مجھ سے نہ کھیلو

اتوار 17 اگست 2014

Abdul Mateen Siddiqui

عبدالمتین صدیقی

ہر کام کرنے کی ایک عمر ہوتی ہے، بچے بڑوں میں بیٹھ کر بڑا بننے کی کوشش کرتے ہیں تو وہ بد تمیزی میں شمار ہو تا ہے۔اسی طرح اگربڑے بچوں جیسی حرکتیں کرنے لگ جائیں تو ان کو کہا جاتا ہے ۔ ابھی تک بچپنا ہی ہے، کامیاب انسان بننے کے لئے یہ دونوں حرکتیں اپنے اپنے وقت پر اچھی لگتی ہیں۔ ماں اگر چولہا جلانے کے لئے ماچس کی تیلی ہاتھ میں تھامے تو زیب دیتا ہے اور اگر وہی جلتی ہوئی ماچس کی تیلی ماں بچے کو تھما دے تو وہ اپنا ہاتھ جلا لے گاکیو ں کہ ہر چیز کھیلنے کے لئے نہیں ہوتی۔

ماں اگر وقتی فائدہ دیکھے کہ بچہ خاموش ہو گیا ہے اور بعد میں وہ اپنا ہاتھ جلا لے تو پریشانی ماں کو ہی ہو گی۔ اسی طرح عوام ماں کی طرح اور ووٹ ماچس کی تیلی کی طرح ہے۔اگر ووٹ ملک کا دیا جلانے کے لئے دیتے ہو تو فائدہ تمھارا ہی ہو گااور اگر ووٹ وقتی فائدے کو دیکھ کر دیتے ہو تو پریشانی بھی تمھیں اٹھانی پڑھتی ہے۔

(جاری ہے)

آخر کب تک بریانی کے لئے اپنا ووٹ بیچو گے۔

زمین انسان کو رزق دیتی ہے اور اس کے مرنے کے بعد انسان کو اپنا رزق بنا لیتی ہے۔ پرندہ زندہ ہو تو چیونٹیاں کھاتا ہے اور جب پرندہ مر جاتا ہے توچیونٹیاں پرندے کو کھاتی ہیں۔ ایک درخت ایک لاکھ ماچسیں بنا سکتا ہے مگر ماچس کی ایک تیلی ایک لاکھ درخت جلا سکتی ہے۔وقت ایک سا نہیں رہتا ۔جب وہ سیاستدان جو حکومتی ایوان میں بیٹھے ہیں لانگ مارچ کرتے تھے آج دوسری جماعتوں کی لانگ مارچ میں رکاوٹیں پیدا کیوں کر رہے ہیں۔

شیرجنگل کا بادشاہ ہے اور کسی کو جنگل میں آنے سے نہیں روکتاپھربادشاہی حکومت کیوں روکنے کے ہتھکنڈے استعمال کر رہی ہے۔ !!کیا یہ کھلا تضاد نہیں!!پاکستان چیخ چیخ کے قوم کے ہر فرد کو پکار رہا ہے مجھ سے نہ کھیلو! مجھ سے نہ کھیلو!ہر چیز کھیلنے کے لئے نہیں ہوتی۔ تم کب بڑے ہو گے۔میرا آدھا حصہ تم نے اپنے بچپنے میں جلا دیا ، دوسری قومیں اپنی غلطیوں سے سیکھتی ہیں لیکن تم اپنی غلطیوں سے کیوں نہیں سیکھتے اب تو بڑے ہو جاؤ۔

تم یہ کیوں بھول جاتے ہوجس طرح تم اپنے گھر کی صفائی کرتے ہوپاکستان بھی تمھارا گھر ہے اس کی صفائی اور حفاظت تم پر فرض ہے۔ تم مجھے فرقوں میں کیوں بانٹ رہے ہو کیوں تم دوسروں پہ انگلی اٹھاتے وقت اپنے گریبان میں جھانکنا بھول جاتے ہو۔
اے حکمرانوں کب تم میری بھی خواہش پوری کرو گے کہ میں بھی ایک دن ترقی کی ٹپڑی پر چڑھ جاؤں جہاں میرا دوست چائنااپنے سفر پرگامزن ہے۔

ہمیشہ تم اقتدار میں آنے سے پہلے میری خواہش پوری کرنے کے گن گاتے ہو مگر آنے کے بعد مجھے ایسے نکالتے ہو جیسے دودھ سے مکھی۔بے وقوفوں میں تم سے نہیں تم مجھ سے ہو۔حکمرانوں تم عوام اور مجھ سے ایسے بدلتے ہوجیسے نافرمان بیٹا شادی کے بعداپنی ماں سے بدلتا ہے۔ حکمرانوں تمھیں مجھ سے کی ہوئی زیادتیوں اور عوام تم کواپنے دئیے ہوئے ووٹ کا حصاب قیامت کے دن ضروردینا ہو گا۔

ابھی بھی وقت ہے اپنے گناہوں سے توبہ کرو اور مجھ سے نہ کھیلومیری خواہش تھی کے مجھ میں بسنے والے لوگ دنیا کے کسی بھی کونے میں جائیں تو انھیں عزت کی نظر سے دیکھا جائے مگر تم نے میری اس خواہش پہ بھی پانی پھیردیا ۔ اب تو میری آنکھ سے بہنے والے آنسوبھی خشک ہو گئے ہیں۔ اپنے پہ اور مجھ پہ رہم کھاؤ کیونکہ موج اڑے یا آندھی آئے دیا جلائے رکھنا ہے ،گھر کی خاطر سو دکھ جھیلیں گھر تو آخر اپنا ہے۔

مجھ میں بسنے والے لوگوں مشکل حالات میں تو اپنے دور دراز سے آتے ہیں اور تم دہشت گردی اور دیگر مشکلات میں مجھے تنہا چھوڑ کر دیگر ممالک میں ٹھکاناڈھونڈرہے ہو۔ تم چاہے جہاں بھی چلے جاؤ میں جب تک زندہ ہوں تمھے کبھی نہیں چھوڑوں گا میں تم کو اپنا نام دوں گا تم پاکستانی ہی کہلاؤ گے ۔مجھے کبھی شرم نہیں آئی کے تم مجھ سے ہو پھر تم کیوں شرماتے ہو اپنے آپ کو پاکستانی کہتے ہوئے۔

مجھے دکھ ہوتا ہے جب میں اپنی سنتا ہوں کہانی گلیوں میں بسنے والوں کی زبانی کہ ”پاکستان ایک جان تھی جسے تیر آکر لگا اور پاکستان زخمی ہو گیا،خبر پتنگ کی طرح اڑتی ہوئی اور دشمنوں تک پہنچی پھر شیر نے حملہ کیا اورچیر دیا۔ بچی کھا ل ،لو گ سائکل پہ لالٹیں اور ترازولئے کھال کی تلاش میں تھے تاکہ اس کا وزن کر سکیں پھرڈر لگا کہیں یہ کھال کسی کینسر کے ہسپتال کی نظر نہ ہو جائے“بعد میں پتا چلا یہ ایک خواب تھا جو یہاں بسنے والے لوگوں کو آتا ہے اور وہ آپس میں اس کاذکر کرتے ہیں۔


شکر ہے یہ خواب تھا اے قوم میں تم سے جدائی برداشت نہیں کر سکتا ! نہیں کر سکتا!ابھی بھی وقت ہے مجھ سے نہ کھیلویہ تمھارا گھر ہے کوئی کھیل کا میدان نہیں۔ مایوسی گناہ ہے اسی لئے میں اتنے برے حالات میں بھی پُراُمید ہوں کہ مجھ میں بسنے والی نوجوان نسل اپنی ذمہ داری کا احساس کرتے ہوئے مجھ سے وفع کرے گی ۔ جس طرح بچی گڑیا کو سنبھال کے رکھتی ہے ویسے ہی یہ قوم مجھے سنبھال کے رکھے گی ۔ یہ قوم صبح کی بھولی شام کو ضرور لوٹے گی۔ یاد رکھنا ہم لائے ہیں طوفان سے کشتی نکال کے اس ملک کو رکھنا میرے بچوں سنبھال کے۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :