غلام قوم کے معیار

ہفتہ 23 اگست 2014

Ahmed Adeel

احمد عدیل

آج کل ہر اس چمپو چماٹ کی دم جل رہی ہے جو اس جمہوریت نامی گندی ندی میں سمیت اپنے خاندان کے اشنان کر رہا تھا یہ اینکروں اور ان صحافیوں کی کمائی کا بھی سیزن ہے جن کا کام ہی ہر اس انسان نما درندے کو سپورٹ کرنا ہے جس سے انہیں کچھ مل جائے ، ہمارے محترم کالمنسٹ عرفان صد یقی صاحب تو میاں صاحب کو کالموں سے ذریعے پروموٹ کرتے کرتے میاں نواز شریف کے ترجمان بن چکے ہیں، جو باقی ہیں وہ بھی آج کل نان سٹاپ کالم لکھ کر روزن دیوار میں نقب زنی کر ہے ہیں، یہ آج کا قصہ نہیں بلکہ یہ نقب زنی چودہ اگست انیس سو سنتالیس کو ہی شروع ہو گئی تھی جب پاکستان کے وجود میں آتے ہی کالے بابووں نے اس آزادی کو اغوا کر لیاتب سے اب تک یہاں ہر اس چیز کی بولی لگتی ہے جو بک سکتی ہے ہم ایک ایسے ذہنی مریض معاشرے میں سانس لیتے ہیں جہاں مذہب تک کو اپنے مفادات کے لیے بیچا جاتا ہے جہاں انسان کی پہچان اس کا پیسہ یا اس کی سیاسی وابستگی ہے ہم زیرو ٹالرنس لیول پر زندہ وہ عوام ہیں جو دوسرے انسانوں کو پوجتے ہیں ، کسی کا ہیرو، نواز شریف، کسی کا بلاول کسی کا لیڈر عمران خان اور کسی کا مرشد طاہر القادری، اور کوئی بھی یہ برداشت نہیں کرتا کہ کسی دوسرے کے منہ سے اس کے لیڈر کے خلاف کوئی بات نکلے، سوشل میڈیا پر گالی گلوچ اور بے حیائی کی جو جنگ اس وقت جاری ہے وہ ان کے ذہنی لیول کی ایک جھلک ہے دوسروں کی بہو بیٹیوں پر صرف اپنی گھٹیا سیاسی وابستگی کی وجہ سے غلیظ کمنٹ کرنے والے شاید اس احساس عزت سے بھی عاری وہ لوگ ہیں جن کی جہالت اور احساس محرومی انہیں اس مقام پر لے آئی ہے جہاں پہنچ کر انسان انسانیت کی حد سے بہت نیچے گر جاتا ہے، آزادی مارچ کی فیک تصویریں پی ایم ایل این کے پیچیز پر شےئر ہو رہی ہے ، طاہر القادری کا مذاق اڑایا جا رہا ہے اور یہ سب بہت ہی گھٹیا طریقے سے کیا جارہا ہے، تنقید کرنا عوام کا حق ہے لیکن عزت کے دائرے میں رہ کر لیکن ہم تو خیر اخلاقی حدود کو کب کے پار چکے ہیں سو کیسا اخلاق اور کیسی عزت ، بلکہ جو عزت کی بات کرے وہ ویسے ہی گناہ گار کہلاتا ہے
اب بات کریں آزادی مارچ یا انقلاب مارچ کی تو سمیت میرے ہمیں دونوں لیڈر صاحبان سے اختلاف ہو سکتا ہے، ان کی پالیسیوں سے اختلاف ہو سکتا ہے لیکن جس چیز کی وہ ڈیمانڈ کر رہے ہیں کیا عوام ہونے کے ناطے ہمیں ان کی ان ڈیمانڈز سے بھی اختلاف ہے؟؟
کچھ لوگ کہہ رہے کہ انہوں نے غلط رستہ اختیار کیا ہے لیکن اس لا لیس معاشرے میں صیح راستہ ہے کون سا؟؟ عمران خان پچھلے چودہ مہینوں سے انصاف کے لیے قانون کا ہر دروازہ کھٹکھٹا چکے ہیں لیکن کہیں بھی شنوائی نہیں کیونکہ قانون و عدالت ان کی پاکٹ میں ہے جو اپنے آپ کو اس گلی سٹری خاندانی جمہوریت کا چپمین سمجھتے ہیں طاہر القادری کے ورکروں کے ساتھ حکومتی ایما پر جو کچھ کیا گیا وہ سب اسرائیلی آرمی فلسطینیوں کے ساتھ کر رہی ہے اور حد تو یہ ہے کہ عدالت کا فیصلہ آنے کے بعد بھی ابھی تک پولیس نے ان قاتلوں کے خلاف کوئی ایف آئی آر درج نہیں کی جو حکومتی ایوانوں میں بیٹھ کر نظام بچاو کا راگ الاپ رہے ہیں، آخریہ کون سا نظام ہے جسے بچانے کے لیے سب سیاسی و مذہبی مافیاز میدان میں آگئے ہیں؟؟
یہ وہ غلیظ اور بدبو دار نظام ہے جو مرتے لوگوں کے منہ سے روٹی چھین لیتا ہے، یہ وہ نظام ہے جہاں غریب صرف پیٹ بھرنے کے لیے اپنا آپ اور اپنے بچے بیچ رہا ہے، یہ وہ نظام ہے جہاں قانون ہر قاتل اور لیٹرے کو تحفظ دیتا ہے، جہاں بل دینے کے باوجود بجلی نہیں ملتی ، یہ وہ نظام ہیں جہاں چمپو چماٹوں کے لیے روٹ لگتے ہیں اور سڑکیں بلاک کی جاتی ہیں، اس نظام میں غریب کیا مڈل کلاس آدمی بھی ہر دن بے عزتی کے عذاب سے گزرتا ہے ، یہ نظام ان غلیظ مافیازکا رکھوالا ہے جو مردہ نما عوام کے خون سے بنے محلات میں رہتے ہیں، یہ اس نظام کی برکت ہے کہ صرف شریف خاندان کے چوراسی لوگ حکومتی ایوانوں میں براجمان ہے اور ماڈل ٹاون میں مارے جانے والے بے گناہ لوگوں کی ایف آئی آر بھی درج نہیں ہوتی، اس نظام کے طفیل ہر بلاول اور حمزہ عوام کی گردنوں پر سوار ہونے کی تیاری کر رہے ہیں، یہ نظام ہر اس انسان کو سپورٹ کرتا ہے جس کی انسانیت کا جنازہ نکل جائے اس لیے ان سب مافیاز سمیت مولانا فضل الرحمن کے اس نظام کو بچانا ضروری ہے کیونکہ یہ نظام بدل گیا ہے تو ان سب کی روزی روٹی بند ہو جائے گی
اگر یہ نظام اور یہ وہ جمہوریت ہے جس میں عوام کی بقا ہے تو ایسی جمہوریت کو کل نہیں آج ختم ہونا چاہیے ، اس سڑانڈ اٹھتی جمہوریت کے جانے سے کسی کو کوئی فرق نہیں پڑے گا سوائے ان چند سیاسی خاندانوں کے جو اس جمہوریت کے نام پر اس ملک کو بیچ رہے ہیں یاپھر ان بکاؤ ملاوں کی روٹی بند ہو جائے گی جو مذہب کو بیچ کر اور فرقہ پرستی کو پروموٹ کر کے پیٹ کا جہنم بھرتے ہیں ، وہ اینکر اور صحافی بھی بے روزگار ہو سکتے ہیں جن کا بزنس ہی ضمیر فروشی ہے ، جہاں تک اس غریب عوام کی بات ہے جو سوشل میڈیا پر ایک دوسرے کو گالیاں دے رہے ہیں یا وہ جو دھرنوں میں بیٹھے ہیں، یا وہ مزدور جو سڑک پرد ہاڑی کی تلاش میں ہیں ، یہ وہ 99% لوگ ہیں جنہیں اس نظام نے دیا تو کچھ نہیں بس ان کا خون ہی چوسا ہے لیکن کچھ اپنے ساتھ ہونے والی اس واردات کو سمجھ نہیں پا رہے کیونکہ میڈیا پر ہونے والا پروپیگنڈہ انہیں برین واش کرنے کے لیے کافی ہے، کچھ اس حد تک شحصیت کے پجاری ہیں کہ وہ نہ اختلاف رائے برداشت کر سکتے ہیں نہ ہی ان میں سچ کا سامنا کرنے کی ہمت ہے، کچھ ذات برادری کے شکنجے میں کسے ہیں، باقی اپنے حقوق کی لڑائی کے لیے مرنے مارنے پر تیار ہیں، لیکن ایک چیز جو ان سب میں کامن ہے وہ یہ کہ یہ غلیظ جمہوریت جو جمہوریت ہے ہی نہیں ان کا خون چوس رہی ہے لیکن من حیث القوم ہماری ٹریجڈی یہ ہے کہ ہمیں عرصے دراز سے ایک سوچے سمجھے منصوبے کے تحت جاہل رکھا گیا ہے ڈیجٹیل اور پرنٹ میڈیا کے ذریعے ہمیں باور کروایا گیا ہے کہ ہم سے بہتر سیاست کوئی سمجھ ہی نہیں سکتاچھابڑی والے لے کر حماموں تک ہر دن ہر جگہ صبح و شام ڈسکس ہونے والا ٹاپک ہی سیاست ہے ہر آدمی اپنے آپ کو سیاست کے مر شد سے کم سمجھنے پر تیار ہی نہیں اوپر سے عدم برداشت فرقہ پرستی اور جہا لت نے ان رویوں پر تیل ڈالنے کا کام کیا ہے جس کی وجہ سے آج شحصیت پرستی کے وائرس میں مبتلا عوام سوشل میڈیا پر اخلاقی دیوالیہ پن کی آخری حدوں کو بھی کراس کر چکے ہیں حتی ، مولانا عبید اللہ سندھی کا ایک قول ہے کہ غلام قوم کے معیار بھی عجیب ہوتے ہیں ، شریف کو بے وقوف، مکار کو چالاک ، قاتل کو بہادر اور مالدار کو بڑا آدمی سمجھتے ہیں ، ہم اس وقت ایسی ہی غلامی سے گزر رہے ہیں اور یہ ذہنی غلامی ہے ، غلامی کی قبیح ترین صورت ذہنی غلامی۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :