پرے شان

جمعرات 21 اگست 2014

Nadeem Tabani

ندیم تابانی

”جی خان صاحب کہیے!“
”100رپے کاایزی لوڈ کروانا ہے ، مگر۔۔۔۔۔“
مگر کیا؟“
”ام کو پورا 100کابیلنس چاہیے“
”کیا مطلب خان صاحب؟“
بھئی تمارا حصہ ام تم کو الگ سے دے گا، دو تین رپے ہو گا نا ، تم تو آکرامارا بھائی ،تم سے کوئی لڑائی نہیں ہے“
”خان صاحب میں آپ کی بات نہیں سمجھ پا رہا ،پتا نہیں آپ کیا کہنا چاہ رہے ہیں؟“
”مطلب تم کو ابی پتا ای نئی“
”واقعی سمجھ نہیں آ رہی آپ کی بات!“
”دیکو ام ٹیکس میکس نئی دے گا،امارا لیڈر نے منع کیا ہے ، نواز شریف سارا ٹیکس کا جاتا ہے“
”کس نے منع کیا ہے؟“
”ایک ہی تو لیڈر اے امارا عمران کان ، اس نے رات بوت بڑا جلسہ کیا ہے، درنا مرنا دیا ہے نااس نے ،یہ تو تم جانتا ہے نا!“
”ہاں یہ میں جانتا ہوں، سب کو پتا ہے “
تو اب تم کو پتا اونا چاہیے، عمران کان نے کہا ہے ، کوئی بجلی کا بل دے ، نہ پانی کا، نہ گیس کا ، نہ فون کا، نہ کوئی ٹیکس دے، تو ام یہ بول رہا ہے کہ ام کو پورا 100 بیلنس چاہیے،تمارا ام خدمت کرے گا ، 3رپے دے گا، مگر ٹیکس بالکل نئی دے گا“
”خان صاحب اس سے کس کو نقصان ہو گا؟“
” نواز شریف کو ، اس نے سب کا ٹیکس جمع کر کر کے لندن اور پتا نئی کہاں کہاں اتنا مہنگا گھر بنایا ہے، ام کیوں اس کو ٹیکس دے وے“
”خان صاحب یہ رقم نواز شریف کے پاس تو نہیں جائے گی ، اس میں تو موبائل کمپنی سمیت تمام متعلقہ ادارے شامل ہیں، جو آپ کو سروس دے رہے ہیں، اور وہ اس سروس کی قیمت لیتے ہیں، اور جو ٹیکس ہے وہ قومی خزانے میں جمع ہوتا ہے، اور یہ تو سب کمپیوٹرائز نظام ہے ،سروس چارج اور ٹیکس کو الگ الگ کرنے کا کوئی طریقہ نہیں“
”یہی تو سارا بات ہے، عمران نے بتایا ہے ، نواز شریف بڑا اوشیار آدمی ہے ، سب کو ساتھ ملایا ہوا ہے، کمپنی ،ومپنی، سب کو لالچ دیتا ہے ،بڑااوشیار اے میاں صاحب “
” مگر خان صاحب آپ بجلی کا بل نہیں دیں ، گے بجلی کٹ جائے گی ، پانی کا بل نہیں دیں پانی بند ہو جائے گا، گیس کا نہیں دیں گے ، گیس کٹ جائے گی ، یہ ادارے تو گورنمنٹ کی بات مانیں گے، خان صاحب کی تو نہیں، بجلی کٹ گئی ، پانی بند ہو گیا ، گیس کٹ گئی تو پہلا نقصان آپ کا ہو گا، خان صاحب کا کیا جائے گا؟حکومت کی باری بھی بعد میں آئے گی ، اس کانقصان تو شاید پورا ہو جائے ، آپ کیا کرئیں گے؟
” ارے بابا عمران خان نے نواز شریف سے استیپا مانگا ہے، استیپا دینا پڑے گا، جب وہ استیپا دے گا تو ام سب بل برے گا، لڑائی تو میاں صاحب سے ہے ساراگورنمنٹ سے تو نہیں نا“
”استعفا مانگا ہے عمران خان نے نواز شریف سے، بل آپ گورنمنٹ کو نہیں دے رہے،مطلب آپ کے لیڈر نے آپ کو پھنسا دیا ہے، خان صاحب کی لڑائی میاں صاحب سے ہے، آ پ کو وہ حکومت سے لڑوانا چاہتے ہیں، حکومت ایک بندے کا نام تو نہیں، جس طرح ایک آدمی کے آنے سے نظام ٹھیک نہیں ہو سکتا اسی طرح ایک کے جانے سے بھی ٹھیک نہیں ہوگا۔

(جاری ہے)

پھر ذرا یہ بھی سوچیں آپ ٹیکس نہیں دینا چاہتے ، صرف موبائل کارڈ پر ہی ٹیکس نہیں لگتا، کھانے پینے، اوڑھنے پہننے اور استعمال کی ہر چیز پر ٹیکس لگتا ہے ،حکومت کا نقصان تو چلیں ہو گا یا نہیں مگر آپ کا بھی تو ہو گابھوکے نہیں رہ سکتے ، کھانے کو کچھ لیں گے تو بلاٹیکس کیسے لیں گے؟“
”او ہو ! یہ کیا تماشا ہے،تم کچھ بولتا ہے ، کان صاب کچھ اور بولتا ہے ام کس کا بات مانے؟“
”آپ بھلے اپنے لیڈر کی بات مانیں ، میں تو آپ کا دوست ہوں، وہی بتاؤں سمجھاؤں گا جو خود کروں گا“
”مگر یہ تو بتاؤ کیا عمران کان نے ہم کو بے وقوف بنایا ہے؟“
”بنی ہوئی چیز کو کیا بنانا خاں صاحب“!
” ایں ایں کیا بولا تم ، مطلب تم ام کو بے وقوف سمجھتا ہے ؟“
”نہیں خان صاحب ! میں مذاق کر رہا ہوںآ پ دل پر نہ لیں“
”دل پے نہ لیوے تو کیا جگر پے لیوے ، ام تو بوت پرے شان ہو گیا ،اے پتا نہیں کون سئی ہے کون گلط؟

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :