شاہ صاحب کہاں ہیں؟

اتوار 31 اگست 2014

Syed Shahid Abbas

سید شاہد عباس

دو جماعتیں بوریا بسترا لے کر اسلام آباد میں براجمان ہیں۔ انہوں نے سپریم کورٹ کے معلوماتی بورڈ اور جنگلے کو کپڑے سکھانے کی تاریں اور مرکزی شاہراہ ء جمہوریت کو اپنا گھر بنا رکھا ہے۔ ایک عجیب منظر ہوتا ہے کسی جگہ چولہا جل رہا ہے کہیں کوئی بیٹھا اخبار پڑھ رہا ہے۔ اور کسی کونے میں کوئی مائی اپنے لال کے جسم سے دن بھر کی دھول مٹی صاف کرنے میں مصروف ہے۔

ایک لمحے کے لیے سوچیں ان میں سے کسی نے بھی وفاقی حکومت کی سب سے اہم شاہراہ پر اپنے شب روز اس انداز سے گزارنے کا سوچا بھی ہو گا؟ ہرگز نہیں۔ لہذا انہیں اپنے قائدین کا احسان مند بہر حال ہونا چاہیے کہ ان لوگوں کو بھی انہوں نے اسلام آباد کی سڑکوں سے کم از کم روشناس کروا دیا۔ کیوں کہ عام حالات میں تو یہ جگہ نو گو ایریا بن جاتی ہے۔

(جاری ہے)

جہاں آپ ایک لمحے کے لیے بھی فٹ پاتھ پر سستانے کے لیے بیٹھ جائیں تو سیٹیاں گونجنا شروع ہو جائیں گی۔


یہ دھرنے ہر لحاظ سے انتظامیہ کی نا اہلی کا منہ بولتا ثبوت ہیں۔ یا شاید نا اہلی بھی نہیں بلکہ غلط بیانی کہہ لیں۔ کیوں کہ میاں صاحب کے وزراء کی فوج ظفر موج آخری لمحے تک انہیں شاید یہی بتاتی رہی کہ چند سو افراد ہیں جنہیں قابو کرنا ہرگز مشکل نہیں ہے اسی لیے شاید انہیں ریڈ زون جیسی اہم جگہ پر بھی آنے سے نہیں روکا گیا۔ اور اب بھی یہی کہا جا رہا ہے کہ یہ چند ہزار لوگ ہیں۔

لیکن عاقبت نا اندیش مشراء و وزراء شاید اس بات سے بے خبر ہیں کہ ایک مخصوص جگہ پر چند ہزار لوگ بھی اگر ایک لمبے عرصے تک براجمان رہیں تو اپنا موقف منوانے کی پوزیشن میں آ جاتے ہیں۔ جب یہ لوگ لاہور سے چلے تو حکومت کے ایوانوں میں نیرو چین کی بانسری بجا رہا تھا۔ اور وزیر داخلہ اسلام آباد کا طوفانی دورہ کرتے ہوئے کافی حد تک مطمئن دکھائی دے رہے تھے۔

لیکن اب یہ ایک ایسا ڈھول بن چکا ہے جسے بجانا حکومت کی مجبوری بن چکی ہے۔
اس پورے سیاسی ماحول میں حقیقی اپوزیشن جماعت کا دعویٰ کرنے والی پاکستان پیپلز پارٹی کا کردار حیران کن ہے بلکہ افسوس ناک ہے۔ اس کردار کا جائزہ لینے سے پہلے معائدہ لندن پر ایک نگاہ دوڑائیں۔ پھر خود کو مری لے جائیں۔ اور تصور میں دو بھائیوں کے چہرے لائیں۔ دونوں کے چہروں پر ایک مسکراہٹ۔

ہاتھوں میں ہاتھ۔ خوشی کا سبب ؟ پہلے تم پھر ہم ۔ اور اس کا عملی مظاہرہ پاکستان پیپلز پارٹی پارلیمینٹیرین کی حکومت کے دوران دیکھنے میں بھی آیا۔ بہت دفعہ ایسے حالات پیدا ہوئے کہ کہا جانے لگا کہ بس حکومت چند گھنٹوں کی مہمان ہے۔ لیکن پھر حالات معمول پر آ گئے۔ زرداری صاحب نے خوش اسلوبی سے دو وزرائے اعظم کو "بھگتایا" ۔ یا ہم یوں کہہ سکتے ہیں کہ زرداری صاحب سے زیادہ حکومت کے پانچ سال پورے کرنے میں میثاق جمہوریت کا بہت بڑا ہاتھ تھا۔

اس کے علاوہ مری کے پانی کا بھی اثر تھا کہ میاں صاحب نے ہر جگہ اختلاف بھی کیا اور حکومت کو بھی نہ چھیڑا۔ میاں صاحب بڑے گھاگھ سیاستدان ہیں ۔ وہ جانتے تھے کہ اس وقت کی حکمران جماعت کی کارکردگی جتنی بری ہو گی اتنا ہی ان کے اقتدار میں آنے کا چانس زیادہ ہو گا۔اسی لیے انہوں نے سوئس بینکوں میں دولت کے بارے میں بھی زرداری صاحب کو آڑھے ہاتھوں لیا۔

اور سب کے سامنے یہ تاثر بھی دیا کہ حکومت وقت ملک کا پیسہ واپس لانے میں دلچسپی نہیں رکھتی لیکن اندرون خانہ وہ زرداری صاحب کو یقین دلاتے رہے کہ جناب ہم آپ کے ساتھ ہیں اور آپ کی حکومت کو کسی صورت ختم نہیں ہونے دیں گے۔ کیوں کہ میاں صاحب کی نظر اگلے پانچ سالوں پر تھی۔ اور پنجاب میں تو ویسے ہی ان کی حکومت تھی اس صوبے میں حکومت کا مطلب وسائل کے لحاظ سے آدھے پاکستان پر حکومت کے مترادف ہے۔


زرداری صاحب کے دور میں میاں صاحب نے لوگوں کو دکھانے کے لیے ایک مضبوط اپوزیشن کا کردار ضرور نبھایا اور اس مقصد کے لیے چوہدری نثار علی خان کا کردار کسی سے ڈھکا چھپا نہیں ہے۔ چوہدری صاحب ویسے ہی تھوڑے سے اکھڑ مزاج مشہور ہیں اوپر سے ان کے نام کے ساتھ کرپشن کا کوئی لاحقہ جڑا ہوا نہیں ہے (بظاہر)۔ لہذا انہوں نے میثاق جمہوریت کو نبھانے کے لیے سہی لیکن مشکل وقت ضرور دیا۔

ایک اعلی افسر کو خود ایک نامکمل فائل لانے پراپنے سٹاف کو جھاڑ پلاتے ہوئے سنا کہ تم لوگ تو کام نا مکمل لے آتے ہو لیکن پبلک اکاؤنٹس کمیٹی میں چوہدری نثار کا غصہ ہمیں سہنا پڑتا ہے۔ اس سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ چوہدری صاحب نے کچھ رعب داب ضرور رکھا تھا اور اس کا اظہار وہ میڈیا پر بھی کرتے رہتے تھے۔
لیکن حیران کن طور پر موجودہ حالات میں اپوزیشن کا کردار کہیں بھی نظر نہیں آ رہا۔

چوہدری صاحب کی جگہ شاہ صاحب نے لے لی ہے لیکن وہ منظر سے یکسر غائب نظر آ تے ہیں۔ چوہدری صاحب جب اپوزیشن لیڈر تھے تو اس وقت بھی میاں صاحب اسمبلی میں نہیں تھے۔ ایسے ہی اب زرداری صاحب اسمبلی میں نہیں ہیں۔ لیکن شاہ صاحب اس وقت تک ایک نا اہل اپوزیشن لیڈر کا رول ادا کر رہے ہیں۔ اگر میثاق جمہوریت یا مری معائدے کا پاس بھی رکھنا ہے تو کم از کم شاہ صاحب کو حالات کی حساسیت کو " ڈی فیوز " کرنے کے لیے اپنا کردار ضرور ادا کرنا چاہیے تھا۔

سانحہ ء ماڈل ٹاؤن پر انہیں متاثرہ خاندانوں کے گھر جا کر افسوس کے ساتھ ہر ممکن مدد کی یقین دہانی کرانی چاہیے تھی ۔ ان کے اس طرز عمل پر نہ صرف متاثرہ فریق کے جذبات قدرے ٹھنڈے کیے جا سکتے تھے بلکہ میاں صاحب کی مشکلات بھی کافی کم ہو سکتی تھیں۔ ان کے بارے میں عوامی غصہ کم ہو سکتا تھا۔ اس کے علاوہ عمران خان کے معاملے پر شاہ صاحب ان سے ملتے اور دھاندلی کے معاملے میں مکمل شفاف تحقیقات کی یقین دہانی کرواتے اور خان صاحب کو اس بات پر قائل کرتے کہ ہم بھی اسمبلی میں آپ کے موقف کی تائید کریں گے اور ہر فورم پر آپ کے ساتھ کھڑے ہوں گے بس آپ سڑکوں پر احتجاج نہ کریں۔

اس سے خان صاحب بھی خوش ہو جاتے اور میاں صاحب بھی مطمئن ہو جاتے ۔ ایک طرف تو شاہ صاحب کی پارٹی کہتی ہے کہ ان کے ساتھ بھی دھاندلی ہوئی لیکن اس کے ساتھ ہی وہ مکمل طور پر میاں صاحب کے ساتھ کھڑے ہو گئے اس سے میاں صاحب کو فائدہ ہوا یا نہیں لیکن پیپلز پارٹی کو نقصان ضرور ہوا۔ خاص طور پر پنجاب کی سطح پر ارکان کافی نا خوش ہیں ۔شاہ صاحب کو چاہیے تو یہ تھا کہ وہ چوہدری نثار علی خان کی طرح خود کو قدرے سخت گیر اپوزیشن لیڈر منواتے جس کے کردار سے حکومت و باقی اپوزیشن جماعتیں بھی مطمئن رہتیں اور خود پیپلز پارٹی کو بھی فائدہ پہنچتا۔


موجودہ حالات میں یہ کہنا بے جا نہ ہو گا کہ شاہ صاحب میثاق جمہوریت کو نبھانے میں اس قدر آگے نکل گئے ہیں کہ وہ اپوزیشن راہنما کے بجائے حکومت کی " بی ٹیم" نظر آ رہے ہیں۔ جس جمہوریت کا رونا اس وقت پیپلز پارٹی رو رہی ہے اسی جمہوریت میں ایک مضبوط اپوزیشن کا کردار بھی ہرگز نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔ ایک مضبوط اپوزیشن کا کردار ادار کر کے نہ صرف جمہوریت کو مزید مضبوط کیا جا سکتا ہے بلکہ باقی اپوزیشن جماعتوں کے تحفظات بھی دور کرنے میں مدد مل سکتی ہے۔

لیکن اس وقت تک شاہ صاحب کہیں گم نظر آتے ہیں اور میڈیا تک میں ان کا کوئی بیان شاذو نادر ہی نظر آتا ہے۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ شاہ صاحب کیا صرف میثاق جمہوریت کا پاس رکھتے ہیں یا واقعی ایک حقیقی اپوزیشن لیڈر بن کر سامنے آتے ہیں۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :