دھرنا تاریخ رقم کررہا ہے

پیر 25 اگست 2014

Muhammad Saqlain Raza

محمد ثقلین رضا

اسلام آبا د کے عین دل کے مقام پر (دل بھی ایسا کہ اگر دھڑکنا چھوڑدے یا بوٹ والوں کے قبضے میں چلاجائے تو پھر پورا پاکستان ہی متاثرہوتاہے )دو جماعتوں نے دھرنادے رکھا ہے ‘اس دھرنے سے قبل اوراب تک کئی قسم کے موڑ آئے ‘دھرنے والے بھی موڑ مڑتے چلے گئے اور ساتھ ایک نئی تاریخ بھی بنتی گئی‘ بعض سیاسی منچلوں کا خیال ہے کہ کو ئی ایسا سیاسی قدم اس وقت تک معنی خیز نہیں ہوتا جب تک اس کے اثرات ‘مضمرات سامنے نہ آسکیں۔

پتہ نہیں اب یہ قول مبارک کس سیاسی منچلے کا ہے کیونکہ پاکستانی سیاست کو بھی کئی طرح کے منچلے میسرآئے ہیں جو ظاہراًکوٹ پینٹ میں نہایت ہی شریف او ر سلجھے ہوئے نظرآئیں گے مگر حقیقت میں․․․․بس کچھ نہ پوچھئے۔بعض لوگوں کا خیال ہے کہ انسان اس وقت تک شریف رہتاہے جب تک کپڑوں میں ہو۔

(جاری ہے)

۔۔اب اس کی تشریح بھی نہیں کہ کپڑوں سے باہر ہونا ‘کن لفظوں میں شمارہوتاہے۔


خیر اسلام آباد کے دل پر دو جماعتوں پر قبضہ ہے ‘اس با ت سے ہٹ کر کہ دھرنے میں پانچ دس ہزار بندے ہیں یا ایک ‘ڈیڑھ لاکھ‘ لیکن ایک حیران بات یہ بھی ہے کہ اتنے دنوں سے مقیم لوگوں کو آج تک گملا تک توڑنے کاخیال نہیں آیا۔ کوئی اینٹ بھی نہیں اکھاڑی گئی حالانکہ اس وقت پولیس کے کریک ڈاؤن کا بھی اشارہ تھا لیکن حالات پرسکون ہیں اور شاید اپنے اختتام تک سکون میں رہیں گے۔

سیانے کہتے ہیں کہ اوپر سے پرسکون نظرآنیوالادریا ‘ چیختے چنگھاڑے سمندر بھی خطرناک ثابت ہوتا ہے ۔جیسا کہ پہلے عرض کیاجاچکا ہے ا س دھرنے کے دوران کئی طرح کے نئے ڈرامے سامنے آچکے ہیں۔ان کا ذکر فرداً فرداًاس لئے بھی ممکن نہیں کہ اس کے لئے کئی صفحات درکار ہیں نیز خدشہ اس بات کا بھی ہے کہ کہیں ہم پر انقلابی یا آزادی پسند سمجھ کر ہماری شان میں قصیدے نہ شرو ع کردئیے جائیں۔


انقلاب مارچ کی بنیاد بننے والے واقعہ سانحہ ماڈل ٹاؤن کے دوران جہاں لاہور خون خون تھا تو ایک ایسا کردار بھی میڈیا کے سامنے پورے پاکستان کے سامنے آگیا ”گلو بٹ“ ۔ یہ مسلم لیگی کارکن تھا ‘ہے یا پھر رہاہوگا لیکن یار لوگوں نے بہرحال اسے ”شیرلاہور“ بھی بنادیا اور کسی نے کہا کہ ”گیدڑ“تاہم گلو بٹ اس قدر شہرت پاگیا کہ شایدکسی نیک کام کرنیوالے کو بھی نہ مل پائیگی۔

گلو بٹ فیملی سے سامنے آنیوالا پہلاکردار تھا مگر جب آزادی مارچ سفر کرتاہوا پہلوانوں کی سرزمین گوجرانوالہ پہنچاتو پھر حملہ آور بھی سامنے آگئے اور پھر․․․․․․․․پومی بٹ ․․․․اسی دھرنے کے دوران ہی تحریک انصاف کے رہنما شاہ محمود قریشی کے ملتان میں واقع گھر پر ن لیگیوں نے حملہ کیاتو بلو بٹ کاکردار کھل کر بلکہ دندناتا ہوا سامنے آیا۔

اس پر ہمارے چھوٹے بھائیوں جیسے دوست وقار بٹ نہایت ہی ”شریفانہ “ انداز میں کہتے پائے گئے کہ ”بٹ اتنے برے بھی نہیں ہوتے “ اب ان کے جملے کا ہمیں نہیں پتہ مگر لگتا ہے کہ انہیں بٹوں کا اس انداز میں شہرت پانا اچھا نہیں لگا
دھرنے کے دوران کئی طرح کی موشگافیاں یوں بھی سامنے آئیں کہ الیکٹرانک میڈیا نے پہلے کئی پارٹیاں بدلنے والی ماروی میمن کو لتاڑا پھر دوسروں کی باری آگئی۔

ماروی میمن کے ضمن میں عرض ہے کہ موصوفہ پہلے پرویز مشرف کچن کیبنٹ کی ممبر تھیں پھر ق لیگ پھر تحریک انصاف اور وہاں سے پھلانگتے ہوئے ن لیگ کے قافلے میں شامل ہوگئیں ان کی پرانی ویڈیوز (جن میں انہوں نے ن لیگ کے حوالے سے کچھ بلکہ بہت ہی قابل اعتراض باتیں کہی تھیں ) سامنے لے آئے۔
اسی دوران ایک اور معجزہ بھی سامنے آتا ہے کہ مہینوں تک اسمبلی میں شکل تک نہ دکھانے والے وزیراعظم بھی مسلسل اجلاسوں میں شریک ہونے لگے‘ اس دوران ممبران اسمبلی کے چہرے بھی خوشی سے کھلے کھلے دکھائی دئیے کہیں مولانافضل الرحمن جپھیاں ڈال رہے تھے تو کہیں خورشید شاہ کا خوشی کے مارے برا حال تھا اور حد تو یہ کہ کئی مہینوں سے وزیراعظم سے ملنے کے خواہشمند ن لیگی ممبران اسمبلی کی بھی خدا نے سن لی۔

بعض لوگوں کے خیال میں یہ بھی بہرحال معجزہ ہی تھا اسی اجلاس کے دوران ممبران اسمبلی دھرنے والوں کے خلاف پہلے بھڑکے‘تڑیاں لگائیں پھر ․․․․․․․․اگلی بات لکھنے لائق نہیں خیر چھوڑئیے اب جبکہ نیا پاکستان بننے جارہاہے تو پھر یار لوگوں نے تحریک انصاف کے میوزیکل شوز کو بھی تنقید کا نشانہ بنایا ‘ کہاگیا کہ سڑکوں پر عورتوں کو نچایا جارہا ہے ‘ سنا ہے کہ کسی نے کہہ دیا کہ حضورآپ تو عورتوں کا ناچ گانا دیکھنے منڈی جایاکرتے تھے اپنازمانہ بھول گئے۔

فوراً سے پہلے ایک سیاسی رہنما نے ماتھے سے پسینہ پونچھتے ہوئے کہا ”وہ الگ جگہ ہے ‘ مگر پارلیمنٹ کے سامنے تو ایسا کام نہیں ہوناچاہئے“ اب بندہ بھلا کیا جواب دے کہ ایک کام دوسری جگہ حلال اورپارلیمنٹ کے سامنے حرام ہے
سیانے کہتے ہیں کہ سیاست نام ہی دو چہروں کا ہے ۔یعنی بالکل ہاتھی کے دانت جیسا کہ کھانے کے اور ہوں اوردکھانے کے اور “ گذشتہ روز پیپلزپارٹی کے شریک چیئرمین آصف زرداری نے دبئی اجلاس طلب کیا س دوران کئی طرح کی باتیں ہوتی رہیں کسی نے کہا کہ یہ فساد ن لیگ نے خود پیدا کیا ہے اس لئے خود ہی نمٹے‘ کسی نے کہا کہ یہ حالات ن لیگی غلط پالیسیوں کانتیجہ ہیں ‘ بہرحال جتنے منہ اتنی ہی باتیں ‘ لیکن جب اجلاس کے حوالے سے پریس ریلیز یا خبر جاری کی گئی تو ا س میں جمہوریت سے اظہاریکجہتی اور جمہوری اداروں کے تحفظ کی بات کہی گئی تھی۔


وزیراعظم نوازشریف اپنے صدر یعنی ممنون حسین سے ملنے ایوان صدر پہنچ گئے‘ یار لوگ ہیں کہ انہوں نے ممنون حسین کو پتہ نہیں کیسے ڈھونڈ لیا کیونکہ قوم تو ان کے انتخاب کے بعد سے ان کی شکل دیکھنے کو ترس گئی ہے‘ خیر یاران وطن کو نوازشریف سے ملاقات کے دوران ان کے بیٹھنے کے انداز پر بھی اعتراض ہے ۔ ان کا کہنا تھا کہ جب آصف علی زرداری انہی کی کرسی پر موجودتھے تو سامنے بیٹھا وزیراعظم گھگھیا رہاہوتا تھا اور آج وہ اسی کرسی پر بیٹھ کر․․․․․․․․
بہرحال دھرنے جاری ہیں اور پتہ نہیں دو چار روز مزید بھی جاری رہیں گے ۔ ہمارا خیال یہ ہے کہ ان دھرنے والوں کو یہاں تک لایا ہے جو وہی واپس بھی لے جائیگا ۔پتہ نہیں ہمارا تجزیہ کس حدتک صحیح ہے لیکن سوچنے کی بات ضرور ہے

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :

متعلقہ عنوان :