خوشخبری 18کروڑ میں سے کافی کم ہونے والے ہیں

ہفتہ 23 اگست 2014

Hussain Jan

حُسین جان

اقوام متحدہ نے کہا ہے کہ ایک کروڑ 20لاکھ پاکستانی ہپاٹائٹس کے مرض میں مبتلا ہیں اور اس بیماری کی سب سے بڑی وجہ گندہ پانی اور سیورج کا ناقص انتظام ہے۔اس کے علاوہ ایک محتاط اندازے کے مطابق پاکستان میں اس وقت 2کروڑ پچاس لاکھ افراد گردوں کی مختلف بیماریوں میں مبتلا ہے۔اس کے ساتھ ساتھ تقریبا چار پانچ کروڑ لوگ شوگر اور دیگر موذی بیماریوں کا شکار ہیں چھوٹی موٹی بیماریاں الگ ہیں کیوں کہ پاکستان میں شائد ہی کوئی گھر ایسا ہو گا جس میں کوئی نہ کوئی مریض نا ہو۔

ڈینگی کے ساتھ ساتھ اب ہمیں گانگو سے بھی مرنا ہو گا۔ علاج معالجے کی سہولتوں کے بارے میں سب جانتے ہیں جو کہ تقریبا 0فیصد ہیں۔ ہم اتنے اہل قوم ہیں کہ جگر کا آپریشن بھی انڈین ڈاکٹر ز کی مدد سے کرتے ہیں وہ بھی سالوں میں ایک دو۔

(جاری ہے)


اب آتے ہیں تصویر کے دوسرے رُخ کی طرف،پاکستان مسلم لیگ ن ،پاکستان مسلم لیگ ق ، دیگر مسلم لیگیں،پاکستان تحریک انصاف ،پاکستان عوامی تحریک، پاکستان لال حویلی ،پاکستان بوری موومنٹ ،جماعت اسلامی ،اے این پی اور سب سے بڑھ کر بھٹو زدراری پارٹی (جو ہر وقت پارٹی شہیدوں کا ہی واسطہ دیتی رہتی ہے)سب کے سب 18کروڑ عوام کے دکھ میں مرئے جا رہے ہیں، تو ان سب کے لیے ایک خوشخبری ہے کہ عنقریب ان 18کروڑ میں سے بہت سے گزرنے والے ہیں کیونکہ کسی کو ان کی علاج دارو کی فکر نہیں بس اپنی اپنی کرسی چاہیے، ہمارے تمام سیاسی عمائدین ہمیشہ اٹھارہ کروڑ عوام کی دہائی دیتے ہیں کہ ہم بدلیں گے اٹھارہ کروڑ عوام کا مقدر لہذا اُن کے لیے کافی آسانی پیدا ہو جائے گی کہ جب بیماری، غربت و افلاس،لاچارگی اور بیروزگاری کئی کروڑوں کی جان لے جائے تو صرف ان کو چند کروڑ لوگوں کا ہی مستقبل سنوارنا پڑئے گا۔


یہ ہم کس طرف چل پڑئے ہیں یہ کیسے جلسے جلوس ہو رہے ہیں جہاں کوئی اپنے مقصد کے ساتھ سنجیدہ نہیں میں کسی جماعت کا حامی نہیں بلکہ ایک عام پاکستانی ہوں جس کے مقدر کو بدلنے کی تمام سیاسی جماعتیں قسمیں کھاتی ہیں پھر ہم انہیں ووٹ دیتے ہیں لیکن یہ ہمارا سوچنے کی بجائے اپنے گھر کو سنوارنے میں لگ جاتے ہیں۔ ن لیگ والے کہتے ہیں پی ٹی آئی کے دھرنے میں نوجوان خواتین بیہودہ ڈانس کرتی ہیں جبکہ اگلے دن ن لیگ کے حق میں نکالی جانے والی ریلی میں بھی خواتین کو ڈانس کرتے دیکھا گیا۔

جنگ کے دنوں میں تو ملی نغمے جو فوجی جوانوں کو پرجوش رکھنے کے لیے بجائے جاتے ہیں مگر اب تو یہ جوان بدنوں کو بھڑکانے کے بھی کام آتے ہیں۔
پاکستان اپنے وقت کے نازک ترین دور سے گزر رہا ہے ایک طرف تو دہشت گردی کے خلاف جاری جنگ اور دوسری طرف ملک میں سیاسی انتشار ،عام آدمی کے تو پہلے سے ہی بہت سے مسائل تھے مگر ان چیزوں نے اُس کے مسائل مزید بڑھا دیے ہیں۔

کہا جاتا ہے کہ پاکستان میں خاندانی منصوبہ بندی کا کوئی رواج نہیں آج تک کوئی بھی حکومت عوام کو خاندانی منصوبہ بندی کی ترغیب نہیں دے پائی، اچھا ہی ہے کہ لوگوں نے حکومتوں کے پیچھے لگ کر منصوبہ بندی پر عمل نہیں شروع کر دیا نہیں تو جتنی شرح اموات ہیں یہاں اُلو ہی بولتے۔ پاکستان میں جب بچہ پیدا ہوتا ہے تو والدین کو سب سے پہلے اُس کے مستقبل کی فکر ستانے لگتی ہے، کیونکہ وہ جانتے ہیں کہ ہمارے ملک میں کوئی ایسا نظام موجود نہیں جو اُن کے بچے کے اچھے مستقبل کی زمانت دے سکے۔

ہسپتالوں میں روز لوگ مر رہے ہیں جن کے پاس سرکاری ہسپتالوں تک جانے کے وسائل نہیں وہ گھروں میں مر رہے ہیں لیکن ہم ہیں کہ جمہوریت بچانے کی فکر میں لگے ہوئے ہیں۔
ایسی جمہوریت یا آمریت کا آچار ڈالنا ہے جس میں عوام کے لیے کوئی فلاح نہ ہو۔ یہاں جب کوئی فوجی حکومت میں آتا ہے تو تب بھی صرف چند خاندانوں کے گھروں میں چراغاں ہوتا ہے اور جب جمہوریت آتی ہے تب بھی چند گھرانے ہی اُس سے مستفید ہوتے ہیں۔

جبکہ عام آدمی کے مرنے کی شرح جو ں کی توں ہے۔اگر کوئی سیاسی جماعت آٹھارہ کروڑ کی نمائندہ ہوتی تو آج ملکی حالات کچھ کے کچھ ہوتے کہ دینے سے کوئی عوامی ہمددرد نہیں بن جاتا ہمارے لیڈر صرف اور صرف اپنے اپنے خاندانوں کے نمائندہ ہیں۔ ماما ،چاچا،تایا،بھانجا،مامی ،بیٹی،بیٹا،پھوپھو وغیرہ سب کے سب موج میں ہوتے ہیں جب ان کے رشتہ دار حکومت میں ہوتے ہیں۔

بنیادی سہولتیں تو ویسے ہی غریب آدمی کی پہنچ سے باہر ہیں لیکن یہ اشرافیہ اپنے اپنے گھروں میں بادشاہوں سی زندگی گزرتے ہیں اگر چند مور وں کے مرنے سے کئی سرکاری ملازم معطل ہوسکتے ہیں تو لوگوں کے مرنے پر کوئی کاروائی کیوں نہیں کی جا سکتی چاہے وہ کسی بھی سیاسی جماعت کے کیوں نہ ہوں۔
اٹھارہ کروڑ لوگوں کے مسیحا بننے کے دعوئے دار اگر چند لاکھ لوگوں کا ہی بھلا کر دیں تو بہت بڑی بات ہے۔

اپنی بڑی بڑی گاڑیوں اور بڑئے بڑئے گھرووں سے نکل کر اگر یہ عام آدمی کے حالات کو قریب سے دیکھ لیں تو ان کے رونگتے کھڑئے ہو جائیں یہ جو حکمرانوں کے بچے ہمارے آنے والی نسل کی نمائندگی کے خواب دیکھ رہے ہیں کیا انہوں نے کبھی غربت میں زندگی گزاری ہے کیا انہوں نے کبھی سرکاری ہسپتال سے علاج کروایاہے ، کیا یہ اپنے بچوں کو سرکاری سکولوں میں داخل کرواتے ہیں۔

یہاں تو یہ عالم ہے گھٹنے میں درد ہو جائے تو لندن امریکہ کی ٹکٹ لے لی جاتی ہے علاج کے لیے اور غریب کا بچہ بے چارہ سرکاری ہسپتال میں سہولتیں نا ہونے سے مر جاتا ہے۔ اسی لیے تو ہم کہتے ہیں کہ ہمارے سیاسی لوگوں کے لیے عنقریب خوشخبری آنے والی ہے کہ بہت جلد پاکستانی عوام کی تعداد کم ہو جائے گی، ویسے بھی خودکشیوں کا رواج عام ہے پہلے تو لوگ اکیلے خود کشی کرتے تھے اب تو پورے پورے خاندان کے ساتھ کرتے ہیں جس سے تعداد کے کم ہونے کی رفتار کافی تیز ہو چکی ہے۔

یہ سب اپنے مفاد کی جنگ لڑ رہے ہیں عوامی جنگ لڑنا ان کے بس کی بات نہیں کہ اس کے لیے انہیں خود بھی بہت سی قربانیاں دینی پڑئیں گی جس کے موڈ میں یہ بالکل نہیں، مرئیں تو غریب عوام،نعرے لگائیں تو غریب عوام زندگی تنگ ہو تو غریب لوگوں کی ان فرعونوں کو کئی فرق نہیں پڑتا۔ ان کے اپنے کاروبار باہر چل رہے ہیں، سیاسی لوگ صرف اُتنی دیر ہی ملک میں رہتے ہیں جتنی دیر اُن کی حکومت ہو ادھرحکومت ختم اُدھر یہ ملک سے باہر نکل جاتے ہیں پھر تو پارٹی اجلاس بھی ملک سے باہر رکھتے ہیں کہاں ہیں ہمارے سابقہ صدر اور اُن کے شیر بیٹے بلاول صاحب یقینا ملک سے باہر ہوں گے وہی بیٹھ کر اس غریب عوام کے مستقبل کا فیصلہ کریں گے جب حکومت ملنے کے چانس نظر آئیں گے تو پھر واپس آجائیں گے ۔

یہی ہے پاکستان اور پاکستانیوں کی قسمت ، عوام کم ہوتے جا رہے ہیں اور سیاسی لوگ بڑھتے جا رہے ہیں

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :