پہلے اور آج

اتوار 31 اگست 2014

Manzoor Qadir Kalru

منظور قادر کالرو

حضرت عمر نے اپنی خلافت کے ڈھائی سال بعد تاریخ اسلام لکھوانا شروع کی۔۱۶ ہجری تک کے واقعات تحریر کئے گئے۔آپ نے بیت المال قائم کیا۔حکومتی نظم و نسق کے لئے دفاتر ،ڈاک کا نظام، وزارتیں، انتظامی شعبہ جات اور پولیس کا محکمہ قائم فرمایا اور شہروں میں قاضی مقرر کئے۔ اسلامی فوج کو منظم کیا اور یہ حکم جاری کیا کہ چار مہینے سے زیادہ کسی مجاہد کو میدانِ جنگ یا فوجی بیرکوں میں نہ روکا جائے۔

مساجد میں روشنی کا انتظام کیا۔آپ کے دور خلافت میں بے شمار فتوحات ہوئیں، دمشق، بصرہ، اردن، مدائن، حلب بیت المقدس(فلسطین) نیشاپور، مصر اسکندریہ،انطاقیہ،حلب،آذر بائیجان ،اصفہان، آپ کے دورِ خلافت میں اسلامی سلطنت کا حصہ بنے۔صوف کا لباس زیبِ تن فرماتے تھے جس میں پیوند لگے ہوئے ہوتے تھے۔

(جاری ہے)

ذرہ تھامے بازار تشریف لے جاتے، اہلِ بازار کی تربیت و تنبیہ فرماتے تھے۔

کسی کو عامل مقرر کرتے تو اُس کے تمام اثاثوں کی چھان بین کر کے فہرست بنا لیتے، جب کسی عامل کی مالی حیثیت میں غیر معمولی اضافہ دیکھتے تو احتساب کے بعد وہ مال بیت المال میں جمع کرا دیتے تھے۔عاملوں کو عوام سے بھلائی کی نصیحت کرتے اور لوگوں سے شکایت ملنے پر اُس گورنر کو سزا بھی دیتے تھے۔ ہر عامل سے یہ عہد لیتے کہ ترکی گھوڑے پر سوار نہیں ہوگا، باریک کپڑے نہیں پہنے گا چھنا ہوا آٹا استعمال نہیں کرے گا، دروازہ پر دربان نہیں رکھے گا، اہلِ حاجت کے لئے اپنے دروازے ہمیشہ کھلے رکھے گا۔

آپ نے کوفہ، بصرہ، جزیرہ، شام، مصر اور موصل شہر آباد کئے۔حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ کے دورِ خلافت میں بھی قرآن و سنت کی تعلیمات کے مطابق اقلیتوں کے حقوق کے تحفظ کا اہتمام کیا گیا۔جن مواقع پر اقلیتوں سے معاہدے کئے گئے اُن معاہدوں میں شامل واقعات کو حتی المقدور اقلیتوں کے مفاد میں بہتر بنانے کے اقدامات بھی کئے۔حضرت عمر ہر چھوٹے بڑے معاملے کو خود طے کرتے تھے۔

جس طرح فوجی معاملات کی تنظیم، عمال کا تقرر ملکی سیاست کا تعین اور لوگوں کے درمیان منصفانہ فیصلوں جیسے اہم کام وہ خود انجام دیتے تھے۔اس کے علاوہ جہاں تک ممکن ہوتا تھا چھوٹے چھوٹے کاموں کو بھی نطر انداز نہ کرتے تھے۔ایک دن حضرت علی ابن ابی طالب نے دیکھا کہ وہ مدینہ کے باہر دوڑے چلے جا رہے ہیں ،حضرت علی نے پوچھا امیر لمومنین کہاں جا رہے ہیں، فرمایا، صدقے کے اونٹوں میں ایک اونٹ بھاگ گیا ہے اسے ڈھونڈنے جا رہا ہوں۔

ایک دفعہ فاروقِ اعظم سے حضرت عبدالرحمٰن نے پوچھا، اس وقت آپ کیسے تشریف لائے،فرمایا ایک قافلہ بازار کے پہلو میں آکر اترا ہے مجھے ڈر ہے مدینے کے چور اسے کوئی نقصان نہ پہنچا دیں۔ آؤ اس کی حفاظت کریں۔حضرت عمر نے شوریٰ کواپنی حکومت کی بنیاد بنایا۔لوگوں کو مسجد میں جمع ہونے کا حکم دیتے یا مدینے سے باہر ہوتے تو انہیں نماز کے لئے جمع ہونے کا حکم دیتے اور مشورہ طلب کرتے۔

بات ان کے سامنے رکھتے۔ا س مجلس میں ہر ایک کو اپنی اپنی رائے پیش کرنے کا حق ہوتا تھا۔اس کے بعد بھی اگر مسلہ حل نہ ہوتا تو نوجوانوں کو بلا کر ان کی رائے دریافت فرماتے۔ جب تمام مجلس شوریٰ میں اس کا کوئی حل نکل آتا تو اسے نافذ فرمادیتے۔ ان کے نزدیک شوریٰ کی حیثیت ایک بنیادی نظام کی تھی۔ جس پر مملکت کے تمام گوشوں میں عمل ہونا ضروری تھا۔

آپ امرائے لشکر اور والیوں کو بھی حکم دیتے تھے کہ آپس میں مشورہ کریں۔انہیں کہتے فیصلے میں عجلت نہ کرنا ۔حضرت عمر کا عدل و انصاف آج تک ضرب المثل ہے۔ کیوں کہ وہ اللہ کے بندوں میں سب سے زیادہ اللہ اور اس کے حساب سے ڈر نے والے تھے اور لوگوں پر حکومت کرنے میں جس سوجھ بوجھ ، باریک بینی، اور محاسبہ نفس کی ضرورت ہوتی ہے اسے خوب جانتے تھے۔عدل قائم کرنے میں وہ اپنے عزیزوں کے ساتھ کوئی نرمی نہ برتتے تھے۔

انہوں نے ابو سرور کے ساتھ نبیذ پی اور ان پر نشہ طاری ہو گیا۔وہ دونوں حضرت عمر بن عاص کے پاس پہنچے کہ وہ ان پر حد جاری کریں۔ابن عاص کہتے ہیں کہ میں نے انہیں جھڑک کر نکال دیا۔اس پر عبدالرحمٰن بولے اگر آپ نے حد جاری نہ کی تو جب میں حضرت عمر کے پاس جاؤں گا تو یہ بات ان سے کہوں گا۔ میں جانتاتھا کہ اگر میں نے ان پر حد نہ لگائی تو عمر ناراض ہوں گے اور مجھے معزول کر دیں گے۔

اس لئے میں انہیں گھر کے صحن میں لایااور ان پر حد لگائی۔عبدا لرحمٰن بن عمر گھر کی کوٹھڑی میں گھس گئے اور اپنا سر مونڈا، خدا کی قسم میں نے اس واقعے کے بارے میں عمر کوایک حرف بھی نہ لکھا۔ یہاں تک کہ ان کا خط مجھے ملا جس میں انہوں نے مجھے سختی سے سرزنش کی اور حکم دیا کہ ان کے بیٹے عبد الرحمٰن کوایک ادنٰی عبا پہنا کرکاٹھی پر بٹھا کر ان کے پاس بھیجو۔

عبدالرحمٰن اپنے والد کے پاس پہنچے تو حضرت عمر نے ان سے پوچھا تم نے یہ حرکت کی ہے۔ عبد الرحمٰن بن عوف نے ان کی سفارش کی اور کہا، امیرالمومنین ان پر حد لگائی جا چکی ہے لیکن حضرت عمر نے ان کی بات پر دھیان نہ دیا اور عبدالرحمٰن بن عمر چلانے لگے۔ میں بیمار ہوںآ پ مجھے قتل کر رہے ہیں۔ حضرت عمر نے ان پر دوبارہ حد لگوائی۔فاروقِ اعظم کا مشہور قول ہے عوام میں اس وقت تک خرابی پیدا نہیں ہوتی جب تک ان کے رہنما ان سے سیدھے رہتے ہیں۔ جب تک راعی اللہ کی راہ میں چلتا رہتا ہے رعایا اس کے پیچھے پیچھے چلتی ہے لیکن جہاں اس نے پاؤں پھیلائے رعایا اس سے پہلے پیر پھیلا لیتی ہے۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :