سازشیں کیسی گناہ گار کون؟؟؟

بدھ 27 اگست 2014

Kashif Hussain Aakash

کاشف حسین آکاش

کچھ بھی لکھنے سے پہلے میں مالکِ کائنات، خدائے برحق و لائق ِعبادت اللہ عزوجل کی پناہ چاہتا ہوں شیطان مردُود سے جو ازل سے ابد تک میرے جدِّ امجد اور میرا کھلادشمن ٹھہرا۔
پوری دنیا میں مسلمانوں کے خلاف سازشوں کا چرچہ زبانِ زدِ عام ہے، بہتوں کہانیاں گھڑی جا رہی ہیں اور الزامات کا دائرہ وسیع سے وسیع تر ہوتا نظر آ رہا ہے۔ اعلیٰ افسران سے لے کر ریڑھی بان تک پریشانیوں میں مبتلا ہیں۔

کسی کو سکون کا ایک لمحہ بھی میسر نہیں لیکن بدقسمتی سے ہم نے ان معاملات کو جاننے کی کوشش ہی نہیں کی جو معاملات ہمارے لیئے باعثِ پریشانی ہیں بلکہ ہم نے تو رنج و مصیبت کو سازش کا نام دے کر تحقیق کی زحمت سے بچنے کی غرض سے خودی کو خسارے میں ڈال لیا۔
ہماری عقل یہ جاننے سے قاصر ہے کہ خالقِ کائنات کو یکتاؤ لا شریک جاننے والے مذہب کے لوگ پریشانیوں کے دہانے پہ کیسے؟
محمدِ عربی ﷺ کے پیروکار جو لگ بھگ چودہ سو سال پہلے دنیا میں ایک بہترین قوم بن کر ابھرے
آج پسپائی کے منہ میں کیسے ؟؟؟
اگر حقیقت پہ غور کریں تو ہمیں معلوم ہو گا کہ ہمارے پیارے نبی نے تنِ تنہا کس طرح ظلم و ستم کا مقابلہ کیا ، کس طرح یہود و نصاریٰ اور کفار پہ غلبہ حاصل کیا ، کس طرح فتح عظیم سے ہمکنار ہوئے ؟؟؟
ان ساری باتوں کا جواب صرف اور صرف علمِ مقدس ہے۔

(جاری ہے)

حالانکہ آ پ نے کسی یونیورسٹی سے پی۔ ایچ۔ڈی۔ یا دیگر تعلیمات حاصل نہیں کی تھیں لیکن پھر بھی کامیابی آپ کے قدم چومتی نظر آئی کیونکہ آپ نے تو علمِ عظیم سیکھا تھا جو دنیا بھر کے تمام علوم سے بہترین اور باعثِ ترقی و راحت ہے۔
یہاں یہ کہنا بے جا نہ ہو گا کہ دنیا کے بیشتر قوانین آپ کے بتائے ہوئے اصولوں پر آج بھی قائم ہیں
اگر تحقیق کریں تو ہمیں معلوم ہو گا کہ1892ء میں جب بانی پاکستان قائد اعظم محمد علی جناح  علمِ قانون حاصل کرنے کی غرض سے لندن تشریف لے گئے تو لنکز ان ( Lincoln's Inn) یونیورسٹی کا انتخاب کرنے کی ایک اہم وجہ یہ بھی تھی کہ وہاں پر حضرت محمد ﷺ کا نامِ مبارک دنیا کے بہترین قانون بنانے والوں میں سب سے نمایاں لکھا ہوا تھا۔


اور اگر تحقیق کا دائرہ مزید بڑھائیں تو ہمیں معلوم ہو گا کہ 1935ء میں امریکن سپریم کورٹ (American Supreme Court) نے بھی آپ کی ہستی مبارک کا دنیا کے سب سے بہترین قانون بنانے والوں میں نمائیاں طور پر اعتراف کر لیا۔
آخر کار یہ کیسا علم ہے ؟ کیوں آپ کے دشمن بھی آپ کو صادق و امین گردانتے تھے اور رہتی دنیا تک جانتے رہیں گے انشااللہ۔
جب بات اس جانب نکل ہی پڑی ہے تو کیوں نہ اس حقیقت سے بھی پردہ اٹھاتے چلیں۔


علم کی شروعات تو بنی نوع انسان کے معرضِ وجود میں آنے سے پہلے ہی وقوع پذیر ہو چکی تھی البتہ جب رحمٰن و رحیم نے آدم  کو علم بخشااور زمین میں اپنا نائب مقرر کیا تو شیطان کی سر کشی کو مخلوقات پہ عیاں کر دیا یہی تھا وہ بھیانک اختلاف جس نے شیطان کو تو ذلیل کیا سو کیا اور ساتھ ہی بہتوں گھناؤنی سازشوں سے بھی پردہ اٹھا دیا، جسے خدائے عظیم کلام اللہ میں فرشتوں کو مخاطب کرتے ہوئے فرماتا ہے۔


” میں زمین میں اپنا نائب بنانے والا ہوں تو فرشتوں نے عرض کیا ائے رحمٰن و رحیم ہمیں معاف کیجو کیا ایسے شخص کو نائب بناؤ گے جو زمین میں فسادات اور کشت و خون کرتا پھرے حالانکہ ہم تیری تعریف کے ساتھ تسبیح و تقدیس کرتے رہتے ہیں“
اللہ باری تعالیٰ نے ارشاد فرمایا! میں ہر چیز سے خوب واقف ہوں جن کا تم کو ہر گز علم نہیں ہے۔
اب چونکہ ابلیس کو لعین قرار دے دیا گیا تو اس نے خدائے کائنات سے مہلت مانگی کہ میں روزِ محشر تک تیرے اشرف المخلوقات کو زمین میں اتنا الجھا دوں گا کہ یہ علمِ حقیقی سے دور بھاگنے پہ مجبور ہو جائیں گے اور میرے پیروکاروں میں گروہ در گروہ شامل ہوتے جائیں گے۔


چنانچہ رب تعالیٰ نے شیطان کو مہلت دے دی اور فرمایا تیرا انجام تو دوزخ کی بد ترین سزائیں ہیں اور جو تیری طرح غرور و سرکشی میں مبتلا ہوں گے اور زمین میں فساد پھیلائیں گے تو وہ بھی تیرے ساتھ جہنم کی سزاؤں کے مستحق ہوں گے البتہ جو میرے بتائے ہوے علم کے مطابق زندگی بسر کریں گے ، مجھ سے معافی مانگتے رہیں گے اور زمین میں بھائی چارے کی فضاء قائم کریں گے تو ان کے لیئے جنت کی عمدہ ترین آسائشیں اور بلند و بالا مرتبات ہونگے دراصل یہی تو وہ مقام تھا جہاں انسان اور شیطان کو ایک دوسرے کا کھلا دشمن قرار دے دیا گیا۔


المختصریہ کہ اللہ پاک نے انسان کی ہدایت و رہنمائی کے لیے تقریباً ایک لاکھ چوبیس ہزار انبیاء کرام  کو منتخب کیاجنہوں نے ہمیں دنیا میں رہنے کی تعلیمات دیں اور شیطان مردود کے تشکیل کردہ غلیظ ترین راستے سے بچنے کا درس دیالیکن بد قسمتی سے حضرتِ انسان نے پیغمبروں  کے دنیا سے وصال کر جانے کے بعد یا پھر پیغمبروں  کو دنیا میں ہی قتل کر کے علمِ رحمٰن کے بجائے علمِ شیطان کو گلے لگا لیااور خسارے کی جانب چل نکلے ، ظلمت کا بازار گرم کرتے رہے اور اپنے ہی اعمالوں کی وجہ سے دنیا کو تباہ و برباد کرنے میں پیش پیش تھے جس کی وجہ سے سخت عذاب میں مبتلا ہوتے رہے۔


چونکہ پانچ انگلیاں برابر نہیں ہوتیں اسی طرح جب کمزور و بے بس انسانوں نے اللہ تبارک و تعالیٰ سے مدد مانگی تو خدائے مطلق و حقیقی نے ہمیشہ کی طرح اولادِ آدم کی رہنمائی فرمائی اور حضرت محمدِمصطفی ﷺ کو بطور آخری نبی دنیا میں بھیجا تاکہ ایک بار پھر ظلم و ستم کا خاتمہ کیا جا سکے پہلے تو انبیاء کرام  کو مخصوص شہروں اور قصبوں میں منتخب کیا جاتا رہا تھا لیکن آپ کو رحمت اللعالمین کا خطاب دیا گیاکیونکہ آپ کے بعد نبوت کا سلسلہ مکمل طور پر ختم ہو جاتا ہے اور زمانہ مستقبل میں نزدیک یا دور میدانِ حشر برپا ہونے والا ہے۔


آپ نے تمام انسانوں کو تعلیمات دیں ، ان کی زندگی کے ہر شعبہ میں رہنمائی فرمائی اور یوں اولادِ آدم کو ایک بار پھر ایک عمدہ ترین رہنما سے تعلیمات حاصل کرنے کا نہ صرف موقع ملا بلکہ امتِ محمدی ایک بہترین قوم بن کر ابھرے اور دیکھتے ہی دیکھتے پوری دنیا میں سب سے بڑی اسلامی ریاست قائم کر لی گئی جو زندگی کے ہر شعبہ میں تمام دوسری قوموں اور مزاہب کے مقابلے میں نمائیاں حیثیت کے حامل تھے۔


لیکن مجھے نہائت افسوس کے ساتھ کہنا پڑ رہا ہے کہ ہم نے بھی پچھلی قوموں کی طرح اپنا مقام و مرتبہ کھونا شروع کر دیا جس کی مثال پوری دنیا میں سب سے بڑی حکمران امتِ مسلمہ آج ٹکڑوں میں بٹتی نظر آ رہی ہے اور یہاں یہ کہنا ہر گز غلط نہ ہو گا کہ ہمیں یہود و نصاریٰ اور کفار کی سازشوں سے نہیں بلکہ اپنے ہی مسلم ممالک سے خطرات لاحق ہیں، ہم برادر ممالک ہی ایک دوسرے کو تباہ و برباد کرنے کی منصوبہ بندیوں میں لگے ہوئے ہیں۔


یہ تو ہونا ہی تھا کیونکہ ہم جانتے بوجھتے بھی تعلیماتِ ربانی کو نہ صرف بھلانے کی کوششوں میں لگ گئے بلکہ ہم تو شیطان کے مکروفریب اور دھوکہ دہی کے راستہ کی جانب چلتے جا رہے ہیں اور اگر ہمارے اعمال جوں کے توں رہے اور ہم نے تعلیمات ِ ربانی سے دوری اختیار کیے رکھی تو اس میں کچھ شک نہیں کہ ہم بہت جلد ایک غلام قوم کی حیثیت سے زندگی گزارنے پہ مجبور ہو جائیں گے اور سابقہ قوموں کی طرح دنیا میں ذلت و رسوائی ہمارا مقدر ہو گا ہی البتہ آخرت کی بد ترین سزائیں بھی ہمارے انتظار میں ہونگی۔


آخر میں صرف اتنا کہنا چاہوں گا کہ ہم مسلمانوں نے آپسی اختلافات میں بہت خون بہا لیا، بے تحاشہ لاشیں گرا لیں، بہتوں ماؤں کی گودیں اجاڑ دیں، جوان بہنوں کے سہاگ چھین لیے اور غرور تکبر اور ظلم کی انتہا کو پہنچ گئے۔
اب نہیں، خدا کے لیئے مزید تباہی و بربادی نہیں دیکھی جاتی اب ماؤں ، بہنوں اور معصوم بچوں کی چیخ و پکار سننے کی ہمت نہیں رہی اب مزید قبریں کھودنے کی بالکل سکت نہیں ہے۔


اگر کھویا ہوا مقام اور پرسکون زندگی چاہتے ہیں تو اب وقت ہے صرف اور صرف قرآن پاک اور احادیثِ مبارکہ کے مطابق سوچنے ، سمجھنے اور زندگی گزارنے کا۔
یہ وقت دوسروں کو قائل کرنے کا نہیں بلکہ قائل ہونے کا اور مل بیٹھ کر فیصلے کرنے کا ہے۔
یہ وقت پیار، محبت اور یگانگت کا ہے۔ اب امتِ مسلمہ کو صرف اور صرف باہمی یکجہتی کی ضرورت ہے کیونکہ آج بھی تباہ کن حالات کے باوجود امتِ مسلمہ زندگی کے مختلف شعبہ جات میں نمائیاں مقام رکھتے ہیں قدرتی وسائل سے لیکر معدنیات کے ساتھ ساتھ تعلیم اور سائنس کے میدانوں سے جرت دفاع تک اپنا لوہا منوا چکے ہیں۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :