شیر ، بکری، پائیڈ پائپر اور انقلاب

جمعرات 14 اگست 2014

Jahid Ahmad

جاہد احمد

چیئرمین پاکستان تحریکِ انصاف خیر منائیں! مرشدی نے اپنی روح پرور انقلابی تقریرکے مندرجات بارے وضاحتی بیان جاری کرتے ہوئے مریدین پر آشکار کر دیا ہے کہ انقلاب لائے بغیر واپس آنے والے شرکاء کو قتل کرنے کا حکم غلط سمجھا گیا درحقیقت یہ حکم محض عمران خان اور بذاتِ خود طاہرالقادری کے حوالے سے دیا گیا ہے۔ اس وضاحتی بیان کے بعد تحریکِ انصاف کے نوجوانوں کی تو جان میں جان آ جانی چاہیے کیونکہ مریدین سے مقابلہ کرتے تو پنجاب پولیس کو بھی دانتوں تلے پسینہ آ گیا تھا جبکہ یہ ہونہار پیارے پیارے سے جوان زیادہ سے زیادہ ٹرک ڈرائیوروں کی پٹائی کرنے کا مختصر سا تجربہ رکھتے ہیں ۔

نہ ان کے ہاتھوں میں کیلوں والے ڈنڈے، نہ چہروں پر گیس ماسک، نہ آنسو گیس سے کھیلنے میں مشتاق، نہ ان کو شہادت کی خواہش، نہ جنت میں داخلے کی جلدی، نہ ان کو اسلامی نظامِ زندگی چاہیے! یہ بیچارے تو نا دانستہ پاکستانی پائیڈ پائیپر(Pide Piper) کے ذاتی ایجنڈے کی تکمیل کی خاطر اس کے پیچھے پیچھے تبدیلی اور حقیقی جمہوریت کی سریلی دھن سنتے پاکستان کو گہرے گڑھے میں گرانے چلتے چلے جا رہے ہیں۔

(جاری ہے)

دوسری جانب چونکہ قادری صاحب کی 99.99% باتیں عام افراد کیا ان کے مریدین تک کو سمجھ نہیں آتیں اسی لئے ان سے درخواست ہے کہ پاکستان کی حالت پر رحم کھاتے ہوئے اصلی آزادی کے شیدائیوں اور انقلابی مریدین کی قیمتی زندگیوں کی حفاظت کے پیش نظر اپنی طویل تر انقلابی تقریر کو درست طور پر سمجھے جانے اور جملوں میں ابہام کے عنصر کے خاتمے کے مقصد سے ایک مکمل وضاحتی مراسلہ جاری فرما دیں! یہ بھی کیا جا سکتا ہے کہ قادری صاحب انقلاب سے پہلے کسی رات ہم سب کے خواب میں ظہور پذیر ہو کر مندرجات کی تشریح خود سے فرما دیں ۔

انقلابی اور ہم عوام سوبھی لیں گے جبکہ اذہان بھی شیشے کی طرح صاف شفاف ہو جائیں گے۔ کہیں ایسا نہ ہو کہ مبہم احکامات کی تعمیل کے چکر میں نا حق مریدین خان صاحب کی چھٹی اس دنیا سے کرا دیں اور مصیبت میں شریف برادران آجائیں۔کیا منظر ہو گا!خان صاحب اور قادری میاں نظام پر تلوار لٹکا کر بیٹھے ہوں گے جبکہ خود خان صاحب پر مرشدی کے مریدین کی تلوار لٹک رہی ہو گی۔


خوب گزرے گی جو مل بیٹھیں گے دیوانے دو
بات ناشائستہ لیکن ضروری ہے کیونکہ بہر حال خان صاحب کی زندگی بھی قیمتی ہے اور انہوں نے ملک و قوم کے لئے بہت سے فلاحی کام سرانجام دیے ہیں!کیونکہ خان صاحب بھی ہماری طرح انسان ہیں تو ایسی خطرناک صورتحال میں خان صاحب کو فطری ضرورت کے تحت دھرنے سے اٹھ کر جانا بھی پڑا تو برائے مہربانی قادری صاحب کو کان میں بتا کر جائیے گا یا آسانی کے لئے اشارہ بھی مخصوص کیا جا سکتا ہے۔

بہر طور مطلع تو کرنا پڑے گا،قادری صاحب کو بھی اور مریدین کو بھی! کیونکہ مریدین اپنے دماغ سے نہیں مرشد کی زبان سے سوچتے ہیں اورآزادی کے متوالے آپ کو اتنی سی بات پر کھونا نہیں چاہتے۔ ابھی تو آپ کو اور بہت سا انتشار اور انارکی ملک میں پیدا کرنی ہے!! ایسی ہی کسی قربانی بارے حضرتِ احمق پھپھوندوی فرما گئے:
اگر ہم جان بھی دے دیں محبت میں تو کیا حاصل
وہاں عاشق کی خدمت قابلِ تحسیں نہیں ہوتی
دیوانگی و حماقتوں سے صرفِ نظر کر کے آگے بڑھیں! انقلاب اور آزادی مارچ کے خلاف حکومتی اقدامات جلتی پر تیل چھڑکنے کا کام کر رہے ہیں۔

یہ بات سمجھنا راکٹ سائنس نہیں کہ حکومتِ وقت جتنا زیادہ ردِ عمل کا مظاہرہ کرے گی اس احتجاج کو اتنی زیادہ تقویت اور اہمیت ملتی چلی جائے گی۔ حکومت کے لئے بہترین ردِ عمل یہی ہو سکتا تھا اور اب بھی ہو سکتا ہے کہ ان دونوں حضرات کو اپنا اپنا شوق کھل کر پورا کرنے کا پورا پورا موقع فراہم کیا جائے۔ ان کے احتجاج کے لئے جگہ مخصوص کر کے ان کو بیٹھنے دیا جائے اور اس کے بعد اگر ان کی جانب سے کسی قسم کی امن و امان کی صورتحال خراب کی جاتی ہے تو ذمہ داری ان کے رہنماوؤں پر عائد ہوتی ہے! پھر قانون کے تحت ان کے خلاف کاروائی پر کسی کو کوئی اعتراض بھی نہیں ہو سکتا ۔

لیکن اس کے برعکس حکومت کی کنٹینر پالیسی کے تئیں عوام جو کیڑے مکوڑوں کی طرح زمینوں پر کنٹینروں کے نیجے رینگنے پر مجبور ہوئے سو ہوئے حکومت، سیکیورٹی ادارے اور انقلابی و حقیقی آزادی کے سپاہی ایک تصادم کی سی فضاء میں آمنے سامنے کھڑے دکھائی دے رہے ہیں۔ دوسری جانب فوج پہلے ہی آرٹیکل 245 کے نفاذ کے بعد اسلام آباد میں موجود ہے۔
حکومت کی فیصلہ سازی میں زرداری صاحب ورگا ایک بھی معاملہ فہم سیاست دان شامل ہوتا تو حالات یقینا اس نہج پر نہ آتے! مظاہرین کے خلاف لئے گئے حکومتی انتظامی فیصلوں اور آزادی مارچ میں قادری صاحب کی پر تششدد و ہنگامہ خیز انقلابی مارچ کی شمولیت کے باعث حکومت، مظاہرین اور سیکیورٹی ادارے ایسی تکون کی شکل اختیار کر چکے جس کا ہر کونہ بھر پور فسادکی جانب اشارہ کر رہا ہے۔

مقتدرِ اعلی سے بہتر کون جان سکتا ہے کہ فوج اس ملک کے اقتدار کی تاریخ کا اہم ترین سچ ہے۔ یہ ایسا شیر ہے جس کی زبان اقتدار کے خون کا مزہ برس ہا برس چکھتی رہی ہے ! ایسا شیر جو فی الوقت تمام تر قوت رکھنے کے باوجود اور اپنی عادات کے برخلاف بظاہر اپنی حدود میں کام کرتا دکھائی دے رہا ہے ۔ ایسے زور آور شیر کے سامنے جا جا کر بکری ننگا ناچ ناچے گی تو بالآخر نتیجہ کیا ہوگا یہ سمجھنے کے لئے بلاشبہ کسی کا بھی ’اسٹیفن ہاکنگ‘ ہونا ضروری نہیں!! بکری کے چیتھڑے اڑانے کے لئے شیرکا ایک پنجہ اور گردن پر پیوست ہوئے دانت ہی کافی ہیں۔

لیکن وہ پاکستانی ہی نہیں جو وقت سے پہلے بات سمجھ جائے۔واضح اکثریت حکومت کے پاس اب بھی ہے اور ایسی ہی اکثریت حکومت 1999میں بھی رکھتی تھی لیکن ہوا کیا یہ دہرانے کی ضرورت نہیں! 1977 میں بھی صورتحال یوں ہی خراب ہوئی تھی۔ حالات خراب ہونے، فوج کو سیاسی مسئلے میں شامل کرنے اور قتل و غارتگری کے بعد حکومت اور پاکستان قومی اتحاد کے مابین معاملات سیاسی طور پر طے پا گئے تھے لیکن معاہدہ باضابطہ طور پر سامنے آنے سے چند گھنٹے پہلے رات کی تاریکی میں بھٹو صاحب کا تختہ الٹ دیا گیا تھا۔

تاریخ سے سبق ضرور سیکھنا چاہیے! بکری کو شیر اور شیر کو بکری بننے میں وقت درکار ہے اور یہ ارتقاء نظام کے چلتے رہنے سے مشروط ہے۔ نظام کو چلانا حکومت کا فرض ہے ۔اس فرض کی ادائیگی میں غیر جمہوری قوتوں اور مسائل کا سامنا ہر سیاسی و جمہوری حکومت کو کرنا پڑے گا بالکل ویسے جیسے پچھلی حکومت نے کیا! ضرورت ہے تحمل، معاملہ فہمی،سیاسی شعور، برداشت اور راست بازی کی جس کے مظاہرے میں فی الوقت حکومت ناکام نظر آتی ہے۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :