صحافت میں کالی بھیڑیں

اتوار 31 اگست 2014

Hussain Jan

حُسین جان

زندگی جبر مسلسل کی طرح کاٹی ہے
جانے کس جرم کی پائی ہے سزا یاد نہیں
ساغر صدیقی سے لے کر حبیب جالب سمیت بہت سے دانشور ادیب اور صحافی ایسے گزریں ہیں جنہوں نے اپنی زندگی میں اتنے دکھ اور تنگی دیکھی کہ لوگوں کو ان پر ترس آتا تھا۔ تندور پر مرنے والا ساغر اور آج تک حکومتی امداد کوترستے بہت سے شعرء اور صحافیوں کے خاندان اس بات کا ثبوت ہیں کہ ہمارے ملک میں سلام صرف چڑھتے سورج کو ہی کیا جاتا ہے۔

جب کسی بوڑھے صحافی یا دانشور کی کسمپرسی کی خبر میڈیا میں جگہ حاصل کرنے میں کامیاب ہوجاتی ہے تو ہماری حکومتیں کچھ نہ کچھ تھما دیتی ہیں نہیں تو Go to Hell. پاکستان کی 66سالہ تاریخ میں حکومتوں کی بھاگ دوڑ زیادہ تر آمروں کے ہاتھوں میں رہی ہے۔ ان آمروں کا مقابلہ کرنے والے صحافی عبرت کا نشان بنا دیے جاتے تھے۔

(جاری ہے)

لاہور کا شاہی قلہ اس کی زندہ مثال ہے۔

مگر دوسری طرف آمروں کی گود میں بیٹھنے والے ادیب و صحافیوں کو دو دو ہاتھوں سے نوازا جاتا ہے۔ پاکستان میں بہت سے صحافی آج بھی موجود ہے جو اپنے پیشے کو عبادت سمجھ کر کرتے ہیں ، نظریہ پاکستان کے علمدبردار بہت سے صحافی جنہوں نے برئے سے برئے وقت میں بھی کلمہ حق کہنے سے دریغ نہیں کیا۔ دوسری طرف ایسی مثالیں بھی ہیں کہ حکومت بہت سے صحافیوں کو اپنے پے رول پر بھرتی کرلیتی ہے پھر اپنی پالیسیوں کو کے لیے رائے عامہ ہموار کرنے میں ان کرائے کے صحافیوں کی خدمات حاصل کرتی ہے۔

کہنے کو تو ہر دوسرا صحافی یہ کہتا پایا جاتا ہے کہ ہم پر بے جا تنقید اور الزامات لگائے جاتے ہیں جبکہ ہم اپنا کام ایمانداری سے سرانجام دے رہے ہیں۔ ہم نے کتابوں میں صحافی کی تعریف "ایک ایسا شخص جو خود کومکمل طور پر غیرجانبدار رکھتے ہوئے لوگوں کو مختلف خبروں سے باخبر رکھے اور اخلاق کے دائرے میں رہتے ہوئے حکومتی اداروں کے مختلف پہلوں پر بحث کرئے" پڑھی تھی۔

مگر کتنے افسوس کی بات ہے کہ آجکل ہمارے میڈیا میں غیر جانبداری کا کوئی رواج نہیں بڑئے بڑئے صحافی حضرات اپنے اپنے آقاؤں کے حق میں زمین و آسمان ملاتے پائے جاتے ہیں۔ اس بات میں بھی کوئی شک نہیں کہ ہر انسان کو سیاست میں حصہ لینے کا حق اور صحافی بھی معاشرے کا حصہ ہونے کے حثیت سے سیاسی وابستگی رکھ سکتے ہیں۔ مگر یہ کہاں کا انصاف ہے کہ آپ ایک سیاسی پارٹی کی دم پکڑ لیں اور پھر اُسی کے پیچھے پیچھے چلتے رہیں۔

پاکستان میں ہمیشہ سے ایسا ہی ہوتا رہا ہے کرپٹ لوگوں کے ساتھ ساتھ اچھے لوگوں کو بھی تنقید کا نشانہ بنایا جاتا ہے۔ لنگور ٹائپ کے دو پائپ کی شکل والے پرانی انارکلی کی پینٹ جیسے دانشور بیٹھ کر اپنا اپنا علم جھارٹے ہیں اور بڑی ڈھٹائی کے ساتھ اپنی کہی ہوئی بات کو سچ ثابت کرنے میں مختلف قسمکے بندروں سی قلابازیاں لگاتے رہتے ہیں۔
سوشل میڈیا کی آمد کے بعد صحافیوں کا بھی برا وقت شروع ہو چکا ہے ،اگر ایک اینکر یا صحافی ن لیگ کی حمایت کرتا ہے گا تو کھلاڑی اُس کاجینا حرام کر دیتے ہیں بلکہ اُس کو توپ کے کنارے بیٹھا کر فائر کرنے سے بھی دریغ نہیں کرتے۔

دوسری طرف اگر کوئی صحافی پی ٹی آئی کے حق میں بات کرتا ہے تو ن لیگ والے اُسے بکاؤ اور سازشی قرار دے دیتے ہیں۔ آپ کسی سنےئر صحافی کی آب بیتی پڑھ لیں آپ کو غربت افلاس کے علاوہ کچھ نظر نہیں آئے گا اُن کے پاس بڑی بڑی گاڑیاں نہیں تھیں بنگلے بینک بیلنس نہیں تھا ہاں مگر عوام میں اُن کی عزت بہت تھی اُن کی کہی ہوئی بات پر یقین کیا جاتا تھا ۔ لوگ اخباروں میں چھپی ہوئی بات کو سچ مانا کرتے تھے۔

پھر وقت نے کروٹ لی صحافیوں کا رہن سہن بھی سیاستدانوں جیسا ہو گیا، گاڑیاں بنگلے ، گارڈ اور کروڑوں کی آمدنی مگر افسوس موجودہ صحافیوں میں سے کم کم لوگ ہی ہیں جن کی خبر پر لوگ یقین کرتے ہوں بلکہ برملا ان کو چور اور بکاؤ مال کہتے ہیں عوامی سطح پر ان کی ٹکے کی عزت نہیں خبروں کو مسالہ لگا لگا کر تبصرہ کرتے پائے جاتے ہیں۔ رات کو اپنے اپنے شوز میں چند نمونوں کو اکٹھا کر کے لوگوں کی پگڑیاں اُچھالنا ان کا معمول ہے۔

صحافیوں کا کام ہے خبر دینا نا کہ خبر بنانا مگر ہمارے صحافی حضرات ہر وقت خبر بنانے کے چکر میں رہتے ہیں کسی کا بھی جعلی فیس بک یا ٹیوٹر کا اکاونٹ پکڑتے ہیں اور اُسکی بریکنگ نیوز بنا کر چلا دیتے ہیں۔ ایسے صحافی ملک و قوم کی خدمت کرنے کی بجائے اُس کو نقصان پہنچا رہے ہیں۔ پاکستان فوج پر بلا روک ٹوک تنقید کرنا یہ اپنا پیدائشی حق سمجھتے ہیں۔

ملکی معاملات میں دخل اندازی کرنا ان کے لیے عام سی بات ہے۔ ایک خبر کو اتنی وفعہ چلاتے ہیں کہ لوگ بور ہونا شروع ہو جاتے ہیں۔ سنا ہے آجکل کے صحافی پکنچر لگانا بھی سیکھ گئے ہیں کیونکہ ان پنکچر کے متبادل اُن کو بہت بڑئے بڑئے عہدے عطا کے جاتے ہیں۔ کہا جاتا ہے کہ صحافت کرنا صحافی کا کام ہے اور سیاست کرنا سیاستدان کا مگر اپنے ہاں تو گنگا ہی اُلٹی بہہ رہی ہیں یہاں اب صحافی حضرات صحافت کے ساتھ ساتھ سیاست بھی کرتے ہیں اور سیاستدان سیاست میں گھس آئے ہیں۔


پاکستان کے میڈیا کو آزاد ہوئے ابھی اتنا عرصہ نہیں ہوا اگر ہمارے میڈیا کا یہی وطیرہ رہا تو وہ وقت دور نہیں جب ان کی آزادی خطرے میں پڑ جائے گی۔ اب تو مسخرئے بھی صحافتی میدان میں اُتر آئے ہیں۔ وہ لوگ جن پر تھیٹر میں فحاشی کی وجہ سے پابندیاں لگا کرتی تھی آجکل میڈیا پر بیٹھ کر بونگیاں مار رہے ہوتے ہیں۔ صحافت ایک سنجیدہ کام ہے اس میں طنز و مزاح کا بھی عمل دخل ہے مگر اخلاق کے دائرے میں لیکن پتا نہیں کہاں کہاں سے میراثی اُٹھا کر لے آتے ہیں جو اپنی زومعنی گفتگو سے لوگوں کو محظوط کرنے کی بے ڈھنگی سی کوشش کرتے نظر آتے ہیں۔

علم و دانش صحافت کی پہنچان ہے لیکن جاہل قسم کے لوگوں کی بھی بھرمار ہے آجکل صحافت میں۔ پورئے پورئے کالم اپنی اپنی سیاسی جماعتوں کے حق میں لکھ دیے جاتے ہیں۔ تمام کے تمام چینلز اور اخبارات صرف سیاسی صحافت کرتے دیکھے جاتے ہیں معاشرتی معاشتی اور اخلاقی صحافت ناپید ہو چکی ہے۔ پہلے صرف صحافی ہی سیاستدانوں اور بیوروکریٹس کی کرپشن کی داستانیں سنایا کرتے تھے مگر اب تو سیاستدان اور بیوروکریٹس بھی صحافیوں کی کرپشن کی داستانیں سنانے لگے ہیں۔

بہت سے صحافی ایسے ہیں جو موجودہ حکومت کی طرف سے مختلف عہدوں پر فائز ہیں۔تو کیا مراعات لینے والے صحافی کبھی غیرجانبدار ہو سکتے ہیں۔ سنا تھا صحافت غریب تو ہوسکتی ہے مگر بکاؤ نہیں مگر موجودہ دور میں تو لگتا کہ ملک میں صحافت صرف بکاؤ ہے۔ پہلے صحافی خبر یا تجزیہ دے کر فیصلہ عوام پر چھوڑ دیتے تھے کہ وہ اپنی اپنی سوچ کے مطابق فیصلہ کریں مگر اب تو صحافی ،کالم نگار اور اینکر حضرات فیصلہ بھی سنانے لگ گئے ہیں۔

ہم نے یہ بھی پڑھا تھا کہ جب کسی کے خلاف کوئی خبر ہاتھ لگے تو اُس کا موقف بھی لازمی شامل کرنا چاہیے کہ یہی حقیقی صحافت کی پہچان ہے۔ لیکن آجکل خبر دے کر کہ دیا جاتا ہے کہ "جب اُن سے رابطہ کیا گیا تو وہ موجود نہیں تھے"اور ساتھ ہی خبر دے دی جاتی ہے بندہ پوچھے اگر وہ ابھی موجود نہیں تو بعد میں موقف لے کر شامل کرکے ہی خبر لگائے۔ جب خبر آجاتی ہے تو اگلے دن جناب کا موقف سامنے آجاتا ہے تب تک لوگ اپنا ذہن بنا چکے ہوتے ہیں۔

لہذا اگر ہم نے پاکستانی صحافت میں سے کرپٹ عناصر کو باہر نہ کیا تو جو ٹھوری بہت عزت بچی ہے وہ بھی نا رہے گی۔ اور یہ کام کسی عدالت یا ادارئے کے کرنے کا نہیں بلکہ صحافیوں کے خود کے ہی کرنے کا ہے کہ ایسے لوگوں کو نکال باہر کریں۔ تاکہ پاکستان عوام کا صحافت پر اعتماد بحال ہو سکے۔ یہاں تو یہ صورتحال حال ہے غیرملکی میڈیا میں جو خبر آئے لوگ صرف اُسے ہی سچ مانتے ہیں اوراپنے ملک کے میڈیا پر یقین نہیں کرتے۔ ہمیں ایسی صورتحال کو ختم کرنا ہوگا اور عوامی اعتماد بحال کرنا ہو گا

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :