اللہ میری توبہ

اتوار 31 اگست 2014

Abdul Raheem Anjaan

عبدالرحیم انجان

بہت سال پہلے کی بات ہے کہ صبح کی نماز میں ، ہم چند دوست صبح کی نماز کے بعد نماز اشرق تک مسجد میں بیٹھ کر گپ شپ کیا کرتے تھے، ہمارے ایک نمازی ساتھی نے، جو لاہور کی ایک معروف فاوٴنڈری میں انجنئیر کی حیثیت سے کا م کر چکے ہوئے تھے ۔ ہمیں اس فاوٴنڈری کے مالکان کے بد ترین سفاک ہونے کے حوالے سے ایک قصہ سنایا کہ ایک مزدور کو اس کی کسی غلطی پر غصے میں آ کر اس فاوٴنڈری کے مالک نے دہکتی ہوئی آگ کی بھٹی میں پھنکوا دیا تھا۔

مجھے اس قصے پر اعتبار نہیں آیا تھا۔میرا دل مان ہی نہیں سکتا کہ انسان اس درجہ سفاک بھی ہو سکتا ہے۔یہی وجہ ہے کہ میں نے آج تک اپنے کسی کالم میں اِس قصے کا ذکر نہیں کیا کہ کس طرح ایک دولت مند نے ایک غریب آدمی کو دہکتی ہوئی آگ میں پھنکوا کر نہ صرف اس غریب انسان کی زندگی کا چراغ گل کر دیا ، ایک غریب خاندان کا ذریعہ ِ آمدن بھی چھین لیا۔

(جاری ہے)

لیکن سانحہ ماڈل ٹاوٴن کے بعد آج۳۰ اگست کے دن بد ترین سفاکی کا جو تماشا وزیر اعظم ہاوٴس کے سامنے سجایا گیا ہے۔

اس کے بعد میں کہہ سکتا ہوں کہ انسان اپنے مفادات کے دفاع کی جنگ اور عدل و انصاف کو کچلنے کے لئے انسانیت کے تمام درجوں سے گر سکتا ہے۔بے شک اسی انسان کو اللہ نے اشرف المخلوقات بھی کہا ہے۔لیکن آدمی سے اشرف المخلوقات کا سفر بڑا دشوار گزر ہے۔ہر آدمی کے بس کی بات نہیں۔
بسکہ دشوار ہے ہر کام کا آسان ہونا
آدمی کو بھی میسر نہیں انسان ہونا
”ساری دنیا ایک طرف جورو کا بھائی ایک طرف“ کے مصداق میاں محمد نواز شریف پر یہ آن پڑی ہے کہ جورو کے بھائی سمیت ساری دنیا ایک طرف اور میاں صاحب کی وزار عظمیٰ ایک طرف،پاکستان کو آگ لگتی ہے تو لگتی رہے، پاکستان کا وقار خاک میں ملتا ہے تو ملتا رہے، انہوں نے وزارت عظمیٰ نہیں چھوڑنی۔

جب تک اُنہیں یہ ضمانت نہ دی جائے کہ اُن دونوں بھائیوں پر سانحہ ماڈل ٹاوٴن کا مقدمہ چلایا جائے گا اور نہ ہی اُن کی کرپشن کا کوئی کیس کھولا جائیگا۔
باتیں کرنے کو تو ہمارے لیڈران قوم قومی اسمبلی کو سب اداروں پر مقدم مانتے ہیں اور اس کے مقدم ہونے کی بڑی دوہائی بھی دیتے ہیں اور اس میں کوئی شک نہیں کہ خالصتاً جمہوری معاشروں میں قومی اسمبلی کا تقدس بڑی اہمیت رکھتا ہے۔

لیکن ہمارے ہاں سب سے زیادہ جھوٹ قومی اسمبلی ہی کے فلور پر بولا جاتا ہے۔قومی اسمبلی کے فلور پر اوپر تلے دو ( وطن عزیز کے وزیر اعظم کے ساتھ جھوٹ لکھتے ہوئے شرم آ رہی ہے لیکن کیا کیا جائے کہ اس کا کوئی متبادل بھی تو نہیں) جھوٹ تو خود ہمارے وزیر اعظم صاحب بول چکے ہیں۔
(۱) ”عمران خان نے میری حکومت کو بھی مان لیا تھا اور الیکشن کو بھی اور سبھی قومی معاملات میں میرا ساتھ دینے کی حامی بھی بھر لی تھی ۔

لیکن اب نہ جانے انہیں کیا ہو گیا ہے؟ “ میاں نواز شریف کی ہر بات کی تان سازش پر آ کر ٹوٹتی ہے۔وہ بیک وقت عمران خان اور فوج ، دونوں کو بد نام کر رہے ہیں۔ساری دنیا جاتی ہے کہ عمران خان نے کیا کہا تھا۔” میاں صاحب ! میں الیکشن اور آپ کی حکومت دونوں کو قبول کرتا ہوں اور قومی سطح کے سب معاملات میں آپ سے تعاون بھی کروں گا۔لیکن میں الیکشن میں جو دھاندلی ہوئی ہے اسے قبول نہیں کروں گا۔

آپ صرف چار حلقوں کی چھان بین کروا کر دھاندلی کے ذمہ دار لوگوں کو سزا دلوا دیں۔ تا کہ آئندہ ایسی شرمناک دھاندلی نہ ہو سکے۔“
(۲)میاں صاحب نے قومی اسمبلی کے فلور کے تقدس سے کھلواڑ کرتے ہوئے دوسرا جھوٹ فوج سے مدد مانگنے کے حوالے سے بولا ہے۔جس کی تفصیل میں جانے کی ضرورت نہیں کہ سن جانتے ہیں کہ اُنہوں نے چیف آف آرمی سٹاف کو بلا کر ان سے کہا کہ وہ اس معاملے کو رفع کرانے کی کوشش کریں۔

جس کے جواب میں جنرل راحیل شریف نے کہا کہ سب سے پہلے آپ اُن کی ”ایف۔آئی۔آر“ کاٹنے کی شرط پوری کریں۔ایف۔آئی۔آر کٹ گئی،لیکن اس میں ان ملزموں کے نام نہیں تھے۔جنہیں عدالتی کمیشن نے ملزم نامزد کیا تھا اور جن میں خود نواز شریف اور شہباز شریف کے نام بھی تھے۔ڈاکٹر طاہر القادری نے اس ایف۔آئی۔آر کو مسترد کر دیا۔ اور دوسرے دن میاں صاحب نے بھی قومی اسمبلی کے فلور کے تقدس پر یہ کہہ کر تھوک دیا کہ چیف صاحب کو میں نے نہیں، عمران خان اور ڈاکٹر طاہر القادری نے فون کر کے افہام و تفہیم کا کوئی راستہ نکالنے کے لئے کہا تھا اور چیف صاحب نے مجھ سے کہا تو میں نے کہا۔

میں کسی بھی وقت بات کرنے کے لئے تیار ہوں ۔ وزیر اعظم صاحب کے اس بیان کے جواب میں آئی۔ایس۔پی۔آر نے پریس ریلیز جاری کی کہ جنرل راحیل شریف کو میاں محمد نواز شریف نے ضامن بن کر اپنی نگرانی میں کوئی تصفیہ کرانے کے لئے درخواست کی تھی۔
مجھے میاں صاحب کے ایک مدگار ٹی۔وی چینل پر بیٹھ کر جگالیاں کرنے والے اُن دانشوروں پر بھی حیرت ہوتی ہے جو الیکشن میں دھاندلی کے کئی ثبوت اور گواہ ملنے کے بعد بھی میاں صاحب کے اقتدار کو آئینی اقتدار کہتے ہیں اور فرماتے ہیں ۔

” یہ تو بری رسم شروع ہو جائے گی کہ کوئی بھی آدمی پندرہ بیس ہزار لوگ اپنے ساتھ لے کر کسی بھی منتخب حکومت کو گھر بھیجنے کا مطالبہ لے کر سڑکوں پر آ جائے۔ جو لوگ میاں صاحب کے اقتدار کو آئینی کہتے ہیں، اُن کے آئینی و اخلاقی دیوالیہ پن کے بارے میں کیاکہا جا سکتا ہے ؟“ سب سے پہلی بات تو یہ ہے کہ اگر ملک کے آئین پر پریکٹس ہو رہی ہوتی تو ایسے لٹیرے ۶۲۔

۶۳ کا شکار ہو کر پارلیمنٹ میں پہنچ ہی نہ پاتے۔جو لٹیرے آج اپنی کرپشن کو ہضم کرنے کے لئے کہتے ہیں کہ ہم جمہوریت کو ڈی ریل نہیں ہونے دیں گے۔
میاں صاحب اپنے اقتدار کو آئینی کہنے کا ایک جواذ یہ بھی پیش کرتے ہیں کہ پارلیمنٹ میں موجود سبھی پارٹیاں میرے ساتھ ہیں۔ بے چارے یہ نہیں سمجھ پا رہے کہ جو لوگ جمہور ی نظام کو بچانے کے نام پر ان کا ساتھ دینے کی حامیاں بھر رہے ہیں، وہ سب جمہوری نظام کے پس پردہ اپنے کالے کرتوتوں کا دفاع کر رہے ہیں۔

راقم اپنے پچھلے کالم ” آ بیل مجھے مار “ میں جناب آفتاب شعبان میرانی کے حوالے سے لکھ چکا ہے کہ ہمارے مائی کے لال عوامی نمائندے کسی قومی مسئلے پر متحد ہوں نہ ہوں ، شرم ناک کرپشن کو ختم کرنے کی بات کرنے والوں کے خلاف سیسہ پلائی دیوار ضرور بن جاتے ہیں اور اس وقت عمران خان کو کے راستے میں سب سے بڑی رکاوٹ قومی لٹیروں کا یہ ٹولہ ہی ہے۔

ورنہ کیا وجہ ہے کہ کرپشن سے پاک اِک نیا پاکستان بنانے کے داعی میاں صاحب نے تا حال زرداری کے ساٹھ ملین ڈالر کی فائل کو چھوا تک نہیں اور نہ ہی زرداری نے اپنے دور میں میاں صاحب کی کرپشن کے دفاتر کے دروازے پر دستک دی تھی۔ پاکستان میں آج تک ” جمہور“ کے پیٹ سے جنم لینے والی جمہور یت آئی ہے اور نہ پاکستان کو دونوں ہاتھوں سے لوٹنے والے نامی گرامی لٹیروں کو احتساب کے شکنجے میں نچوڑنے والی آ مریت آئی ہے ۔

نتیجتاً یہ مظلوم ملک جس طرح گزشتہ چھ دھائیوں سے لٹتا آرہا ہے۔ایسے ہی ہمیشہ لٹتا راہے گا۔
ہم بیرون ملک پاکستانیوں کا اوڑھنا بچھونا ، ہمارا پاکستان ہے۔میاں نواز شریف میرے وطن عزیز کے وزیر اعظم ہیں۔میرا دل چاہتا ہے کہ میں اپنے وزیر اعظم کی عزت کرو ں ۔لیکن کیسے کروں ؟ ان کے کس کارنامے کو سامنے رکھتے ہوئے اُن کی عزت کروں؟ کرپشن کے چھوٹے بڑے درجنوں قصے کہانیوں کے علاوہ سانحہ ماڈل ٹاوٴن کے کے بعد آج پھر ظلم و تشدد کی جو کہانی رقم کی گئی ہے۔

کیا کسی جمہوری معاشرے میں ایسا ظلم برداشت کیا جا سکتا ہے ؟ وزیر داخلہ جناب نثار علی تھوڑی دیر کے لئے جائہ واردات پر نظر آئے اور انہوں نے بڑی رعونت کے ساتھ کہا۔لوگوں نے وزیر اعظم ہاوٴس پر حملہ کر دیا تھا۔پولیس نے انہیں روکنا تو تھا۔ان کے لب و لہجے میں حکمرانی کے غرور کے سوا کچھ بھی نہیں تھا۔ کئی خواتین و حضرات شہید اور سینکڑوں لوگ زخمی ہو چکے ہیں۔

لیکن وہ بالکل متاسف نظر نہیں آئے۔اگر یہ جمہوریت ہے تو پھر آمریت کسے کہتے ہیں ؟
کل جناب الطاف حسین فرما رہے تھے تا حال پاکستان کو ایک ہزار ارب روہے کا نقصان ہو چکا ہے۔مالی نقصان کے علاوہ پوری دنیا میں جس طرح پاکستان کا وقار خاک میں ملک رہا ہے۔وہ ایک الگ کہانی ہے۔ امریکہ کا کیا ہے ؟ وہ ہر ملک میں اپنے مفادات کو دفاع دینے والے اپنے سفیروں کی حمات تو کرتا ہی ہے لیکن وہاں کے عوام صرف یہ دیکھتے ہیں کہ سچ کیا ہے اور امریکن عوام یہ دیکھ رہے ہیں کہ پاکستان میں شرمناک دھاندلی سے ایک ضدی شخص اقتدار پر قابض ہے اور پاکستان کے عوام گلی کوچوں میں اس کے خلاف احتجاج کر رہے ہیں۔


میاں صاحب !آئیں تھوڑی دیر تنہائی میں بیٹھ کر حالات پر غورو فکر کر لیں کہ تنہائی ہی وہ آئینہ ہے جو فقط سچ بولتا ہے۔آئے دن آپ کی عوامی مقبولیت کے سروے آتے رہتے ہیں۔جو بتاتے ہیں کہ آپ پاکستان میں سب سے زیادہ مقبول عوامی لیڈر ہیں۔اگر وہ سروے سچے ہیں۔مجھے یقین ہے کہ وہ یقینا سچے ہوں گے۔آ خر آپ نے قوم کی اتنی خدمت کی ہے کہ آپ کی قومی خدمات پر مشتمل ایک ڈوکومنٹری تو بی۔

بی۔سی بھی بناچکی ہوئی ہے۔جسے اے۔آر۔وائی نے بھی دکھایا تھا کہ آپ کی انگلینڈ میں کتنی بڑی بزنس ایمپائر ہے اور جائیداد کتنی ہے ؟ اتنی عزت مندانہ شہرت کے ساتھ آپ کو کس بات کا ڈر ہے۔آپ دھاندلی کے الزام جیسی ذلت کے طوق کو گلے سے اتار کر دوبارہ نئے الیکشن کا اعلان کیوں نہیں کر دیتے۔؟ آپ الیکشن کے لئے بائیو میٹرک سسٹم کیوں نہیں خرید لیتے ۔

نہ رہے گا بانس نہ بجے کی بانسری،آپ قوم میں میں لیب ٹاپ بانٹ سکتے ہیں۔اپنی بیٹی کو بے نظیر بھٹو بنانے کے لئے ایک سو سترہ ارب نوجواں نسل میں بانٹنے کے لئے دے سکتے ہیں ۔لیکن بائیو میٹرک سسٹم کے لئے آپ کے پیسے نہیں ہیں۔میان صاحب کچھ تو خدو کا خوف کھائیں۔لوگوں پر اتنا ہی ظلم کریں جتنا ظلم کل سہہ سکیں۔
عمران خان اور ڈاکٹر طاہر القادری سے بھی میری ایک درخواست ہے۔

بلکہ ایک روایت ان کی خدمت میں پیش کرنا چاہتا ہوں۔ایک معصوم بچے کو عدات میں پیش کیا گیا جس کی داعی دو عورتیں تھیں۔دونوں کہتی تھیں۔بچہ میرا ہے۔آخر جج صاحب نے فیصلہ دیا کہ بچے کے دو ٹکڑے کر کے دونوں میں بانٹ دیا جائے۔جج صاحب کے اس فیصلے پر بچے کی اصل ماں تڑپ کر اپنے دعویٰ سے دستبردار ہو گئی۔
میاں صاحب کو پاکستان کے نفع و نقصان سے کوئی غرض نہیں ہے۔

وہ تو آخری دم تک وزارت عظمیٰ سے کسی جوک کی طرح چمٹے رہیں گے اور پاکستان دنیا بھر میں اسی طرح ذلیل و خوار ہوتا رہے گا۔پلیز ! آپ ہی ۔۔۔۔! پاکستان کے مستقبل کے پیش نظر میں نے اپنا جملہ ادھورا چھوڑ دیا ہے۔میں جانتا ہوں کہ پاکستان کے خوشحال مستقبل کا تقاضہ ہے کہ چور اچکوں کو ان کے عبرت ناک انجام تک پہنچایا جائے۔
افواج پاکستان کے سربراہ سے میرا ایک سوال ہے۔

آج کے حالات کے تناظر میں دیکھیں اور فیصلہ کریں کہ بھٹو شہید بڑا مجرم تھا کہ میاں نواز شتریف بڑا مجرم ہے۔چو نکہ بھٹو اپنی قوم کا محب وطن لیڈر تھا۔امریکہ کا غلام نہیں تھا۔امریکہ کے منع کرنے کے باوجود اس نے مسلم اُمُہ کو متحد کرنے کے لئے پاکستان میں مسلم لیڈران کی کانفرنس بلائی۔ امریکہ کے منع کرنے کے باوجود پاکستان کو ایٹمی طاقت بنانے کی بنیاد رکھی۔اُس کو تو اس کے ناکردہ گناہ کی سزا دینے کے لئے فوج آ گئی تھی۔لیکن ایسے مجرم کے لئے جس کے دامن پر کئی معصوم لوگوں کے خون کا الزام بھی ہے اور جس نے گزشتہ کئی دنوں سے پاکستان کے امن و امان میں زہر گھول رکھا ہے۔فوج تماشائی بنی ہوئی ہے اس لئے کہ اسے بچانے کے لئے امریکہ کا دباوٴ ہے۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :