نشان عبرت
پیر 25 اگست 2014
وقت بڑے بڑوں کی فرعونیت پر خاک ڈال کر انہیں مصر کے عجائب گھر میں بطور ممی ہی محفوظ نہیں کرتا بلکہ علامہ طاہرالقادری کے کنٹینر پر گھنٹوں چلچلاتی دھوپ میں کینیڈین شیخ کے بے مغز خطاب سننے کے لیے ان کے پیچھے کھڑا رہنے پر عبرت کا نشان بھی بنادیتاہے، کسی کو یقین نہیں آتا تو خدا کے لہجے میں بولنے والے جاگیردار سابق گورنر پنجاب غلام مصطفی کھر اور سابق وزیرخارجہ سردار آصف احمد علی کو ’انقلاب مارچ‘ کے پنڈال میں دیکھ سکتاہے۔
(جاری ہے)
علامہ طاہر القادری نے ہزاروں لوگوں کو نو اگست سے گھروں سے انقلاب کے نام پر نکالا ہواہے، ان کے پاس مگر ایک چارج شیٹ بھی ہے سانحہ ماڈل ٹاؤن کی، زور خطابت میں وہ سینکڑوں کے ہندسے پربھی نہیں رکتے مگر ان کے وکیل نے سپریم کورٹ میں تحریری طور پر بتایا ہے کہ ’ہم چودہ شہداء اور پچاسی زخمیوں کی ایف آئی آر کے اندراج کیلئے انصاف کے سب سے بڑے ایوان کے سامنے شاہراہ دستور پر دھرنا دینے آئے ہیں‘۔ لیکن تحریک انصاف کے پاس کیا ہے؟۔ صرف عمران خان کی شخصیت یا ان کے ہر دو گھنٹے بعد بدلتے بیانات اور مطالبات۔ دس لاکھ لوگوں کو اکٹھا کرنے کا وہ ایک ماہ پہلے سے دھمکیاں دے رہے تھے، جس وقت اسلام آباد میں وارد ہوئے تو رات کا تیسرا پہر تھا اور ’آزادی مارچ‘ کے شرکاء کی تعداد بارہ ہزار سے زیادہ نہ تھی۔
سولہ اگست کی صبح اسلام آباد نے نیند سے سلی ہوئی آنکھیں کھولیں تو زیرو پوائنٹ سے جناح کنونشن سنٹر جانے والی دونوں سڑکیں ’انقلاب اور آزادی‘ کے چاہنے والوں کے نعروں سے گونج رہی تھیں۔ شہر کے درمیان سے گزر کر مری اور مظفر آباد جانے والی شاہراہ کشمیر ہائی وے پر تحریک انصاف اور اس کے متوازی سڑک خیابان سہروردی پر عوامی تحریک کا اجتماع تھا۔ عمران خان نے کہاکہ ایک روزہ (ون ڈے) میچ ہوگا اور ‘بادشاہ‘ نوازشریف کو رخصت کردیں گے، دوسری جانب علامہ طاہرالقادری نے بھی انہی عزائم کا اظہار کیا۔ ایک تو کیا، چاردن گزر گئے مگر ’آزادی ‘ ملی اور نہ ہی ’انقلاب‘ آیا۔ نوازشریف وزیراعظم ہی رہے، پھر انیس اگست کی شام تمام وعدے اور معاہدے پس پشت ڈال دیے گئے اور اقتدار کے ایوانوں پر ہلہ بولنے کی دھمکیاں دے کر کارکنوں کو ریڈزون میں داخل ہونے کیلئے کہہ دیا گیا۔ ہاتھوں میں ڈنڈے لیے ہجوم کرینوں کے ذریعے کنٹینرز ہٹاتے، سڑکیں کھولتے شاہراہ دستور پر پہنچا تو دور دراز سے آئے عام لوگوں کی آنکھیں کھل گئیں۔ وزیراعظم کے دفتر ، سپریم کورٹ کی عمارت اور پارلیمنٹ ہاؤس کی بلڈنگ کے سامنے خود کو کھڑے دیکھ کر مارچ کے شرکاء پر عجیب سی کیفیت طاری ہوگئی۔ یہ وہ جگہ ہے جہاں سے اسلام آباد میں بسنے والے عام شہری کو بھی گزرنے کی اجازت نہیں۔
آج تئیس اگست کی شام ڈھل چکی ہے، اسلام آباد پرسکون ہے مگر شاہراہ دستور کے ساتھ ایک مربع کلومیٹر کے علاقے میں ہزاروں لوگ موجود ہیں جہاں علامہ طاہرالقادری اور عمران خان کے جلسوں کیلئے گاڑیوں پر بنائے گئے اسٹیج سے لاؤڈ اسپیکر کبھی تقریریں سناتے ہیں تو کبھی ملی نغمے، گانے اور ترانے بجائے جاتے ہیں، جس کی وجہ سے خاموشی کے دلدادہ شہر کے باسیوں کے آرام میں خلل پڑتا ہے۔ اسلام آباد ہجوم اور شور کو پسند نہیں کرتا اس لیے آزادی چاہتا ہے اور نہ انقلاب۔ یہ تو آٹھ گھنٹے کی سرکاری غلامی کرنے والوں کا قید خانہ ہے یا پھر انتہائی پوش سیکٹروں میں بسنے اور زیر زمین خاص پارٹیاں منعقد کرنے والی مخلوق کی خواب گاہ۔ اس شہر کو باہر سے آئے لوگوں سے کبھی سروکار نہیں رہتا۔ اختتام ہفتہ کو یادگار بنانے کیلئے پورے سات دن منصوبہ بندی کرنے والوں نے پہلے دو تین راتیں تو تحریک انصاف کے شو کو انجوائے کیا مگر اب ان کو یہ سب ’بورنگ‘ لگنے لگا ہے اور وہ کسی نئی ایکٹویٹی کی تلاش میں نکل پڑے ہیں۔
ہفتہ 23اگست کو امپائر کی انگلی اٹھنے کی پیش گوئی کرنے والے عمران خان نے بہت پہلے کہا تھاکہ شیخ رشید جیسے بندے کو میں اپنا چپڑاسی بھی نہ رکھوں۔ جس طرح وہ شیخ رشید سے متعلق اپنی بات پر قائم نہ رہ سکے اسی طرح امپائر کی اشارے کی بات بھی بھول گئے۔ بھٹو اور شریف خاندان کی موروثی سیاست کے خاتمے کیلئے کوشاں عمران خان نے شاہراہ دستور پر کسی بھی سیاستدان کی جانب سے دکھائی گئی غیر سنجیدگی کے تمام ریکارڈ توڑ دیے،اس رویے سے بہت سے معقول اور معتدل لوگوں کے دل بھی ٹوٹ گئے ہیں۔ وہ لوگ جو کسی خوش فہمی کا شکار تو ہرگز نہ تھے مگر ایک موہوم سی امید و آس لگائے بیٹھے تھے کہ تحریک انصاف عمل کے میدان کی کھلاڑی ہوگی مگر ڈی چوک کو تحریر اسکوائر بنانے کے دعوے کرنے والوں نے اسے ’تقریر اسکوائر‘ میں تبدیل کردیا ہے۔ اے کمال افسوس ہے، تجھ پر کمال افسوس ہے۔
روز’ آج رات جیت اور نئے پاکستان کا جشن منانے‘ کا لولی پاپ دینے والے عمران خان نے کئی دنوں تک اچھے خاصے بے زار لوگوں کو بھی تقریریں سننے پر مجبور کردیا تھا، مگر اب کچھ ’غیر سنجیدہ‘ دوست کہتے ہیں کہ حکومت ان تمام افراد کو’ نشان عبرت‘ دینے کا اعلان کرے جنہوں نے شاہراہ دستور کے مقررین کو غور سے سنا۔ میرے خیال میں تین بڑے ٹی وی چینل سے وابستہ اینکر اور تجزیہ کار اس تمغے کے زیادہ حقدار ہیں جنھوں نے ’تقریروں‘ کی بنیاد پر حکومت کو 14اگست کو ہی رخصت کردیا تھا۔
ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
تازہ ترین کالمز :
اے وحید مراد کے کالمز
-
اچھی اچھی باتیں
اتوار 20 ستمبر 2015
-
جیل، سیاست اور عدالت
بدھ 16 ستمبر 2015
-
جنگ اور امن
اتوار 6 ستمبر 2015
-
جو سمجھنا ہی نہیں چاہتے
منگل 25 اگست 2015
-
اقتدار پر قبضے کا کھیل
اتوار 16 اگست 2015
-
فوج اور عدالتیں
جمعہ 7 اگست 2015
-
سیاست ، ریاست اور موسم
اتوار 2 اگست 2015
-
چھلنی خوابوں سے ٹپکتا لہو کیاکہہ رہا ہے
ہفتہ 20 دسمبر 2014
اے وحید مراد کے مزید کالمز
کالم نگار
مزید عنوان
UrduPoint Network is the largest independent digital media house from Pakistan, catering the needs of its users since year 1997. We provide breaking news, Pakistani news, International news, Business news, Sports news, Urdu news and Live Urdu News
© 1997-2024, UrduPoint Network
All rights of the publication are reserved by UrduPoint.com. Reproduction without proper consent is not allowed.