نشان عبرت

پیر 25 اگست 2014

A Waheed Murad

اے وحید مراد

کامیابی تکبر اور خودپسندی سے نہیں بہتر حکمت عملی سے ملتی ہے اور تحریک انصاف کے سربراہ عمران خان اس حوالے سے ناکا م رہے۔ کچھ پانے کیلئے بولنے سے زیادہ عمل کرنے کی ضرورت ہوتی ہے اور یہاں صرف تقریریں ہیں، رعونت سے بھرپور انداز تخاطب ہے، امریش پوری اسٹائل کی دھمکیاں ہیں اور یاپھر میں ، میں ،میں اور میں کی گردان۔ عمل کا میدان خیبر پختون خوا میں انتخابی ووٹوں کے ذریعے ملا ہوا ہے مگر وہاں کے چیف ایگزیکٹو کو بھی وفاق میں’ تبدیلی ‘لانے کیلئے بٹھایا ہواہے۔

اگرچہ پرویز خٹک نے کچھ عملی کام بھی کیے ہیں مگر کنٹینر کے اسٹیج پر اپنا روایتی ڈانس دکھا کر۔
وقت بڑے بڑوں کی فرعونیت پر خاک ڈال کر انہیں مصر کے عجائب گھر میں بطور ممی ہی محفوظ نہیں کرتا بلکہ علامہ طاہرالقادری کے کنٹینر پر گھنٹوں چلچلاتی دھوپ میں کینیڈین شیخ کے بے مغز خطاب سننے کے لیے ان کے پیچھے کھڑا رہنے پر عبرت کا نشان بھی بنادیتاہے، کسی کو یقین نہیں آتا تو خدا کے لہجے میں بولنے والے جاگیردار سابق گورنر پنجاب غلام مصطفی کھر اور سابق وزیرخارجہ سردار آصف احمد علی کو ’انقلاب مارچ‘ کے پنڈال میں دیکھ سکتاہے۔

(جاری ہے)

فااعتبرو یا اولی الابصار ۔ لوگوں کے عبرت پکڑنے کیلئے ہزاروں مثالیں ہیں جنہیں آج کل آپ شاہراہ دستور سے براہ راست اپنی ٹی وی اسکرین پر ’آزادی اور انقلاب‘ کے نام پر دیکھ سکتے ہیں۔ بے سروپا تقریریں، منطق سے عاری مطالبے اور لاؤڈ اسپیکر کے زورپر شیر جیسی آواز میں دھاڑنے کی صبح وشام مشق۔
علامہ طاہر القادری نے ہزاروں لوگوں کو نو اگست سے گھروں سے انقلاب کے نام پر نکالا ہواہے، ان کے پاس مگر ایک چارج شیٹ بھی ہے سانحہ ماڈل ٹاؤن کی، زور خطابت میں وہ سینکڑوں کے ہندسے پربھی نہیں رکتے مگر ان کے وکیل نے سپریم کورٹ میں تحریری طور پر بتایا ہے کہ ’ہم چودہ شہداء اور پچاسی زخمیوں کی ایف آئی آر کے اندراج کیلئے انصاف کے سب سے بڑے ایوان کے سامنے شاہراہ دستور پر دھرنا دینے آئے ہیں‘۔

لیکن تحریک انصاف کے پاس کیا ہے؟۔ صرف عمران خان کی شخصیت یا ان کے ہر دو گھنٹے بعد بدلتے بیانات اور مطالبات۔ دس لاکھ لوگوں کو اکٹھا کرنے کا وہ ایک ماہ پہلے سے دھمکیاں دے رہے تھے، جس وقت اسلام آباد میں وارد ہوئے تو رات کا تیسرا پہر تھا اور ’آزادی مارچ‘ کے شرکاء کی تعداد بارہ ہزار سے زیادہ نہ تھی۔
سولہ اگست کی صبح اسلام آباد نے نیند سے سلی ہوئی آنکھیں کھولیں تو زیرو پوائنٹ سے جناح کنونشن سنٹر جانے والی دونوں سڑکیں ’انقلاب اور آزادی‘ کے چاہنے والوں کے نعروں سے گونج رہی تھیں۔

شہر کے درمیان سے گزر کر مری اور مظفر آباد جانے والی شاہراہ کشمیر ہائی وے پر تحریک انصاف اور اس کے متوازی سڑک خیابان سہروردی پر عوامی تحریک کا اجتماع تھا۔ عمران خان نے کہاکہ ایک روزہ (ون ڈے) میچ ہوگا اور ‘بادشاہ‘ نوازشریف کو رخصت کردیں گے، دوسری جانب علامہ طاہرالقادری نے بھی انہی عزائم کا اظہار کیا۔ ایک تو کیا، چاردن گزر گئے مگر ’آزادی ‘ ملی اور نہ ہی ’انقلاب‘ آیا۔

نوازشریف وزیراعظم ہی رہے، پھر انیس اگست کی شام تمام وعدے اور معاہدے پس پشت ڈال دیے گئے اور اقتدار کے ایوانوں پر ہلہ بولنے کی دھمکیاں دے کر کارکنوں کو ریڈزون میں داخل ہونے کیلئے کہہ دیا گیا۔ ہاتھوں میں ڈنڈے لیے ہجوم کرینوں کے ذریعے کنٹینرز ہٹاتے، سڑکیں کھولتے شاہراہ دستور پر پہنچا تو دور دراز سے آئے عام لوگوں کی آنکھیں کھل گئیں۔

وزیراعظم کے دفتر ، سپریم کورٹ کی عمارت اور پارلیمنٹ ہاؤس کی بلڈنگ کے سامنے خود کو کھڑے دیکھ کر مارچ کے شرکاء پر عجیب سی کیفیت طاری ہوگئی۔ یہ وہ جگہ ہے جہاں سے اسلام آباد میں بسنے والے عام شہری کو بھی گزرنے کی اجازت نہیں۔
آج تئیس اگست کی شام ڈھل چکی ہے، اسلام آباد پرسکون ہے مگر شاہراہ دستور کے ساتھ ایک مربع کلومیٹر کے علاقے میں ہزاروں لوگ موجود ہیں جہاں علامہ طاہرالقادری اور عمران خان کے جلسوں کیلئے گاڑیوں پر بنائے گئے اسٹیج سے لاؤڈ اسپیکر کبھی تقریریں سناتے ہیں تو کبھی ملی نغمے، گانے اور ترانے بجائے جاتے ہیں، جس کی وجہ سے خاموشی کے دلدادہ شہر کے باسیوں کے آرام میں خلل پڑتا ہے۔

اسلام آباد ہجوم اور شور کو پسند نہیں کرتا اس لیے آزادی چاہتا ہے اور نہ انقلاب۔ یہ تو آٹھ گھنٹے کی سرکاری غلامی کرنے والوں کا قید خانہ ہے یا پھر انتہائی پوش سیکٹروں میں بسنے اور زیر زمین خاص پارٹیاں منعقد کرنے والی مخلوق کی خواب گاہ۔ اس شہر کو باہر سے آئے لوگوں سے کبھی سروکار نہیں رہتا۔ اختتام ہفتہ کو یادگار بنانے کیلئے پورے سات دن منصوبہ بندی کرنے والوں نے پہلے دو تین راتیں تو تحریک انصاف کے شو کو انجوائے کیا مگر اب ان کو یہ سب ’بورنگ‘ لگنے لگا ہے اور وہ کسی نئی ایکٹویٹی کی تلاش میں نکل پڑے ہیں۔


ہفتہ 23اگست کو امپائر کی انگلی اٹھنے کی پیش گوئی کرنے والے عمران خان نے بہت پہلے کہا تھاکہ شیخ رشید جیسے بندے کو میں اپنا چپڑاسی بھی نہ رکھوں۔ جس طرح وہ شیخ رشید سے متعلق اپنی بات پر قائم نہ رہ سکے اسی طرح امپائر کی اشارے کی بات بھی بھول گئے۔ بھٹو اور شریف خاندان کی موروثی سیاست کے خاتمے کیلئے کوشاں عمران خان نے شاہراہ دستور پر کسی بھی سیاستدان کی جانب سے دکھائی گئی غیر سنجیدگی کے تمام ریکارڈ توڑ دیے،اس رویے سے بہت سے معقول اور معتدل لوگوں کے دل بھی ٹوٹ گئے ہیں۔

وہ لوگ جو کسی خوش فہمی کا شکار تو ہرگز نہ تھے مگر ایک موہوم سی امید و آس لگائے بیٹھے تھے کہ تحریک انصاف عمل کے میدان کی کھلاڑی ہوگی مگر ڈی چوک کو تحریر اسکوائر بنانے کے دعوے کرنے والوں نے اسے ’تقریر اسکوائر‘ میں تبدیل کردیا ہے۔ اے کمال افسوس ہے، تجھ پر کمال افسوس ہے۔
روز’ آج رات جیت اور نئے پاکستان کا جشن منانے‘ کا لولی پاپ دینے والے عمران خان نے کئی دنوں تک اچھے خاصے بے زار لوگوں کو بھی تقریریں سننے پر مجبور کردیا تھا، مگر اب کچھ ’غیر سنجیدہ‘ دوست کہتے ہیں کہ حکومت ان تمام افراد کو’ نشان عبرت‘ دینے کا اعلان کرے جنہوں نے شاہراہ دستور کے مقررین کو غور سے سنا۔

میرے خیال میں تین بڑے ٹی وی چینل سے وابستہ اینکر اور تجزیہ کار اس تمغے کے زیادہ حقدار ہیں جنھوں نے ’تقریروں‘ کی بنیاد پر حکومت کو 14اگست کو ہی رخصت کردیا تھا۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :