"تھری ٹو "نہیں بولے گا

اتوار 10 اگست 2014

Anwaar Ayub Raja

انوار ایوب راجہ

تھری ٹوویر آر یو ( تھری ٹو کہاں ہو )
بیس- آئی ایم ان سٹی ( بیس میں شہر میں ہوں )
تھری ٹو -گو ٹو ائیر پورٹ فیر از ویٹنگ فار یو ( تھری ٹو ائیر پورٹ چلے جاوٴ سواری تمہارا انتظار کر رہی )
راجر بیس ( پیغام مل گیا بیس )…
ریڈیو خاموش ہو گیا ، تھوڑی دیر میں ریڈیو سے پھر آواز آئی تھری ٹو کہاں ہو ؟ تھری ٹو بولا میں ائیر پورٹ کے باہر ہوں ، بیس نے تھری ٹو کو انتظار کرنے کا کہا ۔

کوئی بیس منٹ میں تین مسافر اپنے بھاری بھرکم سامان کے ساتھ ائیر پورٹ سے نکلے ، تھری ٹو اپنی خمیدہ کمر اور ہشاش بشاش چہرے کے ساتھ گاڑی سے نکلا مسافروں کا سامان گاڑی میں رکھا اور اپنی منزل کی طرف چل نکلا۔ سواریاں اتاریں ، پیسے لیے بیس کو "کلیر " ( یعنی سواریاں اتر گئی ہیں اور وہ اب پھر سے دستیاب ہے ) کا پیغام دیا اور ایک درخت کے نیچے گاڑی کھڑی کر کے اگلے پیغام کا انتظار کرنے لگ گیا ۔

(جاری ہے)

تھری ٹو نے اپنی گاڑی کی سیٹ پیچھے کی اور ریڈیو لگا لیا ۔ ریڈیو پر میڈم نور جہاں کا گانا لگا تھا ۔ تھری ٹو گانا سنتے سنتے سو گیا ۔ تھری ٹو کا موبائل بجا تو وہ جاگ گیا ، فون پرنائن سیون تھا ۔ نائن سیون نے تھری ٹو سے کام کی صورتحال پوچھی، تھری ٹو نے بتایا کہ کام اتنا تیز نہیں ہے ۔
نائن سیون نے بتایا کہ وہ آج دور کی سواری اٹھانے ریلوے اسٹیشن جائے گا اور واپسی پہ " کشمیر کباب ہاوٴس " میں ایک تقریب میں جائے گا جہاں کوئی سیاست دان آزاد کشمیر سے" کشمیر کی آزادی کی آئندہ کی حکمت عملی" پر بات کرے گا اور مظلوم کشمیریوں کی مدد کے لیے ہر سال کی طرح کچھ چندہ بھی جمع کیا جائے گا ۔

تھری ٹو نے نائن سیون کو بتایا کہ آج وہ تقریب میں نہیں آ پائے گا کیونکہ کل اس نے اپنی مارگیج کی قسط جمع کروانی ہے اور وہ رات ایک بجے تک ڈبل شفٹ کرے گا ۔ نائن سیون نے تھری ٹو کو یاد کروایا کہ اس کا گاوٴں میں جو مقدمہ چل رہا ہے اس میں مدد کے لیے ضروری ہے کہ وہ تھوڑی دیر کے لیے آئے اور وزیر صاحب کا بیان سنے کچھ بیس یا پچاس پاونڈ کا چندا دے اور واپس کام پر چلا جائے ۔

آخر وزیر موصوف ان کی برادری کے وزیر ہیں انھیں پتہ ہونا چاہیے کہ وہ یہاں برطانیہ میں جہاد کشمیر میں تنہا نہیں ہیں ۔
تھری ٹو تھوڑی دیر کے لیے خاموش ہو گیا … ایک وقفے کے بعد تھری ٹو نے نائن سیون سے کشمیر کباب ہاوٴس میں ملنے کا وعدہ کیا اور فون کاٹ دیا ۔ تھری ٹو نے پھر سے ریڈیو چلا دیا اور آنکھیں بند کر کے تھوڑا سستانے کی کوشش میں لگ گیا ۔

بیس سے پھر پیغام آیا
تھری ٹوویر آر یو ( تھری ٹو کہاں ہو )
بیس -آئی ایم ایٹ سٹیشن ( بیس میں سٹیشن پر ہوں )
تھری ٹو -گو ٹو سینٹرل یونیورسٹی فیر از ویٹنگ فار یو- ٹو ڈراپس ( تھری سینٹرل یونیورسٹی چلے جاوٴ سواری تمہارا انتظار کر رہی- دو جگہ سواریاں اتارنی ہیں)
راجر بیس ( پیغام مل گیا بیس )……۔۔۔
تھری ٹو نے گاڑی سٹارٹ کی اور سیدھا یونیورسٹی پہنچ گیا ۔

یہاں سے دو پروفیسروں کو اٹھایا اور ان کے گھروں کے سامنے اتارا ، پیسے لیے اور بیس کو کلیر کا سگنل دے کر جامع مسجد میں ظہر کی نماز پڑھنے چلا گیا ۔ تھری ٹو نے ظہر کی نماز کے صرف فرض پڑھے اور واپس آ کر گاڑی میں بیٹھ گیا ۔ تھری ٹو نے اپنا موبائل آن کیا تو اس پر اس کی بیوی کی مس کال تھی ۔ اس نے گھر کے نمبر پر کال کی ، بیوی نے فون اٹھایا اور تھری ٹو کو یاد کروایا کہ ماموں برکت کے بیٹے کی شادی ہے اور انہوں نے وہاں اگلے ہفتے جانا ہے اس لیے تھری ٹو کو اگلے ہفتے تک دو سو پاونڈ کا بندوبست کرنا ہو گا کیونکہ جب تھری ٹو کی بیٹی کی شادی ہوئی تھی تو ماموں برکت کی بیوی نے ایک جوڑا ، پانچ کلو امبالہ کی مٹھائی اور سو پاوٴنڈ نقد دلہن کو دیا تھا اس لیے یہ ضروری ہے کہ وہ دو جوڑے ، چھے کلو مٹھائی اور ایک سو بیس پاونڈ دیں ۔

تھری ٹو خاموش ہو گیا …۔وقفے کے بعد بولا کہ وہ کوشش کرے گا ۔ فون کٹ گیا ، تھری ٹو نے گاری سٹارٹ کی اور ریلوے اسٹیشن چلا گیا ۔ یہاں تھری ٹو کی ملاقات ٹو ون سے ہوئی جس نے اسے بتایا کہ کونسل نے ایک نیا قانون نکالا ہے کہ تمام گاڑیاں جو پانچ سال پرانی ہیں کو دوبارہ سے ٹیکسی پلیٹ کی فٹنس کا سرٹیفکیٹ لینا ہو گا اور اگر کوئی ڈرائیور سرٹیفیکٹ کے بغیر پکڑا گیا تو اسے سزا کے طور پر اپنا ٹیکسی بیج کونسل میں جمع کروانا ہو گا اور وہ کام نہیں کر پائے گا ۔

تھری ٹو تھوڑا پریشان ہو گیا کیونکہ اس کی گاڑی کی عمر اس کی عمر کی طرح حساب کتاب میں نہیں آتی تھی ۔ اسے یاد آیا کہ دو ماہ پہلے ایک مکینک نے اسے بتایا تھا کہ اس کی گاڑی کے انجن سے تیل لیک ہوتا ہے اور ممکن ہے کہ کسی بڑی خرابی کی صورت میں اسے انجن بدلنا پڑ جائے ۔ مکینک کے مطابق یہ کوئی آٹھ سو یا ہزار پاونڈ کا خرچہ تھا جس کے لیے تھری ٹو کو تیار رہنا تھا ۔


تھری ٹو پھر خاموش ہو گیا …کچھ دیر سوچوں میں گم رہا ، اس نے اپنی جیب سے چھوٹی سی ڈائری نکالی اور کچھ جمع تفریق میں لگ گیا ۔ اتنے میں ایک انگریز خاتون اسٹیشن سے باہر نکلی اور بولی " آر یو فری" ( کیا تم دستیاب ہو ) تھری ٹو نے جواب دیا " یس میڈیم ویر وولڈ یو لائک ٹو گو "(جی میڈم آپ کہاں جانا پسند کریں گی ؟)۔ انگریز خاتون نے کہا " واٹر فرنٹ "۔

تھری ٹو پھر سے گاڑی سے نکلا اس نے خاتون کا بیگ گاڑی میں رکھا اور سواری کو منزل کی طرف لے کر یہاں سے روانہ ہو گیا ۔
تھری ٹو جب منزل پر پہنچا تو اس نے کرایہ لیا انگریز خاتون نے تھری ٹو کو کرایہ ادا کیا اور تین پاونڈ ٹپ بھی دی ۔ تھری ٹو نے شکریہ ادا کیا ، گاڑی میں بیٹھا اور واپس اسٹیشن کی طرف چل دیا ۔ ابھی وہ شہر کی بڑی شاہراہ پر نہیں پہنچا تھا کہ اس کا موبائل فون پھر سے بجا ، اس پر اس کا بیٹا تھا ۔

بیٹے نے باپ کو بتایا کہ وہ روڈ ٹیکس کے بغیر گاری چلاتے ہوئے پکڑا گیا ہے اور پولیس نے اسے گاڑی سمیت بند کر دیا ہے ۔ بیٹے نے بتایا کہ اس کا انٹرویو ہو گیا ہے اور پولیس اسے رہا کرنے پر تیار ہے اگر کوئی اس کی گاڑی کا روڈ ٹیکس پوسٹ آفس سے خرید کر کمپاونڈ جائے اور اضافی نوے پاونڈ کا جرمانہ ادا کرے اور گاڑی کے کاغذات اور رسید کے ساتھ اگلے دو گھنٹے میں پولیس اسٹیشن آئے۔

بیٹے نے تھری ٹو کو بتایا کہ اس کے ایک دوست نے روڈ ٹیکس خرید لیا ہے مگر اس کے پاس نوے پاونڈ نہیں ہیں ۔ اس نے تھری ٹو سے گزارش کی کہ وہ کمپاونڈ کے گیٹ پر اس کے دوست کو پیسے پہنچا دے ۔ تھری ٹو نے گاڑی کا رخ کمپاونڈ کی طرف کیا ۔ کمپاونڈ پہنچا اس نے پیسے اس نوجوان کو دیے جس نے رسید حاصل کرنی تھی اور واپس گاڑی میں آ کر بیٹھ گیا ۔
تھری ٹو کے چہرے پہ تھکان اور پریشانی دونوں کے ملے جلے تاثرات تھے ۔

وہ سیدھا پولیس اسٹیشن گیا ، اس کے پیچھے ہی اس کے بیٹے کا دوست آیا۔ پولیس افسر نے تھوڑی پڑتال کے بعد تھری ٹو کے نوجوان بیٹے کو چھوڑ دیا ۔ تھری ٹو کچھ نہ بولا بس خاموشی سے بیٹے کو گھورتا رہا ۔ اتنے میں تھری ٹو کی بیوی کا فون آیا اس نے تھری ٹو کو کہا کہ بیٹا نوجوان ہے اس سے غلطی ہوئی ہے اگر تھری ٹو نے اسے کچھ کہا تو وہ گھر چھوڑ کر چلا جائے گا اور برادری میں ناک کٹ جائے گی ۔


تھری ٹو کو پڑوسی اسلم کا قصہ یاد آ گیا جس کا بیٹا باپ کے ڈانٹنے پر گھر سے چلا گیا تھا اور ساری برادری میں اس کی بہت بدنامی ہوئی تھی ۔ تھری ٹو نے اپنے بیٹے کا رشتہ اپنے بڑے بھائی کی بیٹی سے گاوٴں میں کر رکھا تھا اس لیے مناسب یہی تھا کہ وہ خاموش رہتا ۔ تھری ٹو خاموشی سے گاڑی میں بیٹھ گیا ۔ اس نے گاڑی ایک ویران علاقے میں کھڑی کی ، کوئی پانچ منٹ میں بیس سے پیغام آیا کہ ایک پب سے سواریاں اٹھانی ہیں ۔

تھری ٹو پب پہنچا یہاں کچھ منچلے نوجوان انتظار کر رہے تھے ۔ اس نے انہیں اٹھایا ، یہ نشے میں تھے انہوں نے تھری ٹو کے ساتھ کچھ بدتمیزی کی مگر تھری ٹو خاموشی سے گاڑی چلاتا رہا ۔ شام ہونے کو تھی ، تھری ٹو کی عصر کی نماز بھی قضا ہو گئی تھی ۔ اس نے ان منچلوں کو اپنی منزل پر اتارا ، پچھلی سیٹ سے شراب کے خالی کین نکالے ، ایک لفافے میں ڈالے اور انہیں ایک کوڑے کے ڈبے میں ڈال کر گاڑی میں بیٹھ گیا ۔


تھری ٹو تھک چکا تھا ، مغرب ہونے میں ابھی آدھ گھنٹہ باقی تھا ، اس نے پھر سے گاڑی کا شیشہ نیچے کیا اور ایک بوتل سے پانی کے کچھ گھونٹ پینے کے بعد آنکھیں بند کر لیں … ہر طرف خاموشی تھی …۔۔ ایک انتہائی ڈرا دینے والی خاموشی …کبھی کبھی سڑک سے کوئی گاڑی گزرتی تو
تھوڑا شور ہوتا مگر پھر سے خاموشی …۔۔۔ تھری ٹو کے بیس سے پیغام آیا
تھری ٹو- ویر آر یو ( تھری ٹو کہاں ہو ) َ۔

تھری ٹو کی طرف سے کوئی جواب نہ دیا گیا تو پھر سے آپریٹر نے پوچھا …تھری ٹو- ویر آر یو ( تھری ٹو کہاں ہو ) …۔۔ تھری ٹو نے بیس کو کوئی جواب نہیں دیا ۔ بیس نے تین چار بار پوچھا تھری ٹو تم کہاں ہو مگر تھری ٹو کی جانب سے خاموشی برقرار رہی تو آپریٹر کو کچھ تشویش ہوئی ۔ بیس آپریٹر نے تھری ٹو کی سیٹلائٹ سسٹم پر پوزیشن ڈھونڈی اور اس کے علاقے میں موجود ٹیکسی ڈرائیوروں کو تھری ٹو کی لوکیشن دی اور پتہ کرنے کو کہا ۔

اس علاقے میں دو ٹیکسی ڈرائیور موجود تھے ، وہ فوری طور پر وہاں پہنچے انہوں نے تھری ٹو کی گاڑی کا دروازہ کھولا اور دیکھا کہ تھری ٹو کا جسم مکمل طور پر ٹھنڈا ہو چکا تھا ، اس کی گود میں اس کے انجائنا کی سپرے پڑی تھی اور وہ بے ہوش اور پرسکون ایک طرف دنیا کے شور شرابے سے بے خبر خاموشی کی چادر میں چھپا ہوا تھا ۔ انہوں نے تھری ٹو کو جگانے کی کوشش کی مگر تھری ٹو نے کوئی جواب نہیں دیا ، لگتا تھا وہ بہت تھک چکا تھا اور اب سونا چاہتا تھا ۔

انہوں نے بیس کو خبر کی ، بیس نے ہنگامی نمبر پر اس جگہ ایمبولینس منگوائی ، پیرا میڈیکس نے تھری ٹو کو سٹریچر پر ڈالا ، ایمبولینس میں سیدھے ہسپتال لے گئے ۔ جیسے ہی ایمبولینس ہسپتال پہنچی پیرا میڈیکس نے اسے انتہائی نگہداشت کے شعبے میں منتقل کیا ۔ ڈاکٹر آیا اس نے نبض پہ ہاتھ رکھا ، چھاتی کو محسوس کیا اور تھری ٹو کے چہرے کو ڈھانپتے ہوئے نرس سے تھری ٹو کے ورثا کو اطلاع کرنے کو کہا …۔

اس وقت ہسپتال میں بہت سے اور بھی مریض تھے جو زیر علاج تھے …۔ مگر جہاں تھری ٹو لیٹا تھا وہاں مکمل خاموشی تھی …۔تھری ٹو اکیلا تھا …۔۔۔ مگر خاموشی اس کے ساتھ تھی …۔۔۔ تھری ٹو کی بیوی کچھ دیر میں روتی بلبلاتی ہسپتال پہنچی اور زور زور سے تھری ٹو کو جگانے لگی ۔ نرس نے اسے سہارا دیا اور بتایا کہ تھری ٹو اب نہیں جاگے گا کیونکہ وہ ہمیشہ ہمیشہ کے لیے سو گیا ہے …عشاء کی اذانیں ہو رہیں تھیں ، تھری ٹو خاموش تھا اس کی بیٹی اور بیٹا بھی یہاں باہر کھڑے رو رہے تھے ، سب ماتم میں ڈوبے تھے ، سب کے چہروں پر سوگ تھا …۔

۔۔نرس جب تھری ٹو کا لاشا پوسٹ مارٹم کے لیے لے جا رہی تھی تو اس کی وہ چھوٹی سی ڈائری اس کی جیب سے گر گئی جس پر تھری ٹو حساب کرتا تھا ۔ اس نے وہ تھری ٹو کی بیوی کی دی۔ بیوی نے کھولی تو اس میں تھری ٹو کا آخری نوٹ درج تھا جس میں لکھا تھا مکان کی مارگیج ، پاکستان میں زمین کے مقدمے کی فیس اور دیگر اخراجات کے بعد تھری ٹو نے گاڑی ٹھیک کروانی ہے اس لیے اس مہینے وہ ڈبل شفٹ کرے گا …۔

۔۔ تھری ٹو نہیں رہا …۔۔ کوئی بیس کا پیغام نہیں تھا… "تھری ٹو راجر بیس " کا جواب دینے والا نہیں رہا…۔ا ور کسی شادی اور مقدمے کے خرچے کی مانگ نہیں رہی…۔۔ بس خاموشی تھی … وہی ڈرا دینے والی خاموشی…۔۔وہ خاموشی جو تھری ٹو کو کبھی دستیاب نہیں تھی …۔۔میڈم نور جہاں کے نغموں کی آواز نہیں تھی اور نہ ہی کسی کو کشمیری وزیر کے کسی جلسے میں جانے کی جلدی تھی مگر اس رات کشمیر پر کباب ہاوٴس میں تقریب ہوئی ، سیاسی بیان بازی اور چندہ بھی جمع ہوا ، یہاں سب آئے ، سب نے فوٹو لئے مگر تھری ٹو نہیں آیا ……آتا بھی کیسے وہ تو دوسروں کی خواہشات پوری کرتے کرتے قربان ہو چکا تھا ۔

…ہفتے بعد وہ شادی کی تقریب بھی ہوئی جس میں ایک سو بیس پاونڈ پہنچائے جانے تھے ۔ تھری ٹو کی بیوی نہیں گئی مگر اس نے پیسے بھجوا دیے کیونکہ یہ برادری میں عزت کا سوال تھا …۔۔۔ انشورنس کمپنی نے تھری ٹو کے ڈیتھ سرٹیفیکیٹ کے اجرا کے تین ہفتے بعد اس کے مکان کا سارا قرض ادا کر دیا …۔۔۔سال بعد بیٹے کی شادی پاکستان میں ہو گئی اور دلہن ولایت آ گئی …۔

۔۔تھری ٹو کی ٹیکسی اس کے بیٹے نے بیچ دی …زندگی آگے چلتی رہی اور سب تھری ٹو کو بھول گئے … تھری ٹو کی یہ کہانی کسی ایک شخص کی کہانی نہیں بلکہ پچھلی آدھ صدی میں ابھرنے والے ایسے ہزاروں انسانوں کی داستان ہے جو ایک دن ایسے ہی خاموشی کی چادر میں دفن ہو گئے … نہ کشمیر آزاد ہوا ، نہ امبالہ کی مٹھائی کے وزن میں کمی آئی اور نہ ہی گاوٴں کے مقدمے ختم ہوے ، ختم ہوا تو بس ایک نمبر… تھری ٹوا۔ جو اب کسی کی کال پر نہیں بولے گا۔!!!

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :