پاکستان کے رعایا اور حکمران

ہفتہ 23 اگست 2014

Kashif Hussain Aakash

کاشف حسین آکاش

کچھ بھی لکھنے سے پہلے میں مالک ِ کائنات، خدائے برحق و لایقِ عبادت، اللہ عزوجل کی پناہ چاہتا ہوں شیطان مردُود سے،
جو ازل سے ابد تک میرے جدِّامجد اور میرا کھلادُشمن ٹھہرا۔
پانچ اُنگلیاں برابر نہیں ہوتیں لیکن پاکستان کی اکثریت(حکمران اور عوام) ایک ہی کشتی پر سوار ہیں جو تُندوتیز موجوں میں گھری ہوئی ہے۔
گویا کشتی پہ سوار رہنا ہے ہی باعث ہلاکت اور کشتی سے راہِ فرار اختیار کرنے کا مطلب دردناک موت۔


بہتوں نے کشتی کو پار لگانے کی کوشش کی لیکن نتیجہ بے سُود ۔
ایسے حالات میں کس کو پُکارا جائے؟
کس رہنماء کا اِنتخاب کیا جائے؟
کون ہے جو ہمیں ان مشکلات سے نجات دلائے؟
میں بطورِ پاکستانی جب ان سوالات کا جواب ڈھونڈنے کی غرض سے اپنے اردگرد نظر دوڑاتا ہوں تو مجھے کوئی بھی چہرا ایسا نظر نہیں آتا کہ جو ہمیں اس خوف کے عالم میں دلاسہ دے سکے مشکلات سے نجات دلانا تو کوسوں دُور ہے۔

(جاری ہے)


اور تو اور اکثریتِ پاکستان کا رب تعالیٰ پہ نا صرف برائے نام اعتقاد ہے (نعوذ بااللہ) بلکہ ہم تو صرف فوائد کے حصُول کی خاطر خدائے بزرگ کو یکتاؤ لا شریک جانتے ہیں (نعوذبااللہ) حقیقت میں تو ہم رحمان کی باتوں پہ عمل کرنے کو نہ صرف ایک فضُول کام بلکہ وقت کا ضیّاع گردانتے ہیں(نعوذ بااللہ)۔
بڑی بڑی محفل و مجالس میں شانِ خُدا وندی بیان کرتے کرتے ہماری زُبانیں نہیں تھکنے پاتیں مگر حُسنِ سلُوک سے کتراتے ہیں
جو فرائض ہم پر واجب ہیں اُن سے لا تعلقی کا اظہار کرتے ہوئے مختلف قِسم کے بہانے بنانے میں مشغول رہتے ہیں۔


حقوق اللہ تو بہت دُور کی بات ہم تو حقوق العباد بھی ٹھیک طرح سے ادا نہیں کر پاتے۔
”اللہ شانِ ھُو پہ برائے نام اعتقاد کو بھی یہیں واضع کرتا چلُوں کیونکہ اس مُلک کے غیّورعوام سے بعید نہیں کہ مجھ پہ بھی کفر کا فتویٰ رقم کر دیں“
ہمارے ہمسائے غربت و افلاس کی زندگی گزار رہے ہیں لیکن ہمیں اپنی عیاشیوں سے فرصت ہی کب ملتی ہے کہ ان کے احوال ہی جان سکیں، کبھی بھوک میں مبتلا لوگوں کو دو نوالے ہی سیر ہونے کو دے دیں، کوئی دن ایسا بھی ہو جس دن ہم برگر ،پیزا اور شوارماوغیرہ سے لُطف اندوزی میں اپنے غریب و مسکین ہمسائیوں کو بھی شریکِ لطف ٹھہرائیں۔


ہم قیمتی لباس تو زیبِ تن کیئے پھرتے ہیں لیکن غرباء کے جسم پہ معمولی کپڑا بھی ہم برداشت نہیں کر پاتے۔
موجودہ دور کے حکمران اور اشرافیہ مساجد میں نظر آنا تو دور کی بات مسجدوں کی راہوں سے بھی کتراتے ہیں ۔
سوائے نمازِ عیدین کے مساجد سے یوں غائب رہتے ہیں جیسے امام صاحب نے کوئی پابندی نافذ کر رکھی ہویا مسجد میں داخل ہونے کی سزا سزائے موت ہو(استغفراللہ)۔


اور اگر ہم ذکر کریں حزبِ اختلاف کا تو یہاں تمہید باندھنے سے بہت بہتر ایک ہی جملہ کہنا چاہوں گا انہیں اپنے گریبانوں میں جھانکنے کی ضرورت ہے نہ کہ دوسروں پہ کیچڑ اچھالتے پھریں ۔
اور ہم نے بھی تو زنا، شراب نوشی، جواء، رشوت غرضیکہ ہر منزلِ گناہ کی جانب راستے بلاجھجک کھول رکھے ہیں اور رکاوٹ کا نام و نشان نہیں۔
اب خودی بتاؤ دوستو ان حالات میں ہمیں مخلص رہنمائی کہاں سے حاصل ہو گی؟
کون ہے وہ مسیحیٰ جبکہ ہم سر سے پاؤں تک گناہوں کے سمندر میں ڈوب چکے ہیں اور وہ ہمیں بچا لے جائے گا؟
ہاں صرف ایک راستہ ہے بس ایک ہی راستہ جو ہماری امیدوں کو ٹوٹنے سے بچا سکتا ہے اوروہ راستہ ہے رحیمِ بر حق کا راستہ۔


لیکن سوال یہ ہے کہ اس منزل کی جانب گامزن کیسے ہُوا جائے؟
زیادہ غوروفکر کرنے کی ضرورت نہیں صدق دل سے ایک بار صرف ایک بار توبہ کر لیں اس میں کوئی شک نہیں کہ مہربان تو روزِ اوّل سے ہمارا منتظر ہے کہ کب کوئی میری اطاعت کو لوٹ آئے اور میں اس کو اپنی رحمت کے بادلوں تلے بلند و بالا مقامات سے نواز دوں۔
اب فیصلہ آپ کے ہاتھوں میں ہے عزت بھری زندگی گزارنا چاہتے ہیں یا پھر ذلت و رسوائی ہی کے سنگ نامراد رہنا پسند کریں گے؟؟؟

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :

متعلقہ عنوان :