حکومت پنجاب کی نئی سازش

ہفتہ 23 اگست 2014

Hafiz Muzafar Mohsin

حافظ مظفر محسن

تاریخ بتاتی ہے کہ ہر دور میں "کہانی نویس" یا" قصہ گو"موجودہوتے ہیں۔اور ان کی بات توجہ سے سننے والے بھی ۔سنا ہے بغداد کے بازاروں میں "قصہ گو"ہر شام میلہ لگاتے اور لوگ جو کہ پہلے سے ہی ان کے منتظر ہوتے تھے ،ہمہ تن ہو جاتے اور جوں جوں رات ہونے لگتی یہ قصہ گو معاملے کو عروج پر پہنچاتے اور پھر کہانی کو چھوڑ کر نکل جاتے۔

اس ادھوری کہانی کی اگلی قسط کے لیے "معصوم"لوگوں کو اگلی شام کا انتظار کرنا پڑتا۔عطا الحق قاسمی صاحب آج کل مصروف ہیں ورنہ میں ان سے پوچھتاکہ حضور یہ سب کیا تھا ؟ویسے مجھے پتہ ہے کہ وہ فورا کہتے "حافظ صاحب یہ فائدے نقصان کی بات نہیں اس سے قصہ گو اور حاضرین دونوں کا دل لگا رہتا ہے کہ ایسی شامیں ادھوری کہانیوں اور نئی امیدوں کے ساتھ ختم ہو جاتی ہیں"
میں جب بھی لاہور سے باہر جاتا ہوں اور کسی ہوٹل میں رہنا پڑے تو سب سے پہلے ہوٹل میں کمرہ کرائے پر حاصل کرتے ہوئے "واش روم"ضرور چیک کرتا ہوں دوست اکثر بد تمیزی کرتے ہیں کہ تمھیں ہوٹل میں اچھے کمرے کی نہیں اچھے واش روم کی تلاش رہتی ہے میں کیسے بتاؤں کہ آپ کے اگلے پورے دن کا دارومدار آپ کے اچھے واش روم پر ہی تو ہوتا ہے دوسرے شہروں میں دوست خاطر مدارت جوخوب کرتے ہیں۔

(جاری ہے)


ہر سال اکتوبر نومبر میں شہر لاہور میں تبلیغی جماعت کا سالانہ اجتماع ہوتا ہے۔ جس میں لاکھوں لوگوں کی آمد ہوتی ہے۔ جب بھی یہ مذہبی اجتماع ہوتا ہے تو ہم مدتوں سے دیکھ رہے ہیں کہ اجتماع کے آغاز سے مہینہ پہلے ہی انتظامیہ قطار اندر قطار بنے سینکڑوں بلکہ ہزاروں واش روموں کی صفائی ستھرائی کا انتظام کرتی ہے۔وافر مقدار میں پانی مہیا ہوتا ہے۔

سفیدی کروائی جاتی ہے اور پھر لاکھوں لوگ جب اس اجتماع میں آتے ہیں تو انہیں پانی پیتے ہوئے ڈر نہیں لگتا کیونکہ پیشاب کرنے کے لیے واش روم جو موجود ہوتے ہیں ویسے بھی وہ نیک مقصد میں آتے ہیں اور طہارت کا خیال بھی رکھتے ہیں اور اس میں سے کوئی بھی ایسا نہیں ہوتا جسے "حاجت "کے لیے دیوار کا سہارا لینا پڑے یا کسی ٹرک کے پیچھے چھپ کر اپنا بوجھ ہلکا کرنا پڑ جائے۔


افسوس بلکہ شدید دکھ کی بات ہے کہ ہمارے دو آنے والے دنوں کے وزرائے اعظم نے جب وہ دس+دس =بیس لاکھ کارکنان کو لامحدود ایام کے لیے لے کر اسلام آباد روانہ ہونے لگے تو اس بات پر سوچا ہی نہیں کہ جہاں بیس لاکھ ورکرز ہوں گے وہاں نوے ہزار تین سو اکہتر واش رومز بھی تو ہونے چاہییں کہ پندرہ بیس دن جب یہ کھاتے پیتے گھروں کے لو گ جن میں بے چاری خواتین بھی ہیں اور دودھ پیتے بچے بھی ہیں وہ لمبی چوڑی تقریریں ہضم کرنے کے بعد کہیں واش روم کی تلاش میں مارے مارے نہ پھرنے لگیں اور یہ واحد حاجت ہے جس کے لیے انسان کو کسی چھوٹے بڑے سے اجازت نہیں لینا پڑتی ۔

مجھے جب بھی ایسی کوئی حاجت ہو تو میرے دوست میرے ساتھ کوئی "صلاح مشورہ"اس وقت یہ کہتے ہوئے نہیں کرتے کہ"اب اسے ہماری بات بھلا کب سمجھ آئے گی؟"
میں لمبی بات کرنے کا عادی نہیں بس دونوں آنے والے دنوں کے وزرائے اعظم سے میری درخواست ہے کہ اگلے سال جب وہ دوبارہ اسلام آباد جشن آزادی یا انقلاب منانے آئیں تو ہر اول دستے کے طور پر پچیس تیس ہزار نوجوانوں کو مہینہ پہلے اسلام آباد ضرور روانہ کریں کہ وہ لاکھ دو لاکھ واش رومز تعمیر کروا سکیں کیونکہ اس بار اسلام آباد کے لوگوں نے خاص طور پر خیابان سہر وردی ، آبپارہ مارکیٹ اور شاہراہ کشمیر کے لوگوں نے شکایت کی ہے کہ وہاں بے پناہ تعفن پھیل رہا ہے اور خطرناک بیماریوں کے پھیل جانے کا اندیشہ ہے۔

امید ہے حکومت اور وہ قوتیں جو معاملے کو افہام و تفہیم کے ذریعے حل کرنا چاہتی ہیں میرے اٹھائے اس نقطہ پر خاص توجہ دیں گی۔کیونکہ ممکن ہے کل طا ہرالقادری اور عمران خان اس تعفن کا ذمہ دار حکومت پنجاب کو قرار دیں۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :

متعلقہ عنوان :