پاکستان سے موروثی سیاست کا خاتمہ

جمعہ 29 اگست 2014

Khursheed Uz Zaman Abbasi

خورشیدالزمان عباسی

پاکستانی ریاست کے وجود کی تقدیر اگر چہ اللہ تعالیٰ نے لکھی ہے ۔ مگر اس کی سیاسی سماجی اور معاشرتی تقدیر نہ جانے کہاں لکھی جاتی ہے جب بھی ملکی نظام سیاست کی تبدیلی کا وقت آتا ہے تو کاتب تقدیر نہ جانے فوری طور پر اپنا فیصلہ کیوں تبدیل کر دیتا ہے ہمارے ریاستی مسائل میں آمریت اور جمہوریت کی معرکہ آرائی کی گہناونی داستان نے ہمیں داخلی اور خارجی محاذ پر کس مقام پر کھڑا کر رکھا ہے ایک الگ موضوع بحث ہے ہمارے سیاسی ماہرین جمہوریت جمہوریت تو کرتے ہیں آخر جمہوریت ہمیں راس کیوں نہیں آتی ذاتی انا پسندی ہماری معاشرے میں ہر چیز پر غالب کیوں آجاتی ہے ۔

لفظ میں ہماری ہاں صرف ذاتی انا پسندی کی بنیاد پر بولا جاتا ہے ایک عام شہری سے لے کر حکمرانوں تک ہر انسان صرف اپنی ہی رائے کو حتمی اور خود کو اپنے آپ میں مکمل انسان خیال کرتا ہے جبکہ مغرب میں لفظ میں کا استعمال انفرادی اور اجتماعی خود اعتمادی کی بنیاد پر استعمال کیا جاتا ہے غربت اور بے روز گاری کے خاتمہ کی بات ہماری ہر سیاسی جماعت کے منشور کا حصہ ہے مگر ملک سے جہالت کے خاتمے کا کوئی ہنگامی پلان ہماری کسی سیاسی جماعت کی اولین ترجیح کیوں نہیں آج 67 برس گذر جانے کے بعد بھی ایک عام آدمی کہاں کھڑا ہے درحقیقت ریاست پاکستان کی اصل نا کامی موروثی نظام سیاست نے ایک عام پاکستانی سے اُسکا تعلیمی حق چھین رکھا ہے اور اسی بنیاد پر پاکستان کے شہریوں کو جب بھی کوئی سیاسی شعبدہ باز چاہتا ہے اپنے ذاتی مقاصد کے لیے آلہ کار بنا لیتا ہے یُوں غربت اور جہالت زدہ ذہن ان سیاسی زعماء کے ذاتی مقاصد کی بھینٹ چڑ جاتا ہے اور ستم بالائے ستم کے ہمارے ان سیاستدانوں نے پاکستانی عوام کی تعلیمی خوشحالی کا یہ ثبوت دیا ہے کہ اپنے ملک کا تعلیمی نصاب بھی نہ جانے کس کی ایماء پر تبدیل کر رکھا ہے ۔

(جاری ہے)

پاکستان سے غربت اور بے روز گاری کو اولین مسئلہ قرار دیکر حقیقی مسئلہ تعلیم نہ جانے کہاں دفن کیا جا چُکا ہے اور یہی ہے موروثی نظام سیاست کا اصل راز اگر ہم افغانیوں کی طرح ایٹم بم گرانے والے جنگی جہازوں کو بندوق سے مار گرانے کی پالیسی اپنائیں گے تو ہمارا انجام اُن سے کہیں زیادہ بدترین ہو گا گویا ہمارے ملک میں تعلیم کو عام آدمی سے اس قدر دُور کر دیا گیا جیسا ادویات کی بوتل پر لکھا ہوتا ہے کہ تمام دوائیں بچوں کی پہنچ سے دُور رکھیں ہمارے ہماں جو بھی آکسفورڈ سے پڑھ لکھ جاتا ہے وہ ملک کا وزیر اعظم بننا کیوں پسند کرتا ہے اور یہی نہیں بلکہ موروثی نظام سیاست نے جہاں عام شہریوں کو تعلیم سے دُور کر دیا وہاں اعلیٰ تعلیم یافتہ افراد کو ایک سازش کے تحت ملکی معاملات میں حصہ لینے سے دوہری شہریت کو بنیاد بنا کر کھڈے لائن لگا دیا میرا اشارہ صرف ان اعلیٰ تعلیم یافتہ پاکستانیوں کی جانب ہے جو حقیقی معنوں میں ملک کی خدمت کرنا چاہتے ہیں اور ملک کے ناساز گار حالات نے اُنہیں بیرون ممالک آباد ہونے پر مجبور کر رکھا ہے ہمارے ملک میں اور ملک سے باہر بسنے والے بے شمار اعلیٰ تعلیم یافتہ پاکستانی ہیں جن کے پاس ملک کی تقدیر بدلنے کا قومی پلان موجود ہے مگر پاکستانی موروثی سیاست نے ان کے لیے بھی ایک مربوط قفل لگا رکھا ہے یاد رہے کہ بیرون ملک بسنے والا ہر پاکستانی طاہر القادری نہیں ہے اور اگر اعلیٰ تعلیم یافتہ پاکستانیوں کو ملکی خدمت کا موقع دیا جائے تو وہ اس طرح خطرناک ثابت نہیں ہوں گے جس طرح ملکی موروثی سیاست دان بیرونی طاقتوں کا آلہ کار بن کر پاکستان کو روز بروز تباہی کے داہنے کی جانب دھکیل رہے ہیں بہر حال یہ ایک آپشن ہے کوئی حتمی پلان نہیں اصل مقصد ریاست کے نظام کو بہتر بنانا ہے جو گذشتہ 67 برس سے درد سر بن چُکا ہے آج کل عمران خان نے اس نظام کی بہتری کا ٹھیکہ لے لیا ہے اور ان کے پاس ملکی نظام کو بہتر کرنے کا ایک ٹھوس پلان ہے یا نہیں بحر حال وہ ریاستی نظام کو اوپر سے نیچے کی جانب درست کرنے کے مقاصد رکھتے ہیں وہ اس کام میں کتنے کامیاب رہیں گے اس کا دُور دُور تک کوئی دیر گیر مقصد ہر پہلو سے پرکھنے کے باوجود دکھائی نہیں دیتا اگر چہ ان کی وجہ اختلاف بھی بظاہر موروثی سیاست ہی ہے مگر بہتر حکمت عملی کے بغیر ایسا کیسے ممکن ہو گا ۔

میری ذاتی رائے میں جہالت کے خاتمہ کی بہتر حکمت عملی اور ملک میں مروجہ قوانین میں موثر تبدیلی اور اُن قوانین کا بہتر اطلاق کیئے بغیر یہ سب کچھ کیسے ممکن ہو سکتا ہے اور اگر کسی طرح ہم ان موروثی سیاستدانوں کو اقتدار سے الگ بھی کر دیں تو برس ہا برس سے عوام میں پھیلی ان کی موروثی مقبولیت کا کیا حل نکالیں گے ایک موروثی نہیں کئی موروثی سیاست کی نسلیں کیسے ختم کریں گے آج آپ دس بیس ہزار افراد کے ساتھ ان کے خلاف جدوجہد کر رہے ہو عمران خان کل کو یہ آپکے ساتھ بھی ایسا کریں تو اُسکا کیا حل ہو سکتا ہے ان کی شناساہی تو بین الاقوامی دُنیا تک ہے اور اس حقیقت کا بھی سب کو علم ہے کہ پاکستان کو داخلی اور خارجی محاذ چلانے والی قوتیں کون ہیں یہ سب کچھ اُسی وقت قابل عمل ہو سکتا ہے موثر طریقے سے جب ایک انفرادی پاکستانی کی ذہنی دھلائی سے کام شروع کیا جائے اور یہ اسی وقت ممکن ہو سکتا ہے جب جہالت کے خاتمہ کے لیے ایک عام آدمی سے آغاز کیا جائے اور یہ کام ایک امام مسجد کے تعاون سے ممکن ہے جو کبھی ممکن ہوتا نظر نہیں آتا لہذا پاکستان سے موروثی سیاست کا خاتمہ ایک انتہائی مشکل کام دکھائی دیتا ہے۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :

متعلقہ عنوان :