لیڈر یا تماشائی

جمعرات 14 اگست 2014

Nadeem Tabani

ندیم تابانی

آج14اگست ہے، پاکستان کودنیا کے نقشے پر ابھرے67سال پورے ہو رہے ہیں،پاکستان کے کچھ سیاسی اداکاریوم آزادی پر دنیاکو تماشا دکھانے جا رہے ہیں، تماشا تو سڑسٹھ سال سے جاری ہے لیکن چوں کہ قوم کو نت نئے لیڈر مل رہے ہیں ، اس لیے ہر اداکار تماشوں کی نئی سیریز اور نئی سیریل لے کرآتا ہے، اس بار پرانے فن کار نئے لیڈر کے ہم راہ ایک نیا تماشا دکھانے جا رہے ہیں،اعلان ہے کہ آج حقیقی پاکستان وجود میں آئے گا، قائد کا پاکستان ، نیا پاکستان ۔

ایسے اعلانات پہلی بار نہیں ہو رہے ، لیکن طرح ،طرز اور طریق بہر حال نیا ہے، محب وطن عوام حیران اور پریشان ہیں، کس کی سنیں ، کس کی مانیں، کون سچا ہے کون جھوٹا ؟ سچ اور جھوٹ کا پیمانہ کیا ہے، کھرے اور کھوٹے کی پہچان کیا ہے، سب قسمیں کھا رہے ہیں ۔

(جاری ہے)

سب پاکستان زندہ باد کے نعرے لگا رہے ہیں، سب آنسو بہا رہے ہیں، سب عوام کی حمایت کا دعوی کر رہے ہیں۔


#####
2013کے عام انتخابات ایسا موضوع ہے ، وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ جس کی جوانی ، جولانی میں اضافہ ہورہا ہے، نتائج متنازعہ تھے یا نہیں، دھاندلی ہوئی کہ نہیں ، کس نے کی کتنی کی ، کہاں کی۔ اس سے قطع نظر ہارنے والوں نے جیتنے والوں کو مبارک باد دی ، جیتنے والوں کے خیال میں بھی ان کی جیت مزید بڑھ سکتی تھی مگر وہ قوم کے وسیع مفاد اور امن کی خاطر نتائج تسلیم کرنے پر تیار ہوئے، ہارنے والوں نے شور بھی مچایا ، لیکن نعرہ بھی لگایا کہ تحفظات کے باوجود نتائج قبول ہیں، جو طاقتیں انتخابات نہیں ہونے دے رہی تھیں،مبینہ طورپرجن طاقتوں نے2013میں کینیڈا سے طاہرالقادری کو رخنہ ڈالنے کے لیے بھجوایا تھااور بلوایاتھا، انہوں نے اپنے اس گھسے پٹے مہرے کے ساتھ ساتھ ایک تازہ دم لیڈر کو بھی استعمال کرنے کا فیصلہ کیا۔

کیوں کہ اس سیاسی لیڈر کے ساتھ عوام کی طاقت بھی ہے، ووٹوں کی تعداد کے اعتبار سے اس کی پارٹی دوسرے نمبر پر رہی۔ لیڈر تھوڑاسانہیں، بہت سارا ضدی بھی ہے، دوسرے جمہوری لیڈروں کی طرح وہ بھی آمریت کا منہ بولتا وجوداورجیتا جاگتا ثبوت ہے۔
#####
”ابھی نہیں تو کبھی نہیں “ کے ارادے سے عمران خان میدان عمل میں ہیں، بہت نہیں تو کافی عوامی طاقت کے ساتھ ، شور شرابے کے لیے تو تھوڑے بھی بہت ہوتے ہیں،ان کے ساتھ کچھ سیاسی ادا کار بھی ہیں، کچھ ہارے ہوئے، کچھ حکومت میں شامل ہونے کا خواب پورا نہ ہونے کے دکھ میں ہیں، مبینہ طور پر ان کے پیچھے وہ ہدایت کار ہیں، جواگر چہ ریٹائر ہو چکے ہیں لیکن جیسے ”مرا ہوا ہاتھی سوا لاکھ کا“ایسے ہی ان کی اپنی قیمت ہے ،یہ قیمت کون ادا کر رہا ہے، وقت پر ہر چیز روز روشن کی طرح سامنے آہی جائے گی۔

لیکن مرے ہوئے اس ہاتھی کو یہ ذہن میں رکھنا چاہیے کہ ہاتھی مرا ہوا قیمتی ہوتا ہے گلا سڑا نہیں۔
#####
طاہرالقادری دن رات میں جتنے جوڑے بدلتے ہیں اتنے ہی دعوے اوراعلانات بھی بدلتے ہیں ، یو ٹرن کا لفظ چھوٹا اور جھوٹا پڑ جاتا ہے ،میڈیا کے کچھ فن کار ڈیوٹی کے ہاتھوں مجبور ہونے کے باوجود قادری کی کہہ مکرنیاں بیان کر رہے ہیں، بہت سے لکھنے والے تمام تر نمک حلالی کے باوجود قادری کے بارے میں اپنے ذاتی خیالات اور احساسات چھپا نہیں سکتے ، دوسروں کے منہ میں اپنی زبان ڈالنے والے کچھ چرب لسان نہ چاہتے ہوئے بھی قادری کے سفید جھوٹ عیاں کرنے پر مجبور ہو جاتے ہیں۔


#####
کچھ لوگوں کا خیال تھا کہ قادری کے پاس طاقت ہے نہ خان کا آزادی مارچ کچھ کرنے کے قابل ، کچھ کاخیال تھا کہ حکومت نے غلطیوں پہ غلطیاں کیں، وقت پہ خان کے مطالبات پر توجہ دی جاتی تو معاملہ اتنا نہ بڑھتا ، لیکن وقت کے ساتھ ساتھ یہ بات سامنے آئی کہ جو کچھ ہو رہا ہے اس کے پیچھے ان دیکھی طاقت ہے، جسے پاکستان کا ستحکام پسند نہیں، جسے پاکستان کی ترقی اچھی نہیں لگتی، اب ان کا بھی یہی خیال ہے کہ قادری زیادتی کے مرتکب ہو رہے ہیں ، ان کی بھی اب یہی رائے ہے کہ خان کی ضد جمہوریت کو نقصان پہنچا سکتی ہے۔

سوال یہ ہے کہ کیا تمام حلقے اپنی ذمے داریاں پوری کر رہے ہیں یا بس خان اور میاں کے درمیان جاری جنگ کو انجوائے کررہے ہیں؟یہ انجوائے منٹ ان تماشائیوں کو بھی نقصان پہنا سکتا ہے ،جو ہیں تو لیڈر مگر سیاسی مفاد کے پیش نظر تماشائی بن بیٹھے ہیں۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :