جان کی امان پاؤں تو عرض کروں۔۔۔؟

اتوار 10 اگست 2014

Imran Ahmed Rajput

عمران احمد راجپوت

قارئین دیکھا آپ نے جب سے تحریکِ انصاف کے چیئرمین عمران خان نے آزادی مارچ کی بابت میاں صاحب سے اپنے عہدے سے مستعفی ہونے اور اسمبلیاں تحلیل کر کے نئے الیکشن کرانے کا مطالبہ کیا ہے کس طرح موجودہ سسٹم کے حامی سیاستدان آپس میں اُٹھک بیٹھک کا کھیل کھیل رہے ہیں،سب پر ایک بوچھال کی سی کیفیت طاری ہے ہر ایک بد مست ہوا دیوانہ وار اِدھر سے اُدھر ڈولتا پھررہا ہے ،سب کو اپنی جاگیریں بچانے کی پڑی ہے ۔

قارئین جس طرح یہ اپنی بادشاہتوں کو بچانے سر جو ڑ کر بیٹھے ہیں اسی طرح اگر یہ ملک و قوم کے مسائل حل کرنے کے لیے سر جوڑ کر بیٹھ جائیں تو یقینا اُس دن اس ملک کے ہر مسلئے کا حل نکل آئیگا۔ باشعور عوام خود دیکھ لیں ان ساستدانوں کے اصلی چہرے میاں صاحب خود کو عوام کا لیڈر کہنے والے کس طرح دڈیروں جاگیرداروں سرمایہ داروں بروکریٹس کی حمایت حاصل کرنے کی بھرپور کوششوں میں مصروف ہیں کیا ایک دفعہ بھی میاں صاحب نے عوام کی طرف دیکھا ۔

(جاری ہے)

۔؟بقول میاں صاحب کے عوام نے انھیں بھرپور منڈیٹ دیا ہے تو پھر کیا ضرورت ہے ان وڈیروں جاگیرداروں سرمایہ داروں کے آگے رونے دھونے کی عوام کی طاقت کو کیوں استعمال نہیں کرتے ۔۔؟بجائے اس کے کہ ریاستی طاقت استعمال کریں یا آرٹیکل 245 کے تحت فوج کا سہارہ لیں۔آخر کیوں عوام کے آگے اپنا مسئلہ لیکر نہیں جاتے ۔۔؟عوام سے زیادہ کوئی طاقتور ہوسکتا ہے؟ قارئین مشکل گھڑی میں عوام کے پاس وہی جاتا ہے جو عوام کا حقیقی لیڈر ہو۔

اس ملک میں سب جھوٹ چل رہا ہے جمہوریت جھوٹی ،لیڈران جھوٹے ،وعدے جھوٹے ، نعرے جھوٹے،میڈیا گروپس جھوٹے ادارے جھوٹے ہر ایک چیز جھوٹ اور فریب پر مبنی ہے ۔قارئین ہم اکثر فلموں میں دیکھتے ہیں کہ انڈر ورلڈ کے لوگ آپس میں کس طرح ایک دوسرے سے دستِ گریباں ہوتے ہیں لیکن جب کوئی ایسا وقت ان پر آن پڑتا ہے کہ جس سے ان کی جرائم سے بھری دنیا کو خطرات لاحق ہوجائیں تو کس طرح وہ تمام گروپس ایک ہوجاتے ہیں اور ایک دوسرے کو بچانے میں اپنا اپنا کردار ادا کرتے ہیں۔

آج ہمارے ملک کی سیاست کچھ اسی طرح کی عکاسی کررہی ہے ۔ ایک دوسرے سے دستِ گریباں آج ہمنوا بنے بیٹھے ہیں کس طرح جمہوریت کا مذاق اڑا رہے ہیں جمہوریت کی آڑ لیکر کس طرح اس کی توہین کر رہے ہیں۔پی ٹی آئی کے سربراہ نے ان سیاست دانوں سے سوال کیا ہے کہ وہ نظامِ جمہوریت کی وضاحت کریں یہی سوال اٹھارہ کڑور عوام کا بھی ہے ان نام نہاد سیاستدانوں سے ان ٹی وی اینکر پرسنوں سے جو خود کو عوام کی آواز بتاتے ہیں ان سابقہ اعلیٰ عہدے داروں سے جو عوام کو تو ڈی ریل ہوتا دیکھ سکتے ہیں لیکن موجودہ جمہوریت کو ڈی ریل ہوتا نہیں دیکھ سکتے خدارا بتائیں جمہوریت کیا ہے آخر جمہوریت کے کیا معنی ہیں،کیا جمہوریت کے معنی عوام کے حقوق کا قتل اور اقتدار صرف سرمایہ دار وڈیروں جاگیرداروں بروکریٹس کے حوالے کرنا ہے جنھیں 68 سال ہوگئے غریب عوام کا خون چوستے چوستے لیکن ان کی حواس ہے کہ ختم ہونے کا نام نہیں لے رہی ،موجودہ سسٹم کو بچانے اشرفیہ کس قدرسر توڑ کوششیں کررہاہے کہا ں تک اس کی جڑیں پھیلی ہوئی ہیں عوام اس کا ندازہ خود کرلیں ۔

موجودہ حالات کے پیشِ نظر عمران خان کو انڈر پریشر کیا جارہاہے عوامی تحریک کے قائد اور کارکنوں پر ریاستی آپریشن شروع ہوچکا ہے جھوٹے من گھڑت مقدمے بنائے جارہے ہیں۔عوام کو ہر سطح پر عوامی انقلاب اور لانگ مارچ سے روکا جارہا ہے نوجوانوں سے موٹرسائیکل چھین چھین کر جمع کی جارہی ہیں اور پھر دم بھرتے ہیں کہ ہم 18 کڑور عوام کے ووٹ سے آئے ہیں ہمیں 18 کڑور عوام نے اختیار دیا ہے کہ ہم اس ملک میں بادشاہت قائم کریں اپنے عزیزوں رشتے داروں کو وزیر مشیر بنائیں اپنی اولادوں کو بھارت ،چین عرب اسٹیٹ سے بزنس کنٹریکٹ دلوائیں دوسروں سے کہا جائے پاکستان آؤ یہاں انڈسٹریز لگاؤ اور خود اپنا سارا کاروبار باہر لے جائیں یہ سب اختیارات حکمرانوں کو اس ملک کی 18 کڑور عوام نے ہی تو دئیے ہیں۔

قارئین ہمارا حکمرانوں سے شکوہ ایک طرف لیکن اس سے زیادہ ہمیں شکایت ان لوگوں سے ہے جو اس سارے سسٹم کو سپورٹ کرتے ہیں ایسے حکمرانوں کی حمایت کرتے ہیں جس کا ذکر ہم اوپر کرچکے ہیں ہم ایسے لوگو ں سے ضرور پوچھنا چاہینگے 68 سالوں سے مسلسل آزمائے جانے کے بعد جو مسلسل فیل ہوتا رہا اس کی حمایت کرنا اور اس نظام کو صحیح کہنا کس طرح درست ہے۔۔؟ اب اگر کوئی یہ کہتا ہے کہ جنابِ اس نظام کو ڈکٹیٹروں نے چلنے ہی نہیں دیا توہم اس کی یہ دلیل نہیں مانتے کیوں کہ اس نظام کی ناکامی کی وجہ سے ہی ڈکٹیٹروں کو اقتدار پر آنے اور عوام کی حمایت کا راستہ ملتا آیا ہے کل بھی اور آج بھی، جتنے عرصے بھی سول حکومت قائم رہی حکمرانوں نے عوام کے حقوق کو غصب کیا اور آئین و قانون کی دھجیاں بکھیرتے رہے آئینِ پاکستان میں ترامم کر کر کے اس کی اصل شکل بگاڑ دی گئی ہر کوئی اپنے مقاصد کے لیے آئین کو استعمال کرتا رہا۔

آ ج بھی سب یہی کررہے ہیں آج کل تو حکمرانوں کو آئین پاکستان سے اس قدر محبت ہوگئی ہے کہ وہ آئین سے ہٹ کوئی غیر آئینی بات کرنے کو تیار نہیں ۔ جو مارچ کل تک جائز تھا آج وہ غیر آئینی ہوگیا ۔ بقول اُن کے عمران خان اور طاہرالقادری کے تمام اقدامات غیرآئینی ہیں ۔ لیکن کیا عوام نہیں جانتی کے ماضی میں یہی غیرآئینی اقدامات دیگر کتنی ہی سیاسی جماعتوں نے اٹھائے ہیں؟عوام سب جانتے ہیں سب کچھ سمجھ چکے ہیں اسی لیے بار بار انقلاب اور کرپٹ و فرسودہ نظام سے باہر نکلنے کی جدجہد جاری رکھے ہوئے ہیں۔

ہم صرف حکمرانوں سے ہی نہیں تمام سیاسی جماعتوں سے مخاطب ہوتے ہوئے کہتے ہیں کہ یہ آزادی کی جنگ عمران خان یا طاہرالقادری کی نہیں عوام کی ہے آپ ہوسکتا ہے عمران خان کے آزادی مارچ اور طاہر القادری کے انقلاب کو تو روک سکتے ہوں لیکن اتنا یاد رکھیں جس دن اس ملک کی 18 کڑور عوام نے اپنے طور پر آزادی مارچ کا فیصلہ کرلیا وہ دن یقناً دنیا کی تاریخ میں انقلاب بھی لائیگا اور آزادی بھی۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :