جب شہرت کا چاند گہناجائے

اتوار 31 اگست 2014

Muhammad Saqlain Raza

محمد ثقلین رضا

شہرت ایک ایسی بیماری ہے جو کسی کو لگ جائے تو پھر جان لے کر ہی چھوڑتی ہے'حالانکہ یہ ایک ایسا لطیف سا احساس ہے جسے اگر مثبت اندازسے دیکھا جانچا'پرکھا اورنمٹا جائے تو فوائد بھی بے شمار ہیں لیکن اگر انسا ن اپنے آپے میں نہ رہے اور اپنی اوقات سے باہرنکلنے لگے تو شہرت کا چاند گنہا بھی سکتاہے ۔ یوں تو ''وتعزمن تشا وتزل من تشا'' کے مصداق عزت ذلت خداوند قدوس کے ہاتھ میں ہے اوروہی کسی کوذلیل کرتاہے اورکسی کو نظروں میں معتبر ٹھہراتاہے ' لیکن ایک عجیب سی بات ہے کہ خدا کی طرف سے منفرد ٹھہرائے جانے والے بندے جب اپنی حد سے باہر نکلتے ہیں تو پھر ان کے رویوں 'چال ڈھال ایک نمایاں فرق واضح دکھائی دیتاہے ۔

یہاں یہ نقطہ توجہ کا طالب ہے کہ کسی بھی شعبہ میں انفرادیت کاحامل فرد یاافراد ہی شہرت کی بلندیوں پر پہنچتے ہیں تاہم صلاحیتوں کے اعتبارسے کچھ '' کم ''لوگ بھی بعض اوقات بہت زیادہ باصلاحیت لوگوں سے بہت آگے نکل جاتے ہیں اس میں بھی نیتوں کا عمل دخل ضرور ہوتاہے کہ زمین پرپڑا پتھر جب تک کھسکایانہیں جائیگا اس کے وزن کا کسی کو پتہ نہیں چل سکتا وہ بے جان اور حرکت نہ کرنے والا پتھر ہی رہے گا جونہی اسے کھسکانے یاہلانے کی کوشش کی جائے گی تو راز کھلے گا کہ وہ اپنا وزن بھی رکھتاہے۔

(جاری ہے)


یہ طویل ابتدائیہ ہے ان شہرت گروں کے لئے جن کی شہرت کا سورج ابھی گہنا رہاہے یا گہنا چکا ہے ' وہ جو کہتے ہیں کہ کسی بہت زیادہ مشہور آدمی سے اگر دولت چھن جائے تو اسے پرواہ نہیں ہوتی کہ وہ اپنی شہرت کے بل بوتے پر پھر دولت کما لیتاہے ' دوست احباب بھی نئے مل جاتے ہیں لیکن جونہی شہرت چھن جائے تو نہ دولت رہتی ہے اورنہ ہی یار دوست ' ہم نوالہ ہم پیالہ لو گ بھی محفل چھوڑجاتے ہیں حتی کہ سلام تک لینا گوارہ نہیں کرتے۔

ایسا کچھ سبھی شعبوں میں ہوتاہے لیکن شوبز کا شعبہ اتنا ظالم ہے کہ یہاں کے لوگ اپنی ''طوطاچشمی'' کی وجہ سے ہی زیادہ شہرت کے حامل ہیں یا یوں کہاجاسکتاہے کہ شوبز وہ انڈسٹری ہے جو فنکار اداکار ' تخلیق کار کے جسم سے اس کا رس چوس لیتی ہے اور پھر جب وہ خالی خول کی طرح رہ جاتاہے تواسے بے آسرا چھوڑدیاجاتاہے۔ تاہم یہاں ایک انفرادیت بھی ہے کہ شوبز کی فنکارائیں اپنے آپ کو زندہ رکھنے کیلئے طرح طرح کے جتن کرتی دکھائی دیتی ہیں حالانکہ عمر کے اعتبار سے اگر ''چونچلے'' کئے جائیں تو کچھ بھلے لگتے ہیں لیکن اگر عمر رفتہ کو آواز لگاتے لگاتے اگر خود کو نوجوان سمجھ لیا جائے جس طرح کہ ملکہ پکھراج کہاکرتی تھیں ''ابھی تو میں جوان ہوں'' ایسا ہی کچھ رویہ فلم انڈسٹری کی فنکاراؤں میں پایاجاتاہے۔

ماضی کو دہرانے کا یوں بھی فائدہ نہیں ہے کہ زمانہ موجود کی نسل شاید ایسے لوگوں سے واقف ہی نہ ہو کہ فی الوقت ابرار الحق ' شہزاد رائے' راحت فتح علی خان' علی ظفر 'وینا ملک ' میرا قسم کے لوگوں کاراج ہے اوران تمامی کو شہرت بھی خوب ملی کہ پڑوسی ملک بھارت نے کیش تو کرایا لیکن ان کی جب واپس آئے تو شہرت کاپرندہ اڑن چھوہوچکاتھا۔
اب ہم وینا ملک کی بات یوں بھی نہیں کرسکتے کہ بھارتی فنکارائیں بھی اعتراض اٹھانے لگی ہیں کہ محترمہ جس قسم کا کلچر یہاں متعارف کرانے کی کوشش کررہی ہیں وہ بھارتی نوجوان نسل کوتباہ کردے گی۔

وہ جس انداز میں اشمیت کے ساتھ لپٹا لپٹی کرتی ہیں اور وہ چاہتی ہیں کہ یہ مناظر ٹی وی چینلز بھی دکھائیں تو ایسا ہوناممکن نہیں کہ اب بھارت کے لوگ بھی ایسے مناظر سے عاجز آچکے ہیں اوران کی خواہش ہے کہ مثبت موضوعات کو سامنے رکھ کر فلم بنائی جائے یا چھوٹی سکرین پر پیش کئے جانے والے ڈراموں میں حقیقت کو پیش کیاجائے۔
بہرحال میرا کو دیکھ لیں تو بیچاری نے پاکستانی فلم انڈسٹری کی زوال پذیری کو دیکھتے ہوئے دنیا کی دوسری بڑی فلم انڈسٹری یعنی بالی وڈ میں قدم جما نے کی کوشش تو کی لیکن صلاحیتوں میں کمی اورنیت میں کھوٹ راستے کی رکاوٹ بن گئی حالانکہ میڈم میرا نے جسمانی نمائش کے وہ ریکارڈ بھی توڑ دئیے جو بھارتی فنکاراؤں کی دستر س سے رہ گئے تھے۔

اب جبکہ بھارت میں دال نہ گلی تو اب انہوں نے ڈھلتی عمراور زوال پذیرہوتی شہرت کو سنبھالنے کیلئے دوسرے ہتھکنڈے استعمال کرنا شروع کردئیے ہیں مثال کے طورپر وہ شعیب اختر کیساتھ سکینڈلز کے ذریعے شہرت کے گہنائے سورج کو دوبارہ عروج پر لے جاناچاہتی ہیں حالانکہ ایسا ہونا اس لئے بھی ممکن نہیں رہا کہ شعیب اختر بھی اب ماضی کی دھول میں گم ہوتے جارہے ہیں ان کی شہرت کااثر کچھ نہ کچھ باقی تو ہے لیکن وہ اتنا اثرپذیرنہیں ۔


شعیب اختر بھی اکھڑمزاجی کے حوالے سے مشہور رہے ' پاکستان کرکٹ بورڈ کی انتظامیہ بہت چاہنے کے باوجود ان کے روئیے کودرست نہ کرسکی۔ اوراب یہ عالم ہے کہ بے شمار تجربات کے باوجود شعیب کاکیرئر اختتام کو پہنچ گیا۔
یہاں ہمیں رنگیلا مرحوم یاد آجاتے ہیں جو اکثرکہاکرتے تھے کہ ''شہرت بڑی بھیہڑی شئے ہے'' اسی طرح شہرت کے بعد کسمپرسی کاشکار فنکار بھی ایسی ہی رائے کا ظہارکیاکرتے تھے۔

اس معاملے میں مرد فنکاروں کی بڑی تعداد آخری عمر میں علاج معالجہ کی سہولت سے محروم دکھائی دیتی ہے کہ پھر حکومتی سطح پر کوئی امداد نہ ہوتو ان کی موت سرکاری ہسپتالوں میں ہوتی ہے اس معاملہ میں خواتین فنکاراؤں کو کچھ نہ کچھ ''ایڈوانٹیج '' ضرور ہے کہ وہ کوئی نہ کوئی راستہ ضرور تلاش کئے رکھتی ہیں۔
ایک عجیب سی بات ہے 'ماضی کے ایک فنکارکہاکرتے تھے کہ دوسرے ممالک میں تجربہ کار فنکاروں 'فنکاراؤں سے فائدہ اٹھایاجاتاہے اورہمارے ہاں تجربہ کار فنکاروں کوگھر بٹھادیاجاتاہے خیر یہ تو بحیثیت قوم ہمارا رویہ بن چکاہے کہ جس درخت کو سینچنے 'سنوارنے اور پھر پھلدار بنانے کیلئے ساری عمر گزاردیتے ہیں پھرجب وہ ثمرآور ہونے لگتاہے توہم اسی کی جڑیں تک کاٹ ڈالتے ہیں ۔

تاہم یہ بحث اپنی جگہ قائم رہے گی کہ شہرت کا چربی جب آنکھوں پر آجائے توپھر انسان کو اپنے سواکچھ دکھائی نہیں دیتااورجب ایسا ہوجائے توپھر سمجھ لیاجائے کہ زوال کاسفر شروع ہوچکا ' وہ جو کہتے ہیں کہ ''ہرعروج کو زوال ہے'' یقینا یہ نوشتہ دیوار بھی ہے ان لوگوں کیلئے جو شہرت کو قائم دائم رہنے والی شئے تصورکرتے ہیں حالانکہ سیانے کہہ چکے کہ شہرت وہ بے وفا پرندہ ہے جو کبھی کسی دیوار پر اورکبھی دوسری دیوار پر جابیٹھتاہے۔


رہی بات سیاسی شہرت یافتہ فنکارو ں یا اسی شعبہ سے متعلقہ ان لوگوں کہ جو ساری عمر ”ٹامک ٹوئیاں“ مارتے مارتے سیاسی سمندر میں ہی ڈوب جاتے ہیں مگر شہرت کاچاند ابھر نہیں پاتا لیکن شاید دنیا کا یہ واحد شعبہ ہے کہ جہاں ”ریٹائرمنٹ“ کاسوال ہی پیدا نہیں ہوتا‘ سیاستدان پیدائشی ہی سیاستدان ہوتاہے اورجب موت کا فرشتہ سر پرآن کھڑاہو تو اس وقت بھی سیاستدان ‘سیاستدان ہی ہوتاہے۔

بہرحا ل یہ واحد شعبہ ہے کہ جس کے کھلاڑیوں کا شہرت کے گہنا جانے یا زوال پذیرہونے کا کوئی ملال نہیں ہوتا اورحقیقی معنوں میں وہ اس شعر کی عملی تفسیر بنے دکھائی دیتے نہیں
بدنام جو ہونگے تو کیا نام نہ ہوگا
ملک خداداد پاکستان بھی انہی دنوں ایسے ہی حالات سے دوچار ہے کہ جو جتنا بدنام ہوا وہی اتنا بڑاسیاسی کھلاڑی بھی‘ بہرحال ان دنوں بھی جس کسی سیاسی کھلاڑی کی شہرت کا چاند گہنا بھی جائے تو وہ بضد رہتاہے کہ وہ عوام میں بیحد مقبول ہے۔اورپھر اسی زعم میں اپنی زندگی بتادیتاہے۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :