”کیا وزیر اعظم سے مستعفی ہونے کا مطالبہ غیر آئینی ہے؟“

ہفتہ 23 اگست 2014

Haroon Adeem

ہارون عدیم

یہ تحریر آپ تک پہنچنے سے پہلے نہ جانے کیا کچھ ہو جائے،کیونکہ تھرڈ ایمپائر کی جانب سے دی گئی مہلت (کہ دونوں فریق دھرنا دینے والے اور حکومت 48 گھنٹوں کے اندر اندرمکالمے کے ذریعے مسئلے کا حل ڈھونڈیں۔)گزرنے میں چند گھنٹے رہ گئے ہیں۔ ن لیگ کا موٴقف جناب عمران خان اور جناب طاہر القادری کی طرح بڑا واضح ہے، کہ جو ہونا ہے ہو جائے وزیر اعظم مستعفی نہیں ہونگے۔

جبکہ ڈیڈ لاک ہی یہی ہے کہ دونوں دھرنے دینے والی پارٹیوں کا پہلا مطالبہ وزیر اعظم کا استعیفےٰ ہے۔ خواندگان اکرام کو یاد ہو گا کہ اسی ماہ ہم نے انہیں صفحات کی وساطت سے یہ عرض کی تھی کہ ن لیگ کی یہ شدید خواہش ہے کہ عسکری قیادت انہیں گھر بھیجے، تا کہ ن لیگ کو سیاسی لائف لائن مل سکے، اس وقت صورتحال یہ ہے کہ سیاسی طور پہ ن لیگ کو خاصا نقصان پہنچ چکا ہے۔

(جاری ہے)

مہنگائی، لوڈ شیدنگ، بیروزگاری،امن و امان جو کہ عوامی مسائل ہیں ان میں سے کسی کی جانب بھی پیش رفت نہیں ہو پائی۔ن لیگ کو یہ ادراک ہو گیا ہے کہ دہ ان مسائل پر قابو نہیں پا سکتی۔اگر وہ موجودہ بحران میں جناب عمران خان یا جناب طاہر القادری کے دباوٴ میں آ جاتی ہے تو رہی سہی سیاسی ساکھ بھی جاتی رہے گی۔لہٰذا ن لیگ کی پوری کوشش ہے کہ عسکری قیادت انہیں فارغ کر دے۔

تا کہ وہ عوام کے پاس جا کر انہیں بتا سکیں کہ وہ تو اس ملک کا مقدر بدلنے والے تھے مگر ہمیشہ کی طرح انہیں اور ان کی پالیسیوں کو چلنے نہیں دیا گیا۔اوراس کو بنیاد بنا کروہ ”ہمدردانہ اور مظلومیت کا ووٹ“ حاصل کر سکیں۔اس لئے ن لیگ ہر وہ اقدام کر رہی ہے جس سے عسکری قیادت صبر کا دامن چھوڑ کر ان کو نئی لائف لائن کے ساتھ گھر بھیجے، اب اصل بحران یہاں سے شروع ہوتا ہے، عسکری قیادت کسی طور مارشل لاء نہیں لگانا چاہتی، حالات بتاتے ہیں کہ وہ ن لیگ کو سیاسی طور پر اتنا گندا کر دینا چاہتی ہے کہ وہ سیاسی طور پر زندہ نہ رہ پائے۔

اب یہ بحران کس کو لے ڈوبتا ہے یہ فیصلہ ہونا باقی ہے،اگر جناب عمران خان اور جناب طاہر القادری وزیر اعظم کا استعیفٰے لئے بغیر بھی واپس چلے جاتے ہیں تو وہ سب کچھ نہیں کھوئیں گے۔ مگر حکومت سب کچھ کھو دے گی۔ کچھ سیاسی پنڈتوں کا کہنا ہے کہ ن لیگ کی قیادت یہ کیوں سمجھتی ہے کہ اگر اب کی بار اگر وحید کاکڑ فارمولا، استعمال ہوا یا اللہ نہ کرے، ضیاء الحقی ایکشن دہرایا گیا تو انہیں سیاست کرنے دی جائے گی۔

۔۔۔۔۔۔؟
دوسری جانب موجودہ سیاسی بحران سے نپٹنے کے لئے حکومت نے پارلیمنٹ میں موجود گیارہ ساسی جماعتوں کی حمایت حاصل کر لی ہے۔ گزشتہ روز ایک قرارداد بھی منظور کروائی گئی ہے کہ جمہوریت اور پارلیمنٹ کا دفاع کیا جائے گا اور یہ کہ وزیر اعظم سے مستعفی ہونے کا مطالبہ غیر آئینی اور غیر جمہوری ہے۔اب حکومت اس کو بنیاد بنا کر پی ٹی آئی اور پی اے ٹی کے پراپیگنڈہ کا جواب دے رہی ہے،اقتدار کی غلام گردشوں سے اب یہ آوازیں آ رہی ہیں کہ ایک گروہ کو جمہوریت اور ایوان کو تہہ و بالاکرنے کی اجازت نہیں دی جا سکتی۔

سوال یہ ہے کہ جس جمہوریت میں عوام کو احتساب کا حق نہ ہو، ووٹر حکمرانوں کا گریبان نہ پکڑ سکتا ہو، کیا وہ جمہوریت ہے۔۔۔۔؟ یہ لاکھوں افراد جو ڈیمانڈ کر رہے ہیں کیا غیر آئینی اور غیر جمہوری ہے۔۔۔۔۔۔؟ اگر سیاسی جماعتیں ان وعدوں سے پھر جائیں جن کی بنیاد پر انہوں نے ان سے مینڈیٹ حاصل کیاتھا تو کیا عوام کو یہ حق حاصل نہیں کہ وہ حکمرانوں سے باز پرس کر سکیں ۔

ان سے ان کی کارکردگی کو جواز بنا کر مستعفی ہونے کا مطالبہ کر سکیں۔۔۔۔۔۔؟
سوال یہ بھی پیدا ہوتا ہے کہ کیا اس ملک کے عوام اور ووٹر صرف حکمران چننے کے لئے پیدا ہوتے ہیں،کیا ان کو احتساب کا حق نہیں۔۔۔؟یہ بھی ایک دلچسپ مذاق ہے کہ حکمران یہ تکرار کرتے تھکتے نہیں کہ انہیں اٹھارہ کروڑ عوام نے مینڈیٹ دیا ہے۔ وہ کس کو یہ بات بتا رہے ہیں۔

اگر اس دھاندلی زدہ انتخابات کے اعداو شمار مان بھی لئے جائیں تو پتہ چلتا ہے کہ ن لیگ نے1,47,94,188 ووٹ حاصل کیئے ہیں ،مگر دعوہ اٹھارہ کروڑ کے مینڈیٹ کا کیا جاتا ہے۔ کیا یہ بھی جمہوریت کی روح کے منافی نہیں، یا کیا اسے اصلی جمہوریت کہا جا سکتا ہے، کہ ساڑھے سولہ کروڑلوگوں نے ایک جماعت کو سرے سے چنا ہی نہیں اور وہ ان پر حکومت کرے۔۔۔۔؟
ہمارا ماننا یہ ہے کہ تب تک معاملات سدھار کی جانب نہیں جا سکتے جب تک دونوں فریق سخت موٴقف سے دست بردار نہیں ہوتے۔

اور اس میں زیادہ ذمہ داری حکومتی کیمپ کی ہے۔ کہ وہ اپنے روّیے میں لچک پیدا کرے، اور اپنے وزیروں مشیروں کو اشتعال انگیز بیانات دینے سے روکے۔ زمینی حقیقتوں کا ادراک کرے۔موجودہ لانگ مارچ اور دھرنا جمہوریت کا حسن ہے۔ جمہوری عمل اس نہج پر پہنچ گیا ہے، کہ اب سیول سوسائٹی متحرک ہو گئی ہے۔ لوگ بغیر کسی توڑ پھوڑ کرنے کے اور اپنے حقوق کے لئے آواز اٹھانے لگے ہیں، انہوں نے حکمرانوں کا احتساب کرنا شروع کر دیا ہے۔

اب یہ نہیں ہو گا کہ لوگ پانچ سال تک انتظار کریں۔ حکومتوں کو ڈلیور کرنا پڑے گا۔
اب تھوڑی سی بات جناب عمران خان اور جناب طاہر القادری کے مطالبات پر ہو جائے۔عمران خان کا یہ کہنا کہ الیکشن کمیشن کی تشکیل نو کی جائے، انتخابات میں دھاندلی کرنے والوں کو کڑی سزائیں دی جائیں، انتخابی اصلاحات کی جائیں، تمام سیاسی جماعتوں کو قابل قبول ہیں، ماسوائے دھاندلی کے نتیجے میں معرض وجود میں آنے والی اسمبلیوں کی رخصتی اور وزیر اعظم کے مستعفی ہونے کے مطالبے کے، جبکہ حکومت جناب طاہر القادری کے اس مطالبے اور عدالتی حکم نامے کے باوجود کہ سانحہ ماڈل ٹاوٴن کی ایف آئی آر درج کی جائے، ایف آئی آر درج کرنے کو تیار نہیں۔

اب جہاں تک اسمبلی میں موجود سیاسی جماعتوں کے اتحاد کی بات ہے تو یہ ہر گز ہر گز جمہوریت کو بچانے کے لئے نہیں، بلکہ مال غنیمت کی بندر بانٹ میں اپنا حصہ سمیٹنے کی مہلت حاصل کرنے کے لئے ہے۔ وہ لوگ جو کروڑوں لگا کر انتخابات جیت کر عوامی نمائندگان کی مسند پر براجمان ہوئے ہیں۔وہ کب یہ چاہیں گے کہ مال غنیمت کی لوٹ مار سے پہلے اسمبلیاں ہی نہ رہیں، کیونکہ قومی وسائل کی لوٹ مار کا مینڈیٹ تو پانچ سال کا ہے۔


ابھی ابھی اطلاع ملی ہے کہ تحریک انصاف کے جناب شاہ محمود قریشی اپنے ایم این ایز کی معیت میں سپیکر قومی اسمبلی کے پاس اپنے استعیفے جمع کروانے جا رہے ہیں،لگتا یوں ہے کہ وحید کاکڑ فارمولے پر عملدرآمد کا وقت قریب آتا جا رہا ہے۔ دیکھنا یہ ہے کہ ن لیگ اپنی حکمت عملی میں کامیاب ہوتی ہے کہ عسکری قیادت انہیں گھر بھیجے یا تھرڈ ایمپائر سیاسی بساط پر حکمرانوں کو شہہ مات دینے میں کامیاب ہوتا ہے۔

کیونکہ پی اے ٹی اور پی ٹی اے کے پاس اس حملے میں ناکامی کا داغ لے کر جانے کے علاوہ کھونے کو کچھ نہیں۔ وہ اس ملک کے پسے ہوئے مظلوم،مجبور،بے کس عوام کی آواز بن چکے ہیں۔
اور آخری بات جب سیاسی جماعتیں انتخابات کا بائیکاٹ کرتی ہیں تو کیا انہیں سیاست کرنے کا حق نہیں رہتا، وہ عوامی نمائندگی کے حق سے دستبردار ہو جاتی ہیں اور اچھوت بن جاتی ہیں۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔؟

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :