جمہوریت پہ ظلم۔۔۔ آخر کیوں؟

اتوار 10 اگست 2014

Syed Shahid Abbas

سید شاہد عباس

وطن عزیز میں " جمہوریت" کا دور دورہ ہے۔ ہر طرف" ترقی " کی فاختائیں پھڑپھڑا رہی ہیں۔ "دودھ و شہد" کی نہریں بہہ رہی ہیں۔ عوام "خوشحال" ہیں۔ سیاستدان اپنی ذاتی جمع پونجی بھی عوام کی فلاح و بہبود پر خرچ کر رہے ہیں۔ فوج صرف سرحدوں کے دفاع کا فریضہ سر انجام دے رہی ہے۔ عدلیہ ایک ہفتے سے بھی کم وقت میں کیسوں کے فیصلے کر رہی ہے۔

نوجوان تعلیم سے فراغت کے پہلے سال ہی " باعزت" روزگار حاصل کر لیتے ہیں۔ ہر شہر میں قائم " سرکاری ہسپتالوں" کا معیار پرائیویٹ ہسپتالوں سے کہیں بہتر ہو گیا ہے جس کی وجہ سے پرائیویٹ ہسپتال والوں کا " کاروبار" ٹھپ ہو رہا ہے۔ اشیائے خوردو نوش ایک عام آدمی کو ارزاں نرخوں پر دستیاب ہیں۔ لوگوں کو بجلی 24" گھنٹے"فراہم کی جارہی ہے۔

(جاری ہے)

بجلی کی خرابی کی صورت میں صرف ایک کال کرنے پر متعلقہ حکام آپ کے گھر کے دروازے تک پہنچ جاتے ہیں۔ سردیوں میں " گیس" گھریلو صارفین کو بھی وافر مقدار میں میسر ہے۔ "پٹواری" رشوت لیے بناء آپ کو " نقل فرض " دیتا ہے۔ سرکاری اہلکار کو آپ رشوت دینے کی کوشش بھی کریں تو وہ یہ کہہ کر لینے سے انکار کر دیتا ہے کہ " یہ تو اس کا فرض تھا"۔

پولیس حکام نے اپنی تمام نفری عوام کی حفاظت پر لگارکھی ہے۔ وی وی آئی پی شخصیات اپنے ذاتی خرچ پر سیکیورٹی کمپنیوں کی خدمات حاصل کرتی ہیں۔ ملکی سطح پر ہر شعبے کا سربراہ اس شعبے کا ماہر ہے۔ وزیر تعلیم وطن عزیز کے "نامور ماہر تعلیم" ہیں۔ خزانے کا قلمدان ایک" ممتاز معیشت دان" کے پاس ہے۔ وزیر داخلہ داخلی معاملات سے نبردآزما ہونے کا وسیع تجربہ رکھتے ہیں۔

صحت کا شعبہ ملک کے ایک نامور ڈاکٹر کے سپرد ہے۔ دہشت پسند عناصر ڈرے سہمے بیٹھے ہیں۔ کیوں کہ سیاسی حکومت نے فوج کو دہشت گردوں سے نمٹنے کے لیے " فری ہینڈ" دے رکھا ہے۔ پورے ملک میں مرکزی شاہراہوں کی صورت حال مکمل طور پربہتر کر دی گئی ہے۔ وطن عزیز کے ہر بچے کے لیے سکول جانا لازمی قرار دے دیا گیا ہے۔ ان کی کتابوں اور یونیفارم کا خرچہ" حکومت" برداشت کر رہی ہے۔

ایک غریب کی بچی کی عزت لوٹنے والے شخص کو سر عام پھانسی پر لٹکا دیا گیا ہے۔ مغربی دنیا کے بیشتر راہنماؤں نے پاکستان کے دورے کی خواہش ظاہر کر دی ہے۔ تیسری دنیا کے ممالک کو قرضوں کی فراہمی میں پاکستان پہلے نمبر پر آ گیا ہے۔
" اور پھر میری آنکھ کھل گئی"۔ جی ہاں! یہ خواب میں ہر روز دیکھتا ہوں۔ لیکن پھر نیند سے بیدار ہو جاتا ہوں۔

یہی خواب ہر پاکستانی دیکھتا ہے لیکن یہ خواب ہی رہتے ہیں ان کی تعبیرنا ممکن نہیں تھی لیکن وطن عزیز کے سیاستدانوں نے اس تعبیر کو ناممکن بنا دیا ہے۔کیوں کہ جب اتنے حسین خواب کو کھلی آنکھوں سے دیکھنے کی کوشش کرتے ہیں تو ایک"جمہوری حکومت" کسی " قادری" یا کسی" خان" سے مخاصمت کو ہی جمہوریت کا نام دیتی نظر آتی ہے۔ ان کے نزدیک جمہوریت کو اس بات سے کوئی خطرہ نہیں کہ یوم آزادی پہ پٹرول پمپس نے سپلائی بند کردی ہے(ایک شیر جوان جو بوتل میں پٹرول ڈلوانے میں کامیاب ہو گیا تھا فی لیٹر 200 روپے کا طلبگار تھا)۔

جمہوریت کو اس بات سے بھی کوئی خطرہ نہیں ہے کہ لوڈ شیڈنگ کا دورانیہ 16گھنٹے سے زیادہ ہو گیا ہے۔ گھروں میں 15گھنٹے سے زیادہ گیس کی فراہمی معطل رہتی ہے لیکن اس کے باوجود جمہوریت" پھل پھول " رہی ہے۔ مزدوروں کی عالمی تنظیم (International Labour Organization) کے مطابق پاکستان میں بے روزگاری کی شرح 2013 میں5.17%تھی۔ یہ شرح 2014میں0.12% اضافے کے ساتھ 5.29% تک ہونے کا امکان ہے لیکن اس بڑھتی بے روزگاری کے آسیب سے بھی جمہوریت کو کوئی خطرہ نہیں کیوں کہ میٹرو منصوبہ جو بے روزگاری کے مسلے سے زیادہ اہم ہے وہ تکمیل کے مراحل میں ہے۔


جمہوریت کو اگر خطرہ ہے تو صرف قادری صاحب کے " انقلاب مارچ " سے اور خان صاحب کے " آزادی مارچ" سے۔ اس "جمہوریت" کو درپیش اس " عظیم خطرے " سے مقابلے کے لیے ایک" منتخب جمہوری حکومت" نے فوج جیسے ادارے کو بھی اس سیاسی مسلے میں ملوث کر لیا ہے۔ یا یوں کہہ لیں کہ فوج کو بطور ایک فریق اس معاملے میں شامل کرنے کی کوششیں کی جار ہی ہیں۔

موجودہ حکمران ہی فوج کی سیاست میں مداخلت کے سب سے بڑے مخالف ہیں اور ان کا کہنا بھی یہی ہے کہ فوج صرف انتظامی مسائل پر قابو پانے کے لیے طلب کی گئی ہے۔ لیکن اگر حالات اس نہج پر پہنچ گئے کہ مداخلت نا گزیر ہو گئی تو کیا فوج صرف خاموش تماشائی بن کے دیکھتی رہے گی؟ کیا پھر فوج کو لعن طعن کیا جا سکے گا جب ہم خود ہی ان کو بلا رہے ہیں؟ 245 کا غلط استعمال ہی کیا ہمارے گلے نہیں پڑ جائے گا؟ عمران خان ہوں یا طاہر القادری دونوں سیاسی جماعتوں کے سربراہ ہیں۔

قادری صاحب بے شک کچھ عرصے سے انتخابات کا حصہ نہیں بن رہے لیکن وہ سیاسی طور پر اپنا وجود بہر حال رکھتے ہیں۔لہذا یہ منطق سمجھ سے بالا تر ہے کہ کیوں ایک سیاستدان کا مقابلہ سیاستدان خود کرنے کے بجائے فوج سے کروانے کے چکر میں ہیں۔ واضح اکثریت رکھنے والی حکومت کیا اتنی ہی کمزور ہے کہ انہیں ایک ایسی جماعت سے خطرہ ہے جو اس وقت قومی اسمبلی میں صرف34 سیٹوں کے ساتھ تیسرے نمبر پر ہے۔

یا ان کی واضح اکثریت ایک ایسی جماعت کے سامنے بے بس ہو گئی ہے جو موجودہ پارلیمنٹ میں ایک نشست بھی نہیں رکھتی ۔ اگر واقعی ایسا ہے تو پھر کھلے دل سے اپنی ناکامی و نا اہلی مان لینے میں آخر کیا مضائقہ ہے۔ نا کامی مان کر تمام فریقوں کو جمع کریں اور پوچھیں کہ جناب ہم تو ناکام ہوئے اب آپ بتائیں کہ کیا کیا جائے۔لیکن شاید ہم " سول آمریت" کی سوچ رکھتے ہیں اس لیے بات چیت سے زیادہ گولیاں برسانے کو ترجیح دیتے ہیں۔

ہم معاملات کو حل کرنے کے بجائے سیاستدانوں کو نظر بند و گرفتار کروانے میں زیادہ دلچسپی رکھتے ہیں۔ میری تمام اہل وطن سے گذار ش ہے کہ صرف ایک لمحے کے لیے سوچیں کہ آج جس طرح پورے ملک کا نظام مفلوج کر دیا گیا ہے۔ آبادی و وسائل کے حوالے سے سب سے بڑے صوبے کو جس طرح ایک بنکر میں تبدیل کر دیا گیا ہے۔ جس طرح ضروریات زندگی کا حصول تک لوگوں کے لیے مشکل بنا دیا گیا ہے۔

جس طرح پکڑ دھکڑ جاری ہے۔ جیسے گولیاں برسائی جا رہی ہیں۔ جیسے ماؤں بہنوں کو گھسیٹ کر گاڑیوں سے اتارا جا رہا ہے کیا یہی سب کچھ اگر ایک فوجی ڈکٹیٹر کرتا تو اسی طرح خاموشی رہتی ؟ (یہ الگ بات کہ فوجی ڈکٹیٹر نے بھی ایسا ظلم روا نہیں رکھا)۔ تو کیا ایک سیاستدان کو تمام جرم معاف ہیں۔ کیا یہی جمہوریت ہے کہ خود لانگ مارچ کریں تو جمہوریت کا حسن اور دوسرا لانگ مارچ کرے تو جمہوریت کو خطرہ؟ کیا یہی وہ انصاف ہے جس کا ڈھنڈورا پیٹا جا رہا ہے۔

جمہوریت کا اصل چہرہ تو یہ ہے کہ ہر ایک کو احتجاج کا حق دیں۔ ایک سیاستدان کا مقابلہ سیاستدان کا ذہن رکھ کے کریں۔ دودھ کا دودھ اور پانی کا پانی ہو جائے گا۔ جو رویہ موجودہ حکومت کا خان صاحب اور قادری صاحب کے مارچ کے حوالے سے ہے یہ جمہوریت کی خدمت کے بجائے " جمہوریت پہ ظلم " کے مترادف ہے۔ کیا پاکستان کا مطلب صرف "وفاق" اور " پنجاب " ہی ہے؟ کیوں کہ باقی تمام صوبوں میں تو اس مارچ پر کسی قسم کے کوئی ہنگامی حالات نہیں ۔

حالانکہ ایک صوبے میں تو حکومت بھی خان صاحب کی ہے۔ میاں صاحب کاش اپنے " بڑے بھائی" سے ہی کچھ سیکھ لیں جنہوں نے پانچ سال میاں صاحب کو بھی " لاروں" پہ رکھا۔فوج سے بھی تعلقات کو خراب نہ ہونے دیا اور عدلیہ کے ساتھ محاذ آرائی کا مقابلہ بھی ایسے کیاجس سے ان کے مخالفین بھی انہیں داد دیے بنا نہیں رہ سکے۔ عدلیہ لانگ مارچ میں میاں صاحب کے " بڑے بھائی" غور سے صورت حال کا جائزہ لیتے رہے اور عوام کا ردعمل دیکھتے رہے۔

جب لانگ مارچ کا سفر گوجرنوالہ پہنچا تو انہیں فیصلہ کرنے میں آسانی ہو گئی اور انہوں نے عدلیہ کی بحالی کا اعلان کر دیا(یہ الگ بات کہ اس وقت کے چیف جسٹس کی ریٹائرمنٹ کے بعد ہی افتخار چوہدری صاحب بحال ہوئے) ۔ لہذا میاں صاحب کو بھی چاہیے کہ اپنے بڑے بھائی سے کچھ راہنمائی لے لیں۔ بھائیوں سے تو انسان " کھل" کے مشورہ لے سکتا ہے۔
خدارا! آمرانہ سوچ کا لبادہ اتار دیں۔

جمہوریت کے نام پر اس ملک پر ظلم نہ کریں۔ اور ایک جمہوریت پسند سیاستدان کی طرح حالات کا مقابلہ کریں۔ جمہوریت صرف کسی ایک شخص کی رائے یا مرضی کا نام نہیں ہے۔ بلکہ مخالفین کی رائے یا تنقید کو برداشت کرنے کا نام جمہوریت ہے۔ اگر اپنا نام تاریخ میں بطور مثبت سیاستدان لکھوانا چاہتے ہیں تودل کشادہ رکھیں وسیع رکھیں۔ تنگ نظری سے بھی نام تو تاریخ میں درج ہو گا۔ لیکن آنے والی نسل کے ہاتھ ہوں گے اور آپ کا گریباں۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :

متعلقہ عنوان :