئے اور اس راستے پر چل نکلے جہاں انا کی جنگ تو شاید وہ جیت جائیں جمہور اور جمہوریت کی جنگ میں ہار ان کا مقدر بن چکی ہے ! عمران سچا آدمی تھا لیکن جھوٹوں کی مجلس میں بیٹھنے والا بھلا کب تک سچائی پر قائم رہ سکتا ہے!کیا سیاسی عطائیوں کے جھرمٹ میں عمران کی جون بدل رہی ہے؟؟ آنے والے ماہ و سال اس کا جواب دیں گے!۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :