فلمی ہیرو یا میڈیا اینکر

جمعہ 8 اگست 2014

Hussain Jan

حُسین جان

میڈیا کی سب سے بڑی خوبی اس کی سنجیدگی میں چھپی ہوتی ہے۔ لوگوں کو با خبر رکھنا ، لوگوں کے جذبات طاقت کے ایوانوں تک پہنچانا ،پوری دُنیا کو آپس میں جوڑے رکھنا سب میڈیا کے کام ہیں۔ پاکستان میں جب سے میڈیا نے نام نہاد آزادی حاصل کی ہے تب سے ہمارے ملکی میڈیا میں سنجیدگی نام کی کوئی چیز باقی نہیں رہی۔ آپ دُنیا کی کسی بھی فلم کا پرومو دیکھ لیں جس میں فلم کے سب سے دلچسپ مناظر دیکھائے جاتے ہیں تاکہ زیادہ سے زیادہ لوگوں کو دیکھنے کی ترغیب دی جاسکے۔

اسی طرح ہمارے ہاں ٹاک شوز کے پرومو بھی چلائے جاتے ہیں۔ لیکن یہ اتنے بونگے ہوتے ہیں کہ ان کو دیکھ کر لگتا نہیں کہ اس پروگرام میں کسی مسئلے کا حل پیش کیا جاتا ہوگا۔ ٹاک شوز کے اینکر کو ایک ہیرو کی طرح پیش کیا جاتا ہے ۔

(جاری ہے)

تھری پیس سوٹ پہنے خود کو دانشور ثابت کرنے کی کوشش میں یہ صاحب غریب عوام کے تمام مسائل کا حل دیکھانے کی کوشش کرتا ہے۔

ان اینکرز کے لیے الگ سے میک اپ آرٹسٹ ہائر کیا جاتا ہے جو ان کہ چہرے پر شرافت کا نقاب چڑھانے کی کوشش کرتا ہے۔ یہ کام بالکل اس طرح کیا جاتا ہے جیسے فلم کے ہیرو یا ہیرئن کو شوٹ سے پہلے تیار کیا جاتا ہے۔ غریب عوام کے دکھوں کا رونا رونے والے یہ اینکر اپنی زندگی میں موج مستی کرتے ہیں جس کا غریب آدمی تصور بھی نہیں کرسکتا۔ اس بات میں بھی کوئی شک نہیں کہ تمام کہ تمام اینکرز ہی ایسے ہیں بہت سے ابھی بھی ایسے موجود ہیں جو عوام کے مسائل پر دل سے بات کرتے ہیں اور عوامی جذبات کی قدر کرتے ہیں۔

ہمارے نام نہاد اینکرز کے سکینڈلز کی تمام تفصیل اینٹرنیٹ سے حاصل کی جاسکتی ہے۔
اپنے یورپ امریکہ کے سفر کو مزے لے لے کر سنانے والے شائد یہ بھول جاتے ہیں کہ اس ملک کے عوام کو تو دو وقت کی روٹی مشکل سے میسر ہے وہ اتنے پر تعائیش سفر کیسے کرسکتے ہیں۔جہاں عوام کے پاس ریل پر سفر کرنے کے پیسے نہ ہو وہ ہوائی جہاز پر سفر کیسے کریں گے۔ لاکھوں میں تنخوا لینے والے اور خود کو شاہ کا وفادار ثابت کرنے والے آج ہمارے opinion leaderبنے ہوئے ہیں۔

یہ جس کو چاہیں ہیرو بنا دیتے ہیں جس کو چاہیں زیرو۔ جیسے ہی کیمرہ آف ہوتا ہے یہ عوام کو گالیاں دیتے نظر آتے ہیں۔ شوز میں جن سے لڑ رہے ہوتے ہیں بریک میں اُنہی کی تلوئے چاٹ رہے ہوتے ہیں۔ پری پلان شوز کا انعقاد معمول کی بات ہے۔ ناچنے گانے والیوں کو رمضان جیسے مبارک مہینے میں اسلامی پروگرام کی اینکرز بنا دیا جاتا ہے۔ خود کے جسم کو کینوس کے طور پر پیش کرنے والی اداکارہ کو مذہبی پروگرام میں پیش کرنے والے یہ بھول گئے ہیں کہ اللہ کی لاٹھی بے آواز ہوتی ہے۔

اُس کے دین کا مذاق بنانے والوں کو اپنے احتساب کے لیے بھی تیار رہنا پڑے گا۔
موجودہ دور میں ان اینکرز نے وہ رتبہ حاصل کر لیا ہے جو سیاستدان کئی کئی سالوں کی "محنت" سے حاصل نہیں کر پاتے۔ کسی بڑئے سیاستدان تک رسائی تو ہو سکتی ہے مگر ان اینکرز حضرات تک ناممکن ہے۔ ان کو اپنے عزیز و اقارب کے سفارشی فون آتے ہیں اور یہ سفارشیں کرتے بھی ہیں مگر ہمیشہ اس بات کی تردید کرتے نظر آئیں گے۔

بہت سے اینکر ز باقاعدہ کالم نگار بھی ہیں اور اپنے اپنے کالموں میں خود کو فرشتہ ثابت کرنے کی پوری پوری کوشش کرتے پائے جاتے ہیں۔بڑئے بڑئے سیاستدانوں سے اپنے "مضبوط" تعلقات کو بھی یہ لوگ انجوائے کرتے ہیں۔ اب تو ان کے بڑے بڑے گھر بھی سیاستدانوں کی کالونیوں میں ہیں۔ کاروبار میں تو جلد ترقی کی وجہ سمجھ آتی ہے مگر نوکری میں یہ لوگ اتنی جلدی ترقی کر جاتے ہیں کہ کل کے پیدل چلنے والے آج کئی کئی کروڑ کی گاڑیوں کے مالک ہیں۔


یہ اینکرز کسی بھی انسان کی توہین کرنا اپنا حق سمجھتے ہیں مگر ان کو کوئی غلطی سے بھی کچھ کہ دے تو کئی کئی دن اُس کے خلاف اپنے پروگراموں میں پراپگنڈہ کرتے رہتے ہیں۔ جنرل مشرف نے اپنے ایک بیان میں کہا تھا کہ لال مسجد آپریشن کے لیے اُسے کچھ اینکرز نے بھی مشورئے دیے تھے مگر آج تک کسی نے اُن اینکرز کو پوچھا تک نہیں۔ اب تو اینکرز وزیر مشیر بھی بننے شروع ہو گئے ہیں۔

کسی کوہ سفیر بنا دیا جاتا ہے تو کسی کو قائم مقام چیرمین۔ کسی کے بچوں کو نوازا جاتا ہے تو کسی کی بیگم کو کریڈٹ کارڈ دے دیا جاتا ہے۔ عوام کے دکھوں کا دم بھرنے والے یہ صحافی خود شاہانہ زندگی گزارنے کے عادی ہو چکے ہیں۔ کبھی کوئی پانی پر چلنے والی گاڑی کی پروموشن کر دیتا ہے تو کبھی کوئی پاکستان کے محسنوں کو زلیل کرنا شروع کردیتا ہے۔ بہت سے تو ایسے ہیں جو بڑے بڑے ٹائیکون کے تلوئے بھی چاٹتے نظر آتے ہیں۔

یہ وہ لوگ ہیں جن کو ہر طرح کا استثنیٰ حاصل ہوتا ہے۔ کالی عینک لگاکر پراڈو سے اترتے ہوئے یہ غریب انسان کا انٹرویوں کرتے ہوئے اتنے عجیب لگتے ہیں کہ ان کو اندازہ بھی نہیں۔ روز پرائم ٹائم کے نام پر اپنا اپنا بازار سجاکر بیٹھ جاتے ہیں اور عوام کے حقوق کے لیے لڑتے نظر آتے ہیں۔ دوسروں کے لیے نصیت بھرئے الفاظ بولنے والے لوگ خود کبھی کسی بات پر عمل نہیں کرتے۔

اب تو بہت سے اینکرز ملکی پالیسی میں بھی دخل اندازی کرتے نظر آتے ہیں۔ میڈیا والے کہتے تو ہیں کہ ہم خود کو بھی احتساب کے لیے پیش کرتے ہیں مگر ملک میں ہے کون جو ان کا بھی احتساب کر سکے کہ جب چاہیں جس کو مرضی ننگا کر دیں۔ پیسوں کے لیے روز روز میڈیا ہاوسز بدلنا ان کا وطیرہ بن چکا ہے۔ اب تو یہ ریٹنگ کے لیے آپس میں بھی لڑ پڑتے ہیں۔ چند میراثی لابیٹھا دے جاتے ہیں تاکہ لوگوں کو ناچ تماشہ دیکھایا جاسکتے اور پیسے کمائیں جائیں ۔


ایسے لوگوں نے عوام کی ترجمانی کیا کرنی ہے کہ ان کی لڑائیاں بھی ذاتی نوعیت کی ہوتی ہیں۔ اگر ایک اینکر نے اپنے پروگرام میں کسی دوسرئے اینکر پر تنقید کر دی تو اُس کی خیر نہیں پورا پورا مہینہ اسی پر پروگرام کرتے رہیں گے۔ اب بہت سے صحافی عوامی ترجمان نہیں رہے بلکہ حکمرانوں اور سیاسی جماعتوں کے ترجمان بن چکے ہیں۔ اپنی دکان سجانے کے لیے یہ کسی بھی حد تک جاسکتے ہیں۔ جس طرح پاکستان میں فلم انڈسٹری کے زوال کی وجہ غندہ گردی پر مبنی فلمیں تھیں اسی طرح ایک وقت آئے گا اینکرز میڈیا اندسٹری کے سوال کی وجہ بنے گے۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :