کیا سندھی اور پنجابیوں کو کبھی عقل آئے گی

منگل 12 اگست 2014

Hussain Jan

حُسین جان

آج ایک ڈاک خانے میں قبائلی علاقے لوئر دیر کے ایک رہائشی سے ملاقات ہوئی،اُس نے وہ بات کی جو نہ آج تک ہمارئے دانشور کر پائے اور نہ ہی عوام تک پہنچا پائے ، کرتے بھی کیسے انہیں حکمرانوں کی نوکریوں سے فرصت ملے تو عوام کے لیے کچھ لکھیں۔ خیر بات ہو رہی تھی کے پی کے رہائشی کی اُس کا کہنا تھا کہ ہم نے اپنے صوبے میں تمام سیاسی جماعتوں کو آزمایا ،اور پھر اُن کو اقتدار سے محروم بھی کردیا،پی پی ہو اے این،پی ایم ایل ،ایم ایم اے ،جے یو آئی،جماعت اسلامی سب کو ووٹ دیے لیکن کوئی بھی اپنے وعدئے پورئے نہیں کر پائی اور ہم نے دوبارہ ان لوگوں کو ووٹ نہیں دیے اُس کا کہنا تھا اب ہم نے پی ٹی آئی کو بھی ووٹ دیا اگریہ بھی ہمارے لیے کچھ نہ کر پائی تو اگلی دفعہ اسے بھی نکال باہر کریں گے، اس کے ساتھ ساتھ اُن صاحب کا کہنا تھا ہم نے ہمیشہ تبدیلی کا ساتھ دیا ہے مگر پاکستان کی قسمت تب بدلے گی جب پنجاب اور سندھ کے لوگ بھی تبدیلی کا ساتھ دیں ،میں یہ نہیں کہتا کہ سب عمران خان کو ووٹ دو لیکن کسی دوسرئے کو بھی آزماؤ ، کیونکہ پاکستان کی تقدیر پنجاب اور سندھ کے ہاتھ میں ہے۔

(جاری ہے)


اگر ہم باریک بینی سے اس عام سی بات کا تجزیہ کریں تو یہ سو فیصد درست بات ہے، پنجاب اور سندھ میں کئی عشروں سے وہی حکمران بار بار حکومت میں آتے ہیں جنہوں نے اس ملک کے عام آدمی کے لیے کچھ نہیں کیا، سندھ اور کراچی میں ہمیشہ حکومت پی پی یا ایم کیو ایم کی رہی، پنجاب میں پی پی یا پی ایم ایل کی،آبادی کے لحاظ سے یہ دونوں بڑئے صوبے ہیں مگر تبدیلی کے لحاظ سے ہم بلوچستان سے بھی پیچھے ہیں ۔

غربت ،بیروزگاری،ناخواندگی کے پی کے میں ان دونوں صوبوں سے زیادہ ہے لیکن وہ لوگ ہر دفعہ اپنی قسمت کا فیصلہ کرتے ہیں ،یہ الگ بات ہے کہ پاکستان میں بے حس سیاستدانوں نے ہمیشہ اُن لوگوں کی اُمیدوں پر پانی پھیرا ہے۔ لیکن وہ کوشش تو کرتے ہیں۔ مگر ہم کسی بھی طرح کی تبدیلی کے حق میں نہیں ،ہمارے ان دو بڑئے صوبوں کی زیادہ ترآبادی دیہی علاقوں پر مشتمل ہے جہاں غربت اور جہالت کا راج ہے۔

اور یہ وہ لوگ ہیں جو کسی بھی طرح اپنے ماضی سے جان چھڑانے کے موڈ میں نہیں۔ پنجاب میں ذات پات کا نظام اتنا مظبوط ہے کہ لوگ برادری سے باہر ووٹ ڈالنے کو بھی گناہ سمجھتے ہیں۔ ایسی صورتحال میں تبدیلی کے کوئی آثار نظر نہیں آتے،ہم تو بچپن سے کبھی نواز صاحب کو وزیر آعظم دیکھتے آئے ہیں تو کبھی محترمہ صاحبہ کو یا پھر کبھی کبھار بوٹ والی سرکار کو کہ انہوں نے بھی اپنے اقتدار کو طول دینے کے لیے سیاسی بکاؤ مال کا استعمال کیا اور ہمیں واپس پتھروں کے زماے میں جانے والی سڑک پر ڈال دیا۔


سندھ میں خاص کر کراچی میں جو لاشوں کا بازار گرم ہے اس پر آج تک کسی سیاسی جماعت نے سنجیدگی سے توجہ نہیں دی ،دیتی بھی تو کیسے کے زیادہ تر سیاسی لوگ ہی شامل ہوتے ہیں کبھی سنا کرتے تھے کہ کراچی روشنیوں کا شہر ہے مگر ہم نے تو ہمیشہ وہاں لاشوں کی خبروں کا زکر ہی سنا ہے، اسی طرح آپ پنجاب کے دالحکومت لاہور سے چند کلومیٹر باہر نکلیں آپ کو ایسے لگے گا جیسے آپ کسی دوسری دُنیا میں آگئے ہیں گندگی کے ڈھیروں سے لے کر غربت تک سب کا راج ہی راج ہے۔

چند شہروں میں سڑکیں ،پل بنانے سے ملک ترقی نہیں کرتا بلکہ اگر یہی کام دیہات تک پھیلایا جائے تو ترقی کے مواقع بن سکتے ہیں۔ سرکاری سکولوں کی حالت سب کے سامنے ہے آئے دن کوئی نہ کوئی گھوسٹ سکول میڈیا پر دیکھایا جاتا ہے۔ رشوت کا بازار تمام اداروں میں گرم ہے۔ عام آدمی کو سرکاری اداروں میں تذلیل کا نشانہ بنایا جاتا ہے۔ ہسپتالوں میں غریب سفارش کے بغیر علاج تک نہیں کروا سکتا۔


ہمارے ملک میں دانشور و سے لیکر عام آدمی تک ہمیشہ چین کی ترقی کا رونا روتا ہے مگر کیا کبھی کسی نے یہ جاننے کی کوشش کی ہے کہ آخر چین نے ترقی کی کیسے مثالیں دینا بہت آسان ہے لیکن عمل کرنا بہت مشکل چین کی ترقی کے بہت سے رازوں میں سے ایک راز یہ بھی ہے کہ اُس نے ضروریات زندگی کی تمام چیزں اپنے دیہی علاقوں تک پہنچائی ،سکول ،کالج ،یونیورسٹیاں،بڑے بڑے ہسپتال ،پارک،سینما یہ سب چیزیں آپ کو گاؤں تک میں نظر آئیں گی مگر اپنے ہاں یہ حال ہے کہ اگر بچہ میٹرک کا امتحان پاس کرلے تو ماں باپ کو فکر لگ جاتی ہے کہ اس کو کس شہر میں داخل کروئیں کہ چھوٹے شہروں میں جو ٹوٹے پھوٹے کالج ہیں اُن کا کوئی حال نہیں ھالنکہ بڑئے شہروں کے سرکاری کالجوں کا بھی حال ہے اگر کوئی بیمار ہو گیا ہے تو اُسے لاہور یا کراچی لے جاتے ہیں جبکہ ان بڑئے شہروں کے سرکاری ہسپتا ل اپنے شہر کے باسیوں کے مسائل ہی حل کرنے کے اہل نہیں۔


ان تمام باتوں کے باجود ہم نے ووٹ پھر بھی برادری ،پیر چوہدری کو ہی دینا ہے۔ پیر وں، فقیروں کے بارئے میں ہم نے پڑھ رکھا ہے کہ اُن کی زندگی کا مقصد اللہ کو راضی کرنا اور لوگوں میں خدا کا خوف پیدا کرنا ہوتا تھا اُن کی زندگی نہایت سادہ ہوتی تھی مگر ان کے گدی نشیونوں نے اپنی زندگی کو پرتعایش بنا رکھا ہے یہ پیری مریدی بھی کرتے ہیں ساتھ ساتھ لوگوں سے ووٹ بھی مانگتے ہیں۔

اسی طرح چوہدری صاحب کا بھی یہی حال ہے اپنے بچے تو امریکہ میں تعلیم حاصل کرتے ہیں مگر گاؤں میں سکول نہیں بننے دینا کہ اگر یہاں سکول بن گیا تو غریب کے بچے ہمارے مقابلے میں نہ آجائیں۔سندھ اور پنجاب میں جب کبھی سیلاب آتا ہے تو لوگ کئی کئی سالوں تک اپنے گھروں کو لوٹ نہیں پاتے، دن رات سڑکوں پر گزرتا ہے کچھ خدا ترس لوگ ان کی مدد کر دیتے ہیں مگر حکمران ٹی وی کیمروں کے سامنے شلواریں اُوپر کر کے دیکھانے کے لیے پانی میں اُتر جاتے ہیں جیسے ہی کیمرے بند ہوئے اپنی کروڑوں کی پراڈو میں بیٹھتے ہیں اور یہ جا وہ جا۔


اگر ہمیں اپنے ملک میں تبدیلی لانی ہے اور اپنے مسائل کا حل نکالنا ہے تو اس کے لیے ہمارے سندھیوں اور پنجابیوں کو بدلنا ہو گااگر یہ بدلیں گے تو ملک کے مسائل ختم ہوسکتے ہیں ،ورنہ جس طرح پچھلے 66سالوں سے یہ وڈیرے اور تاجر ہمارا خون چوستے آئیں ہیں اسی طرح ہماری آنے والی نسلوں کا خون بھی چوستے رہیں گے کہ یہ اقتدار کی رسی عام آدمی کے ہاتھ میں دینا گوارہ ہی نہیں کرتے بلکہ اپنے بال بچوں کو ہی اپنا جان نشین بناتے ہیں ،غریب کا بال پہلے بھی نعروں کے لیے استعمال ہوتا تھا اور مستقبل میں بھی استعمال ہوتا رہے گا۔

ہمیں اپنی تقدیر خود بدلنی ہے ہمیں اقتدار اپنے ہاتھ میں لینا ہوگا،ہمیں ان سیاسی شبدہ بازوں کے ساسی نعروں کے چکروں سے باہر نکلنا ہو گا تعلیم کو عام کرنا ہو گا ،اسی میں ہماری اور ہمارے ملک کی بقا ہے۔ اسی سے پاکستان کی آزادی مشروط ہے۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :