ہم نے پاکستان اُجڑتے دیکھا

بدھ 27 اگست 2014

Hussain Jan

حُسین جان

بچپن میں دادا جی ساری ساری رات ہمیں پاکستان بننے کی کہانیاں سنایا کرتے تھے، اگر ابا جی کبھی غلطی سے اُن کی کسی بات پر اختلاف کرتے تو وہ بہت فخر سے کہا کرتے تھے کہ مجھے سب پتا ہے میں نے پاکستان بنتے دیکھا ہے۔ دادا جی ہمیں کوئی فکشن نہیں سناتے تھے بلکہ جو کچھ اُنہوں نے دیکھا سمجھا محسوس کیا وہی ہمیں بتایا کرتے تھے۔ اُن کا کہنا تھا کہ پاکستان کے بننے کی خوشی میں ہم سارا سارا دن سڑکوں پر ناچتے تھے، اپنے لٹے پٹے بہن بھائیوں کی مدد کرتے تھے۔

پوری پوری ریل گاڑی لاشوں سے بھری ہوتی تھی ہم اُن کی تدفین کا بندوبست کرتے۔ہم اپنے قائد کی ہر بات پر لبیک کہتے کیونکہ ہمیں پتا تھا وہ سچا انسان ہے وہ اپنے عوام سے جھوٹ نہیں بولتا۔ آزادی کے وقت سکھوں اور ہندؤں نے گٹھ جوڑ کر لیا تھا وہ مل کر ہجرت کرنے والے مسلمانوں کا قتل عام کیا کرتے تھے۔

(جاری ہے)

لیکن مسلمانوں کے حوصلے کبھی پست نہیں ہوئے۔

پھر وہ ہمیں پاکستان کے مختلف اداور کی کہانیا ں بھی سنایا کرتے تھے۔ 100سال سے اُوپر زندگی پانے والے ہمارے دادا جی نے پاکستان کو اپنی آنکھوں سے بنتے دیکھا اور اس کے مختلف ادوار کو بھی دیکھا۔ اپنے آخری وقت تک وہ پاکستان سے محبت کرتے رہے ،وہ کوئی لیڈر نہیں تھے کوئی سیاست دان نہیں تھے کہ اپنی اُلاد کو اپنا جانشین مقرر کرجاتے ۔ وہ ایک مزدور تھے بس ہمیشہ یہی کہا کرتے تھے ایک دن یہ حکمران پاکستان کو کھا جائیں گے۔


اور پھر وہی ہوا آہستہ آہستہ اس ملک کو کرپٹ لوگوں نے اپنے مفاد کے لیے نقصان پہنچانا شروع کر دیا،پہلے ملک کا آدھا حصہ ان لوگوں کی انا کی بھینٹ چڑھ گیا باقی ماندہ کو دیمک کی طرح چاٹنا شروع کر دیا گیا۔ ہر حکمران اور اُس کے حواریوں نے اپنی مرضی کے مطابق اس کو لوٹا کھسوٹا اور یہ آج اس مقام پر ہے کہ مستقبل کا کوئی پتا نہیں سیاسی انتشار عروج پر پہنچ چکا ہے۔

کتابوں میں پڑھا ہے کہ ایک وقت میں لوگ شرط لگایا کرتے تھے کہ 20سال بعد پیرس ترقی یافتہ ہو گایا کراچی اور پھر پوری دُنیا نے دیکھا کہ پیرس روشنیوں کا شہر بنا اور ہمارے قائد کا شہر خون میں نہلا دیا گیا۔ کہنے کو ہمارے چار صوبے ہیں مگر یقین کریں پاکستان کے ہر گھر میں الگ صوبہ بنا ہوا ہے۔ ہم ایک دوسرے کو دیکھنا گوارہ نہیں کرتے ہمارے سیاسی عمائدین صوبائیت کے نام پر اپنی اپنی سیاست چمکاتے ہیں۔

لوگوں کو ایک دوسرے کا قتل عام کرنے کی ترغیب دیتے ہیں۔
پھر دیکھتے ہی دیکھتے اس ملک کواندھیروں کے سپرد کر دیا گیا، پوری دُنیا میں ھکومتیں مستقبل کی منصوبہ بندی کرتی ہے کہ آنے والے دور میں ہمارے ملک کی آبادی کا تناسب کیا ہو گیا لوگوں کی کیا کیا ضروریات ہوں گی ، کن کن چیزووں کی رسد میں اصافہ ہو گا ، ہمیں آنے والے وقت کے لیے کون کون سی ٹیکنالوجی کا استعمال کرنا ہو گا۔

کس طرح لوگوں کے مسائل حل کرنے میں مدد ملے گی۔ کتنے کالج یونیورسٹیاں قائم ہونی چاہیے، کتنی بجلی کی کھیپ ہو گی ،گیس کے استعمال میں کتنا اصافہ ہو گا،کتنے ہسپتال ہونے چاہیں تاکہ غریب شہرویوں کا علاج ہو سکے۔ مہنگائی پر کس طرح قابو پایا جاسکتا ہے یہ تمام وہ اقدامات ہے جو پہلے سے ہی سوچ لیے جاتے ہیں مگر ہمارے ہاں اس کا کوئی رواج نہیں جو بھی حکومت آئی اُس نے اپنی باری لی اور لوٹ کھسوٹ کا بازار گرم کیا اور پھر اگلی باری کا انتطار کرنے لگے کہ وہ جانتے ہیں کہ حکومت کے فورا بعد عوام کی یاداشت تازہ ہوتی ہے لہذا پانچ سال بعد پھر ووٹ ہمیں ہی ملنے ہیں تب تک ہمارے پیٹی بند بھائی خوب لوٹ لیں اور یہ سلسلہ ایسے ہی چلتا رہتا ہے اور ملک پستیوں کی طرف گامزن رہتا ہے۔


ہمارے دادا جی کہا کرتے تھے کہ جب ہم نوجوان ہوتے تھے تو کسی کے بھی گھر بلا روک ٹوک چلے جاتے تھے کیونکہ ہم لوگوں میں شرم و حیا ہوتی تھی ہم کبھی کسی کی ماں بہن کو بری نگاہ سے نہیں دیکھا کرتے تھے، سب کی عزت برابر ہوتی تھی جنسی تشدد جیسے الفاظ سے بھی نا آشنا تھے۔ وہ تو یہ کہتے کہتے دُنیا سے رخصت ہو گئے مگر ہم نے دیکھا کیسے بھیڑیے چھوٹی چھوٹی معصوم بچیوں کی عزتوں کو پامال کرتے پھرتے ہیں اور کھلے عام دنددناتے پھرتے ہیں۔

لاہور کی وہ دو سالہ معصوم سمبھل جو اس بے حس قوم کی یاداشت سے مٹ چکی ہو گی کیا اُسے انصاف ملا کیا اُس کے گناہگار پولیس کی پکڑ میں آئے ہمارے وزیر آعلیٰ صاحب جو ہر وقت بھاگتے دورتے نظر آتے ہیں کیا انہوں نے اس بچی کو انصاف مہیا کیا؟
ہمارے دادا جان کہا کرتے تھے جب کبھی کسی ناحق کا خون بہایا جاتا تھا تو لال آندھی چلا کرتی تھی تو سب کو پتا چل جاتا تھا کہ کہیں نہ کہیں کسی بے گناہ کا خون ہوا ہے لیکن اب تو ہر طرف لاشوں کے انبار لگ جاتے ہیں لیکن نہ لال آندھی آتی ہے نہ ہی اندھے حکمرانوں کو آنکھوں کو محسوس ہوتا ہے۔

چوری چکاری عام ہے آئے روز کسی نہ کسی گھر سے ماتم کی آوازیں آتی ہیں، بیج بازار چور ڈاکو دندناتے پھرتے ہیں۔ کوئی اُن کو پوچھنے والا نہیں اور تو اور رکھوالے بھی اُن کے ساتھ مل جاتے ہیں۔ یہی تھا پاکستان جو ہمیں ملا دادا جی شائد سہی کہتے ہوں مگر ہم نے تو اس پاکستان کو ہمیشہ مسائل کی آماجگاہ ہی پایا۔ جہاں غریب و مسکین کی کوئی زندگی نہیں جہاں کوئی حکمران غریب کا آسرا نہیں بنتا، سب کو اپنی اپنی پڑی ہے۔

قبضہ گروپ جس غریب کے مکان پر چاہتاہے اُسے ہتھیا لیتا ہے اورہمارے قومی و صوبائی اسمبلی ممبران اس میں اُن کی معاونت کرتے ہیں۔
میں کچھ دنو ں سے حبیب جالب کی آب بیتی پڑھ رہا ہوں اُس زمانے کا شائد ہی کوئی بڑا نام ہو جو جالب صاحب کو نا جانتا ہوں ۔ بھٹو صاحب سے لیکر ضیاء تک سب نے اُن کو مراعات کا لالچ دیا، اُن کے کئی ساتھی اپنے ضمیر کا سودا کر کے مختلف لوگوں کے ساتھ ملتے رہے مگر آفرین ہے جالب پر وہ نہ کبھی بکا نہ کبھی جھکا۔

لیکن آجکل کے سیاسی حالات سب کے سامنے ہیں تھوڑی سی مراعات کے بدلے بڑئے بڑئے سیاستدان اپنا ضمیر بیج دیتے ہیں اور پارٹیاں بدلتے رہتے ہیں پھر اقتدار میں آکر خوب لوٹ مار مچاتے ہیں۔ جالب جیسے کارکن غریب ہی مر جاتے ہیں جبکہ لٹیرے اربوں روپے اپنے بچوں کے نام چھوڑ جاتے ہیں آج پاکستان تقریبا اٹھارہ ہزار سات سو پچانوے ارب روپے کا مقروض ہے۔

یہ قرض کس نے اُتارنا ہے کیا ہمارے حکمرانوں نے نہیں بلکہ غریب عوام کا خون چوسا جائے گا۔ سیاستدانوں ،بیوروکریٹس سمیت دوسرئے طبقوں سے تعلق رکھنے والے لوگوں کے اربوں روپے دوسرے ممالک میں پڑئے سڑ رہے ہیں مگراپنے ملک میں سرمایا کاری کرنے کو تیار نہیں۔بلکہ دوسرے ممالک کے تلوئے چاٹے جاتے ہیں کہ سرمایا کاری کریں۔
شکر وہ لوگ گزر گئے جنہوں نے پاکستان بنتے دیکھا تھا اگر آج وہ زندہ ہوتے تواُس وقت کو یاد کر کے روز مرتے روز جیتے۔ اتنے مسائل ہیں کہ ختم ہونے کو نہیں آتے،ہماری آنے والی نسل ہم پر لعنت ملامت کرے گی کہ اُن کے بڑوں نے اُن کے لیے ایک اُجڑا ہوا پاکستان چھوڑا ۔ہم نے تو پاکستان کو اُجڑتے ہی دیکھا ہے اور شائد یہی نصیب ہماری آنے والی نسل کا ہے۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :

متعلقہ عنوان :